تعلیمی بحران اور حکمران طبقے کی بے حسی۔

تعلیمی ادارے وہ نرسری ہیں جہاں انسان پر شعور کے دروازے کھلتے ہیں۔ اگر یہ شعبہ بھی حکمران طبقے کی بے حسی کا شکار ہوگیا تو قوم کے مستقبل کی ضمانت کیا ہے ؟

***تعلیم ادارے اور تعلیمی بحران **

قارئین ! ہنگامی حالات انتظامیہ کا امتحان ہوتے ہیں۔ قابلیت کی بنیاد پر موجود افراد اس سے نبٹنا بخوبی جانتے ہیں اسکے برعکس نااہل افراد نکتہ چینی اور الزامات دھرنے کے علاوہ کچھ اور کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو حکومت کی باگ ڈور اہل لوگوں کے پاس ہو تو وہ مسائل کو دور اندیشی اور قابلیت کے بل بوتے پر حل کرتے ہیں جبکہ نااہل لوگ ان مسائل کو ایک دوسرے کے سر ڈالنے میں مصروف رہتے ہیں جس ک نتیجہ عوام بھگتتی ہے۔انہی نااہل افراد کی "بدولت" بحران اقوام کی اجتماعی زندگی پر نازل ہوتے ہیں۔ایسا سالہا سال سے پاکستان میں چلتا آرہا ہے۔ حکمران طبقہ آج تک یہ طے نہیں کرسکا کہ ملک کن بحرانوں کا شکار ہے اگر کیا گیا ہوتا تو آج ہم شاید یہاں آرٹیکل تحریر نہ کررہے ہوتے۔

ملک جن بحرانوں کا شکار ہے ان میں ایک بحران "تعلیم اور تعلیمی اداروں" کے حوالے سے بھی ہے۔ راقم نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ ایک زمانے میں سرکاری اسکول میں داخلہ کامیاب مستقبل کی نوید ہوتا تھا اور بہت ہی بہترین تعلیمی کیرئیر رکھنے والا سرکاری جامعات کا حصہ بنتے اور ملک وقوم کیلئے مفید ثابت ہوتے تھے۔

ایک وقت تھا جب کالجز ،جامعات طلباء و طالبات کی ذہنی نشو و نما میں بنیادی کردار ادا کرتی تھیں۔ مباحثے،تقاریر کے مقابلے، سیاسی نظام کا جامعات میں ہونا، الیکشنز، اس سے پہلے کی رونق، طلباء کا اپنے نظریات کا پرچار کرنا اور لوگوں کو اپنے مقاصد سے آگاہ کرنا۔ الیکشنز میں کامیابی کے بعد جامعات کی بہتری کیلئے دلجمعی کیساتھ کام کرنا۔اس امر سے انکار نہیں کہ حالات و واقعات کچھ ایسے بھی رونما ہوئے کہ جن کا تاثر طلباء وطالبات پر بری طرح اثر انداز ہوا مگر اسکا حل پابندی لگانانہیں بلکہ اسکا تدارک کرنا ہے کیونکہ یہ واحد ذریعہ ہے جو جمہوریت کی حقیقی روح کو ان میں زندہ رکھتا ہے۔ دنیا کے سیاسی منطر نامے پر اگر آپ نظر دوڑائیں تو آپکو زیادہ تر لوگ جامعات کی سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے نظر آئینگے۔

سیاست کی نرسری یہ جامعات ہی تھیں کہ جہاں سے مستقبل کا لیڈر قوم کا ملتا تھا۔ دنیا کے کم و بیش تمام ممالک کے وزراء اپنے وقتوں میں طلباء تنظیموں سے واقفیت رکھتے تھے۔ یہیں سے ملک وقوم کی خدمت کا جذبہ ان میں اجاگر ہوتا تھا۔یہاں کا ماحول انکو قوم کا مزاج سمجھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ یہاں سے وہ لیڈر قوم کو میسر آتے جو بنیادی طور پر سسٹم میں گھل گئے ہوتے ہیں۔ یہی لوگ ملک وقوم کو دور اندیشی اور اپنی حکمت سے قوم کو مشکلات سے لڑنا سکھاتے ہیں۔ ان حالات میں یہی لوگ مشکلات سے نبرد آزما ہونے کا گر جانتے ہیں نہ کہ " نابالغ و نااہل سیاستدان"۔۔۔۔

حالات نے پلٹا کھایا آج سرکاری اسکول "اصطبل" بن گئے اور مستقبل کے "معمار" دیہی علاقوں میں اصطبل سے اپنی تعلیمی ضروریات پوری کررہے ہیں۔ دوسری طرف نجی اسکولوں کا معیار گر چہ بہتر ہے مگر انھوں نے غریب والدین کی جیب کی ایسی خبر لی ہے کہ خدا کی پناہ ! ذکر اگر کراچی کے تناظر مین کریں تو " ستر سے اسی فیصد" طلباء نجی اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں جہاں انکے والدین اپنا پیٹ کاٹ کر انکے مستقبل کو سنوارنے میں دن رات لگے ہیں۔ نجی و سرکاری کالجز بھی خانہ پوری کرنے کے علاوہ کچھ خاص تعلیم و تربیت میں اپنا کردار ادا نہیں کرتے (یہاں دیکھا جائے تو کالجز مین فرد عمر کے اس حصے میں ہوتا ہے کہ اگر رہنمائ حاصل نہ ہو تو زندگی کی ریل گاڑی پٹڑی سے اتر کر غلط سمت میں رواں دواں ہوجاتی ہے مگر حکمران طبقے کو اس سے بھی کوئ سروکار نہیں ہے )سرکاری جامعات کا حال بھی مختلف نہیں۔

حکمران طبقے کی مفاد پرستی نے نوجوان نسل اور آنے والے دنوں میں اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والوں کے مستقبل کو تاریک کر کے رکھ دیا ہے۔

موجودہ حالات میں حکمران طبقے کے غیر دانشمندانہ اور دور اندیشی سے عاری فیصلوں نے لاکھوں بچوں کا مستقبل داو پر لگادیا۔ تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہزاروں اساتذہ آج بے یقینی کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ اس "تعلیمی بحران" کے سخت نتائج قومی تعلیمی ادارے جامعات و کالجز میں داخلے کی وقت بھگتیں گے۔ حال تو یہ ہے کہ صوبائ و وفاقی وزراء برائے تعلیم کسی بات پر متفق نہیں۔

قوم کے معماروں کے مستقبل سے کھیلا جارہا اور اسکا کوئ پرسان حال نہیں۔ سرکاری و نجی چینلز پر دن رات اپنی صفائیاں دینے کہیں بہتر یہ ہے کہ پرخلوص طریقے سے کام کیا جائے مگر کارکردگی تو بہتر اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک آگے کوئ مقصد واضح نہ ہو۔اپنی باری پر آنا اور آکر بچہ کھچہ نوچ کر واپس چلے جانا اور پھر اپنی باری کا انتظار کرنا۔۔۔۔۔

کیا خیال ہے کہ اگر میرے آپکے گھر کے سامنے گندگی کا ڈھیر موجود ہو تو وہ خود صاف ہوجائیگا یا اسکو صاف کرنا ہماری ذمے داری ہے ؟ آج ہمارے ملک کے "بہترین دماغ" سب سے بہترین "ملازمت" کرنا تو گوارا کرلیتے ہیں مگر ملک و قوم کی فلاح و بہبود میں اپنا کردار ادا نہیں کرنا چاہتے(اشارہ میرٹ پر اچھی جامعات میں داخلہ ہوجانے کے بعد کی صورتحال کی طرف ہے )مگر یہ امید ہی تو ہے جو مایوسی کے اندھیروں سے انسان کو نکال باہر لاتی ہے۔ یہ امید ہی تو جو اس جذبے کو جنم دیتی ہے کہ اصلاح کا دروازہ ہمہ وقت کھلا ہے اور ہم کو اب اپنے فیصلوں کو درست کرنا ہے۔اپنوں کی فکر ہر سطح پر کریں۔ معاملات سے لاتعلق ہونا کمزور اقوام کا شیوہ ہے۔ مضبوط اقوام اپنا مستقبل خود لکھتی ہیں اور اسکو سنوارنے میں قوم کا ہر فرد اپنا کردار ادا کرتا ہے۔

اپنے حصے کا کام کریں اور یہ یاد رکھیں کے اپنے اٹھائے جانے والے ہر اقدام کے آپ اپنے رب کے حضور جوابدہ ہیں۔
متلاشی حق
سید منصور حسین (مانی)

Syed Mansoor Hussain
About the Author: Syed Mansoor Hussain Read More Articles by Syed Mansoor Hussain: 32 Articles with 22888 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.