ایک انوکھی تقریب

ملک کی معروف اور منفرد دانش گاہ جامعة الرشید کراچی کی خوبصورت،دیدہ زیب،عالیشان اور بلند وبالا عمارت کے سامنے جامعة الرشید کے کیمپس 2کے لئے مختص وسیع وعریض میدان”اوپن ایئر آڈیٹوریم“میں تبدیل کردیا گیا تھا۔تاحد نگاہ سلیقے سے سجی نشستوںپر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ بیٹھے تھے،کراچی کا خوشگوار موسم ہلکی ہلکی ہوائیں،رنگ برنگے پھولوں اور گلدانوں نے اس آڈیٹوریم کو چار چاند لگادئے تھے۔حسن ترتیب اور سلیقہ مندی کو دیکھ کر اس جگہ پر آڈیٹوریم کا گماں گزرتا تھا اور اس کی وسعت وکشادگی کو دیکھ کر ایک بڑا پنڈال دکھائی دیتا تھا ۔لائٹنگ ایسی کہ آنکھیں خیرہ کردیتی،سیکیورٹی کا وہ فول پروف بندوبست کہ شایدسرکاری اداروں کے بس میں بھی نہ ہو،اسٹیج کو دیکھ کر انسان عش عش کراٹھتا ،اسٹیج کے عقب میں ایک بڑی سی سکرین نصب کی گئی تھی جس پر تعارف،خدمات،پروگرام کی ترتیب وتفصیل ، مہمان گرامی اور مقررین کے اسمائے مبارکہ چل رہے تھے۔ اسٹیج کے دائیں اور بائیں دونوں اطراف میں مخصوص نشستیں تھیں جو ان خوش نصیب فضلا، گریجویٹس اور حفاظ قرآن کے لئے مختص تھیں جن کی خاطر یہ بزم سجائی گئی تھی ،جبوں اور دستاروں اور عباﺅں اور قباﺅں سے مزین ان نو خیز علماءکے چہرے خوشی ومسرت سے دمک رہے تھے ،یوں محسوس ہوتا جیسے ستارے جگمگ جگمگ کررہے ہوں۔

پنڈال کی اگلی نشستوں پرملک بھر سے تشریف لائے ہوئے اکابر علمائے کرام،مشائخ عظام،اہل علم،عدلیہ،صحافت،تجارت اور تعلیم سمیت دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات جلوہ افروز تھیں۔تقریب کا منظر اس قدر محسور کن،دلآویز اور متاثر کن تھا کہ انسان اس حسنِ انتظام اور سلیقہ مندی کو دیکھتا ہی رہ جاتا ۔یہ تقریب کوئی عمومی جلسہ یا اجتماع نہ تھا جس میں شرکت کی دعوت عام ہو بلکہ اس تقریب تمام شرکاءباقاعدہ مدعو تھے ۔طویل غور وخوض اور سوچ وبچار کے بعد ان تمام حضرات کی فہرست مرتب کی گئی جنہیں اس تقریب میں شرکت کی دعوت دینی تھی ۔اس فہرست کی تیاری میں اس بات کا خاص اہتمام کیا گیا کہ یہ قریب محض ایک تقریب ہی نہ ہو بلکہ گلہائے رنگا رنگ کا گلدستہ ہو ۔فہرست کی تیاری کے بعد دعوت نامے جاری کیے گئے ۔ جامعة الرشید کی اس تقریب کے دعوت نامے ہی ایسے تھے کہ First impression is the last imression ”یعنی پہلا تاثر ہی آخری تاثر ہوتا ہے “ کا صحیح مصداق تھے۔دعوت نامہ دیکھ کر جس قسم کی تقریب کا نقش دل ودماغ پر ثبت ہوا تقریب میں پہنچ کر اندازہ ہوا کہ ”لیس الخبرکالمعاینہ“یعنی دیکھا اور سنا برابر نہیں ہوتا ۔دعوت نامہ محض دعوت نامہ ہی نہ تھا بلکہ اس کے ساتھ تعارف نامہ بھی تھا تاکہ جو مہمان اس تقریب میں اپنے کسی عذر کی وجہ سے شریک نہ ہوسکیں تو وہ بھی جامعة الرشید کے تعارف وخدمات سے ناآشنا نہ رہیں اور جو اس تقریب میں شرکت کرنے کے لئے تشریف لائیں وہ بھی بالکل خالی الذہن نہ ہوں۔

جامعة الرشید کی یہ سالانہ تقریب جہاں جامعة الرشید کا سالانہ کانووکیشن تھا جس میں جامعة الرشید کے مختلف اور متنوع شعبہ جات سے تعلیم کی تکمیل کرنے والے خوش نصیب علماءوفضلاءاور حفاظ کی دستار بندی اور ان میں انعامات واسناد کی تقسیم کا اہتمام کیا گیا تھاوہیں اس موقع پر جامعہ الرشید کا کیمپس 2کا سنگ بنیاد بھی رکھا جانا تھا۔تقریب کے جواں سال،ہر دلعزیز اور باصلاحیت میزبان سید عددنان کاکا خیل کی نقابت ومیزبانی بلا شبہ سونے پر سہاگے کے مترادف تھی۔ مولانا عدنان جس خوبصورتی ،فصاحت وبلاغت، برمحل جملوں اور برجستہ گوئی کے ساتھ اس تقریب کی کاروائی چلاتے ہیں وہ انہی کا خاصہ ہے۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا قاضی عبدالرشید نے اپنے مخصوص اور موثر انداز میں مدارس دینیہ بالخصوص جامعہ الرشید کے کردار وخدمات پر روشنی ڈالی ،جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد کے مہتمم مفتی محمد طیب نے انتہائی فکر انگیز گفتگو کی ،وزیر اعظم کے مشیر مرزا اختیار بیگ نے پاکستان کے مختلف نظام ہائے تعلیم کو خرابی کی بنیاد قرار دیا اور جامعہ الرشید کی طرف سے جدید اور قدیم علوم میں ہم آہنگی کی کوششوں کو امید کی کرن قرار دیا۔جسٹس خلیل الرحمن خان نے بڑے واشگاف الفاظ میں اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ لارڈ کلائیو کے نظام تعلیم سے گزر کر آنے والے ہم لوگوں کو بابو تو بنا دیا گیا لیکن ہمیں تعلیم نہیں دی گئی ،انہوں نے کہا کہ علماءہم سے زیادہ علم رکھتے ہیں ہم سے زیادہ بہتر انداز سے اپنا نقطہ نظر پیش کر سکتے ہیں ۔جسٹس خلیل الرحمن نے دینی مدارس کو روح محمدی کی حفاظت کے قلعے قرار دیا۔پنجاب ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس خواجہ محمدشریف نے مولانا عدنان کی جرات وبے باکی کو بھی خراج تحسین پیش کیا اور برصغیر میں تحریک ولی اللہی کے اثرات ونتائج کا بھی تذکرہ کیا ۔انہوں نے بتایا کہ میں نے آج جامعہ الرشید میں شکرانے کے نوافل ادا کیے ہیں ۔ملک کے معروف صحافی حامد میر نے اس تقریب میں شرکت کو اپنی خوش قسمتی قرار دیا اور کہا کہ جامعہ الرشید صرف میرے آپ کے لیے ہی اور پاکستان کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کے لیے سرمایہ افتخار ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جامعہ الرشید کا یہ ماحول اس پروپیگنڈے کی نفی کرتا ہے جو آج مدارس کے بارے میں پھیلایا جا رہا ہے ۔انہوں نے اعتراف کیا کہ پاکستانی مدارس کے ساتھ میڈیا ناانصافی کا سلوک کر رہا ہے لیکن ایک وقت آئے گا جب میڈیا مدارس کے کردار وخدمات کو اجاگر کرے گا۔جسٹس سعید الزمان صدیقی نے بھی جامعة الرشید کی خدمات کو زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ۔

تقریب کے دوران وقتاً فوقتاً مختلف دستاویزی پروگرام چلائے جاتے رہے جو عبدالعزیز راجہ اور حذیفہ شہزاد کی کاوشوں کا ثمر تھے ۔ان دستاویز ی پروگراموں میں جامعة الرشید کے مختلف شعبہ جا ت کا تعارف بھی تھا اور کارگزاری بھی ۔تقریب کے دوران شیخ العرب ولعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒکی کتاب نقش حیات سے ماخوذ دستاویز ی پروگرام ”انگریزوں نے ہندوستان کو کیسے لوٹا ؟“انتہائی معلوماتی اور چشم کشا تھا۔تقریب میں ایک کمسن بچے نے جس خود اعتمادی سے فصیح وبلیغ عربی میں تقریر کی اس پر سب عش عش کر اٹھے۔قائد کشمیر مولانا سعید یوسف نے اپنی مختصر مگر جامع اور پر مغز تقریر کے ذریعے مجمع لوٹ لیا۔تقریب کے اختتام پر یکے بعد دیگرے دو عزیزالرحمن تشریف لائے ۔یہ دونوں ہم نام حضرات بلاشبہ ختامہ مسک ثابت ہوئے ۔جامعہ دارالعلوم کراچی کے مولاناعزیز الرحمن نے ذہنوں کوخطاب کیا جب کہ حضر ت اقدس مولانا پیر عزیز الرحمن ہزاروی نے دلوں کو مخاطب کیا ۔مولا نا عزیر الرحمن نے مدارس کے سسٹم کی وضاحت کی اور پیر عزیز الرحمن نے مدارس کا مقصد بیان کیا ۔مولانا عزیز الرحمن نے افکار ونظریات کی تطہیر کی کوشش کی اور پیر عزیزالرحمن نے قلوب کے تزکیے اور اعمال کی اصلاح پر زور دیا ،مولانا عزیز الرحمن نے مدارس کے نصاب میں موجود مواد کو جدید اصطلاحات میں پیش کیا اور پیر عزیز الرحمن نے نام نہاد تجدد پسندی کی دھجیاں اڑائیں ۔

تقریب میں ملک بھر کے صف اول کے تمام دینی مدارس کے اکابر اور جید اساتذہ کرام کی شکل میں بھر پور نمائندگی موجود تھی،ان اکابر نے نوجوان فضلاءکے سروں پر دست شفقت رکھا،انہیں دستار فضیلت پہنائی، ان میں انعامات تقسیم کیے اور انہیں ڈھیر ساری دعاﺅں کا زاد راہ عنایت فرما کر مستقبل کے سفر پر روانہ کیا ۔یہ تقریب مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کو علمائے کرام اور اہل مدارس کے کردار وخدمات اور حسن انتظام سے آگاہ کرنے کی کوشش تھی ۔اور یہ کوشش یوں کامیاب رہی کہ تمام مقررین اورمہمانان گرامی نے اپنے تاثرات میں کھلے دل سے اس بات کا اعتراف کیا۔اکثر مہمان گرامی نے اس تقریب میں شرکت کو اپنی خوش نصیبی اور اپنی زندگی کا خوشگوار تجربہ قرار دیا ۔

یہ تقریب مسٹر اور ملا کے درمیان حائل کی گئی خلیج کو پاٹنے کی ایک کوشش تھی چنانچہ اس تقریب کے دوران ان دونوں طبقات کے لوگ باہم شیر وشکر دکھائی دیئے ،یہ تقریب خاک وخون میں لتھڑے ہوئے شہر کراچی میں امن وسکون کا پیغام تھااوراہلیان کراچی نے ا س گوشہ عافیت میں آکر سکھ کا سانس لیا۔

یہ تقریب دہشت گردی ، قتل وغارتگری،کرپشن ،مہنگائی ،لوڈ شیڈنگ اور ظم وزیادتی کے شکار اس معاشرے کی گھٹن کو کم کرنے کی ایک کوشش تھی جو بلا شبہ نتیجہ خیز رہی۔یہ تقریب اپنی مددآپ کے تحت تعلیم کے فروغ اور علوم ومعارف کی روشنیاںباٹنے والے لوگوں کی شبانہ روز کاوشوں کا اعتراف تھا چنانچہ تقریب کے جملہ شرکاءجامعة الرشید کی انتظامیہ،اساتذہ کرام اور فیکلٹی ممبران کی مساعی جمیلہ کو خراجِ تحسین پیش کرتے رہے۔

تقریب کے آخر میں وقت کے عظیم مشائخ حضرت مولانا عبدالصمدہالیجوی دامت برکاتہم العالیہ، حضرت اقدس مولاناعزیز الرحمن ہزاروی دامت برکاتہم العالیہ،حضرت مولانا یحییٰ مدنی دامت برکاتہم العالیہ جیسے اکابر نے جامعہ الرشید کے کیمپس 2کا سنگ بنیاد اپنے دست اقدس سے رکھا۔تقریب کا اختتام حضرت مولانا پیر عزیز الرحمن کی رقت آمیز دعا سے ہوا جس دعا میں تمام حاضرین سسکیاں لے کر روتے رہے ۔

اپنے محسن ومربی حضرت مولانا عبدالغفار دامت برکاتہم اور انتہائی شفیق اور مہربان استاذ محترم حضرت مولانا مفتی محمد فاروق دامت برکاتہم کی قیادت میں مجھے اس تقریب میں شرکت کا موقع ملا،اساتذہ کرام کی برکت سے سفر بھی یاد گار رہا اور جامعہ الرشید میں بیتے لمحات بھی ،بہت سے احباب بالخصوص اپنی صحافتی برادری سے ملاقاتیں ہوئیں،مدارس میڈیا ورکشاپ کی وجہ سے زیادہ دن رکنا ممکن نہ تھا اس لیے صرف ایک روز ہی جامعة الرشید میں قیام رہا لیکن جامعہ کے شعبہ جات، حسن انتظام،دینی خدمات اور جامعہ کے ارباب بست وکشاد کی مجالس میں بیٹھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔اللہ اس جامعہ کو نظر بد سے بچائے ،اسے دن دوگنی رات چوگنی ترقی نصیب فرمائے،اس کی انتظامیہ کو جزائے خیر عطا فرمائے ،حضرت الاستاذ کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم ودائم رکھے اور اہل دل کی اس ادارے سے وابستہ توقعات کو بارآور فرمائے۔ آمین
Abdul Quddoos Muhammadi
About the Author: Abdul Quddoos Muhammadi Read More Articles by Abdul Quddoos Muhammadi: 120 Articles with 142050 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.