پرائیویٹ سکولوں کی من مانیاں

تعلیم ایک بنیادی حق ہے اور یہ میں نہیں، دنیا کا ہر قانون اور ہر انسانی حقوق پر مبنی اعلامیہ ایسا ہی کہتی ہے۔ اس حق سے کسی کو محروم کردینا قانون کی خلاف ورزی کرنے کے مترادف ہے کیونکہ بذریعہ تعلیم ہی ایک انسان اپنی شخصی اور فکری نشونما کرتا ہے اور اس کے تسلسل سے اپنے ذہین میں پیدا ہونے والے کئ سوالوں کا جواب ڈھونڈ پاتا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ان تعلیمی اداروں کو خواہ، سرکاری ہوں یا پراییویٹ ،معاشرے میں خاص عزت بخشی جاتی ہے مگر یہ معاملہ ایسا نہیں رہتا جب دوسری اشیاء کی طرح تعلیم کو بھی نفع و نقصان کے ترازو میں تولنا شروع کردیا جاۓاور مارکیٹ میں اس کی مختلف قیمتیں لگائ جایئں اور ایسا ہی کچھ معاملہ پاکستان میں پرائیویٹ سکولوں کے ساتھ درپیش ہے۔ یہاں بچو ں کو طالب علم نہیں سمجھا جاتا بلکہ دکان میں آۓ ہوۓ ایک گاہک کی طرح ان کو محض پروڈکٹ کی شکل میں تعلیم بیچی جاتی ہے اور والدین بھی اس سکیم کے بھینٹ چڑھ کر اپنی جیب پر بوجھ ڈال دیتے ہیں۔ ان پرائیویٹ سکولوں کی انتظامیہ کو کوئ پوچھنے والا نہیں۔۔۔ ان سکولوں کی ٹیویشن فیسوں کا کوئ خاص معیار مقرر نہیں ،جس کا جتنا داؤلگ رہاہے وہ اتنی ہی اینٹھے جارہاہے۔ چھوٹے سے چھوٹے سکول کی فیس ماہانہ پانچ ہزار سے زیادہ ہے‘ داخلہ فیس الگ ہوتی ہے۔ یونیفارم سے لے کرپینسل تک تویہ اپنی مہیا کرتے ہیں اوروہ بھی مارکیٹ کے ریٹ سے کہیں زیادہ ریٹ پر۔ اتنی فیسوں کے لینے باوجوداگرسکول انتظامیہ گرمیوں میں ایرکنڈیشننرجیسی آسائش دے بھی دیں تواس کا بھی ہر بچے کوالگ سے ماہانہ تقریباً ہزار یا اس سے بھی زیادہ بھرنا پڑتا ہے- اس کے برعکس ٹیچروں کوبہت ہی کم تنحواہیں دی جاتی ہیں۔خیر!!! ایک عام آدمی کے لیے یہ بہت ہی دشوار ہوتا ہے کہ وہ اپنی معمولی سی ماہانہ آمدنی سے ان سکولوں کے خرچے پورے کرے۔رہی بات بچوں کےرزلٹ کی تو اس کی ذمہ داری ویسے ہی والدین پر ڈالی جاتی ہے کہ سکول میں بچہ صرف چھ گھنٹے گزارتا ہے جبکہ گھر پہ بچوں پہ توجہ نہیں دی جاتی اور اگررزلٹ خوش قسمتی سے اچھا آگیا تو اس کا کریڈٹ سکول والوں کا تو بنتا ہی ہےناں اب اتنا بوجھ بھی والدین پر نہیں ڈالنا!!!

یہ دلیل دی جاتی ہے کہ پھر پرائیویٹ سکولوں میں والدین اپنے بچوں کو کیوں پڑھاتے ہیں اور گورنمنٹ سکول کیوں نہیں بھیجتے؟ ان سے کوئ زور زبردستی تو ایسا نہیں کراتا! ہاں یہ بات درست ہے۔مگر گورنمنٹ سکولوں کا حال بھی تو نظر کے سامنے ہے‘ نہ کرسیاں نہ میزیں۔ اور اگر یہ موجود ہیں تو استادصاحب کہیں غائب ہیں۔ بدقسمتی سے گورنمنٹ سکولوں کے لیے مختص کی گئ فنڈنگ انہی پر نہیں لگائ جاتی۔اور یہ کمزوریاں نجی سکولوں کی کمائیوں اور من مانیوں کو مزید بڑھاوا دیتی ہیں۔اب پاکستان میں چونکہ انگریزی بھی سرکاری زبان کا درجہ رکھتی ہے لہٰذا انگریزی کو ایک خاص درجہ تک لکھناآنا اور جاننا ضرورت بن چکا ہے۔اوراس کو سمجھتے ہوۓ والدین اپنے بچوں کے لیے ا ن انگریزی سکولوں کا رخ کرتے ہیں چاہے ان کے وسائل اس بات کی اجازت دیں یا نہ دیں۔ ان سکولوں کے مالکان کا چونکہ بلاواسطہ یا بلواسطہ تعلق سیاسی جماعتوں سے ہوتا ہے جس وجہ سے ان کے ساتھ خاص رعائت برتتی جاتی ہے۔ مگر پاکستان کا آئین آرٹیکل ۴ یہ بتاتا ہے کہ قانون کے سامنے سب برابر ہے اور قانون تمام شہریوں سے ایک جیسابرتاؤ کرتا ہے۔امید ہے کہ ایس این سی Single National Curriculum والا اقدام کتابوں کی قیمتوں میں کمی کر نے ، پرائیویٹ سکولوں کی بدعنوانی کے خاتمے اوربچوں کو معیاری ومساوی تعلیم دینے میں اپنا حصہ ڈالے گا۔2019 میں سپریم کورٹ نے پرائیویٹ سکولوں کی زائدفیس لینے کے خلاف فیصلہ جاری کیا لیکن تاہم اس پر عمل درآمدنہیں ہورہا ہے ۔ لہٰذا متعلقہ سرکاری ادارے اور پیرا (PEIRA) ان سکولوں کی انتظامیہ سے گاہے بگاہے ٹیوشن فیسوں کے با رے میں پوچھ گچھ کرے اور ان کی ایک خاص حد متعین کرے جس سے تجاوز کرنا غیر قانونی قرار پایا جاۓ۔

Umme Aimen
About the Author: Umme Aimen Read More Articles by Umme Aimen: 5 Articles with 6969 views I am a final-year LLB student at the University of the Punjab. I am interested in writing about current issues at the national and international level.. View More