ہندوستان میں مسلمانوں پر ظلم و بربریت کی تاریک راتیں آج
بھی ختم نہیں ہوئیں آئے روز مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی داستانیں زبان
ِ زد عام ہیں اور ہندوستان کے اپنے اخبارات میں یہ واقعات شائع ہوتے ہیں ۔
ہندوستان میں تاریخی یونیورسٹی مولانا محمد علی جوہر کی وسیع و عریض اراضی
پر بھارتی حکومت نے قبضہ کر لیا ہے صرف یہی نہیں دیگر ایسے تعلیمی ادارے جو
مسلمانوں کے زیر انتظام چلتے ہیں ان سب پر اپناقبضہ جمانے کیلئے بھارت میں
مہم زوروں پر ہے ۔ نہ صرف تعلیمی اداروں بلکہ بھارت میں مسلمانوں کی مذہبی
عبادتگاہوں کوایک جانب مسمار کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب مذہبی عبادتگاہوں
کی اراضی پر بھارتی حکومت کی جانب سے ناجائز قبضہ کیا جا رہا ہے اور یہ روز
کی بنیاد پر ایسا کیا جا رہا ہے بات ادھر ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ ایسے تمام
علاقے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں سے ان کو مختلف حیلوں بہانوں سے بے
دخل کیا جا رہا ہے ۔
میڈیا رپورٹس کیمطابق اب تک صرف آسام میں ہی 5000ہزار مسلمانوں کو یہ الزام
لگا کر کہ وہ غیر قانونی طور پر قابض ہے حکومت اور پولیس نے انہیں گھر بدر
کر دیا ہے ۔پولیس کا مؤقف ہے کہ مذکورہ مسلمان غیر قانونی طور پر سرکاری
اراضی پر مقیم تھے ۔آسام سے مسلمانوں کو بے گھر کرنے کے لئے آپریشن تو ایسے
کیا گیا کہ جیسے یہاں دہشتگرد مقیم ہیں اور ان کے خلاف کوئی جنگ لڑنی ہے
سینکڑوں پولیس کے اعلیٰ افسران اور دیگر ریاستی اداروں کے سربراہان اس موقع
پر موجود تھے اور بے بس مسلمانوں کو جھوٹے الزامات لگا کر بے گھر کیا جا
رہا تھا اور انکی بے بسی ریاستی حکومت اور قانون نافذ کرنیوالے ادارے
دیکھتے رہے ۔
آسام میں مسلمانوں کو زبردستی بے گھر کرنے کی مہم کے دوران ہونیوالی جھڑپوں
کے نتیجے میں دو افراد جان کی بازی ہار گے اور 20افراد زخمی ہوگئے ،بھارتی
پولیس کی جانب سے مظلوم مسلمانوں پر شدید فائرنگ کی گئی اور لاٹھیوں کا
اندھا دھند استعمال کیا گیا مظاہرین کو نہ صرف بے گھر کیا گیا بلکہ انکو
مذکورہ علاقے سے بھگانے کیلئے شیلنگ اور فائرنگ جاری رکھی گئی اور انہیں
کئی کلو میٹر دور بھگا دیا گیا معصوم نہتے مسلمانوں پر بھارت نے بربریت کی
وہ تاریخ رقم کی جسکی مثال شاید ہی ماضی میں کہیں ملتی ہو۔
آسام واقعہ کاسوشل میڈیا پر ایک کلپ وائر ل بھی ہوا ہے جس میں دیکھا جا
سکتا ہے کہ ایک شہری کو کلوز رینج سے گولی چلانے کے بعد اس پر درجنوں سپاہی
ڈنڈوں اور مکوں سے حملہ آور ہیں اور ایک صحافی جواس واقعہ کی ویڈیو بنا رہا
ہے پولیس نے اسے بھی نہ بخشااور اس کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا یہ تو ایک
واقعہ ہے جو سوشل میڈیا پر آگیا مگر ایسے درجنوں واقعات جن کی خبریں کسی
میڈیا پر نہیں آتیں۔
دنیا کا کوئی مذہب دنیا کا کوئی معاشرہ اس طرح کے ظلم اور اس طرح کے پاگل
پن اور جنونی رویے کو برداشت کرنیکا متحمل نہیں ہو سکتا اس پاگل پن اور
جنونی رویے کا مظاہرہ دیکھ کر انسانیت شرمندہ ہو جاتی ہے۔اس سانحہ کی عالمی
سطح پر انکوائری ہونی چاہیے انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس سانحہ کو عالمی
سطح پر اٹھانا چاہیے ۔
بھارت ایک جانب تو دنیا میں بلندو بانگ دعوے کرتا ہے کہ وہ ایک جمہوری ملک
ہے مگر دوسری جانب اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے اسے دیکھ کر
ہر ذی شعور اور انصاف پسند معاشرہ شرم سے پانی پانی ہوگیا ہے ۔
دوسری جانب خود کو سیکولر ذہن و فکر کا حامل جمہوری اور امن پسند ملک
کہلوانیوالا بھارت اس وقت اقلیتوں کیساتھ جو رویہ رکھے ہوئے ہے حیرت کی بات
یہ ہے کہ اس پر بھارت میں اور عالمی سطح پر موجود حقوق انسانی کی تنظیموں
کے لب خاموش ہیں اوربھارت کے انصاف کے ادارے وہاں کی عدالتیں سبھی نے چپ
سادھ لی ہے حالانکہ اس سطح پر انسانیت سوز مظالم پر بھارتی سپریم کورٹ کو
از خود نوٹس لینا چاہیے تھا کیونکہ ایسے اقدامات ریاستی بدنامی کے اسباب
پیدا کرتے ہیں مگر جب ریاست کا بیانیہ ہی اقلیتوں کے حقوق صلب کرنا ہو تو
پھر وہاں تمام اداروں کے حقوق بھی ریاست سلب کر لیتی ہے یہی اسلوب اس وقت
بھارتی حکمرانوں کا ہے۔
محض مفروضات پر بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام اور اجتماعی بربریت کا
بازارگرم ہے جوعالمی دنیا کے لئے بھی بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے۔
بھارت میں گوشت کے کاروبار سے وابستہ مسلمانوں پر بھی زندگی تنگ کی جا رہی
ہے ۔ریاستی انتظامات کچھ اس طرح سے کئے جا رہے ہیں کہ بھارت میں کہیں بھی
کوئی مسلمان گوشت کی خریدو فروخت سے دور رہے حال ہی میں بھارتی عوام میں
لاکھوں کے حساب سے مویشیوں کی تقسیم کی گئی مگر اس تقسیم سے مسلمانوں کو
دور رکھا گیا۔
رواں ماہ مولانا امتیاز گاڑی میں فیملی کے ہمراہ سفر کر رہے تھے کہ بھارتی
پولیس (چکمگلورو)نے انہیں بھی نہ بخشا وہ اپنی اہلیہ کوجو بیمار تھی انہیں
ہسپتال سے گھر لے کر جا رہے تھے کہ انہیں بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا اور
جان سے مارنے کی دھمکی دی اور بعد ازاں انہیں ایک گھنٹہ تک پولیس اسٹیشن
میں رکھا گیا ۔مسلمانوں پرسیکورٹی اداروں کے حملوں میں ا ب اضافہ ہو تا جا
رہا ہے۔
اگر بھارت خود کو جمہوری ملک سمجھتا ہے تو جمہوری ریاست حقیقت میں اپنے
جمہوری دستور کی بے حرمتی کر رہی ہے اور اپنے ہی بنائے گئے قانون کا مذاق
اڑا رہی ہے۔
دوسری جانب بھارت میں کسان بھی انصاف کیلئے سڑکوں پر موجود ہیں 23بھارتی
ریاستوں کے کسان اس وقت سڑکوں پر ہیں جس کی وجہ سے ملک بھر میں سڑکوں پر
ٹریفک کا نظام درہم برہم ہے کئی ٹرینیں منسوخ ہو چکی ہیں اور 3سے زائد
افراد اپنی زندگیاں کھو چکے ہیں ۔
ٓآندھرا پردیش،آسام ،بہار،چھتیس گڑھ،دہلی،گجرات،ہریانہ ،ہماچل پردیش،جموں و
کشمیر ،جھاڑ کھنڈ،کیرالا،کرناٹک،مدھیہ پردیش،مہاراشٹرا،اوڈیشہ،پڈو
چیری،پنجاب،راجھستان ،تلنگا،تریپورہ،اتر پردیش،اتر کھنڈ وار مغربی بنگال
میں ٹریفک کا نظام درہم برہم ہے نظام زندگی مفلوج ہے۔
بھارت میں لگ بھگ25ٹرینیں اس وقت ٹریک پر کھڑی ہیں اور آمدورفت مکمل طور پر
بند ہو چکی ہے ۔دہلی امر تسر شانِ پنجاب ،نئی دہلی موگہ ایکسپریس،پرانی دلی
پانی پت ایکسپریس،نئی دہلی کٹرا وندے بھارت ایکسپریس اور امر تسر
شتابدی،ریواڑی،بھیوانی،روجنک،بھیوانی،حصار ورہنومان گڑھ،سریگنگا نگر،جئے
پور،دولت پور سمیت متعدد ٹرینوں کی سروس معطل ہو چکی ہے۔
دوسری جانب کانگریس کی جانب سے کسانوں کا ساتھ دینے کیلئے بھر پور میڈیا
مہم چلائی جا رہی ہے اور سوشل میڈیا پر کسانوں کے حق میں ٹوئیٹ کے ساتھ ہیش
ٹیگ کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے ۔
بھارت میں کسانوں پر ظلم کے پیچھے محرک یہ ہے کہ زیادہ تر کسان سکھ برادری
سے تعلق رکھتے ہیں ریاستی حکومت اسی بناء پر انہیں انکے بنیادی حقوق سے
محروم رکھنا چاہتی ہے کہ وہ ادھر ہی الجھے رہے اور ریاست سے مزید حقوق کا
تقاضا نہ کر سکیں اور یہ بہت بڑی گہری سازش ہے تاہم بھارت کی یہ ساز ش
ناکام ہوتی نظر آرہی ہے کیونکہ سکھ برادری کی جانب سے انتہائی پر امن
احتجاج کیا جا رہا ہے بھارت نے شروع میں اس احتجاج کو پاکستان کیساتھ جوڑنے
کی بھی بھر پور میڈیا مہم چلائی تھی تاہم اسے احتجاجی مظاہرین نے ناکام بنا
دیا تھا۔
قارئین……!! یہ تو صرف دو چند واقعات ہیں جو بھارتی میڈیا کی شہ سرخیوں سے
ہم تک پہنچے ہیں مگر اندرون خانہ حالات تو انہتائی دگرگوں ہیں اور اگر
بھارت نے اپنی روش نہ بدلی تو بھارت کی تقسیم کو دنیا کی کوئی طاقت نہ روک
پائے گی ۔عالمی اداروں سے کسی قسم کا شکوہ بجا لانا یاان سے انصاف کی کوئی
توقع وہ بھی مسلم امہ رکھے یہ انکی خام خیالی ہے یہ عالمی ادارے دراصل
صیہونی قوتوں کو دوام بخشنے کیلئے ہی معرض وجودمیں لائے گئے ہیں اس لئے اگر
مسلمانوں کو دنیابھرمیں اپنے حقوق چاہیں تو انہیں یہ جنگ اپنے تئیں لڑنا
ہوگی اور اسکے لئے خوددار ہونا شرطِ اول ہے ۔
دنیا بھر کے مسلمان حکمرانوں کو خودداری کی منزل کو طے کرنا ہوگا وگرنہ
دنیابھر میں مسلمانوں کو موجودہ درپیش مسائل سے چھٹکارا ملنا نا ممکن ہے
اور وہ ظلم و زیادتی کا شکار ہی رہیں گے ۔
|