پنڈ اور زمین کا راکھا نمبردار

آج سے پون دو صدی قبل سن 1840. 41 میں برطانوی راج میں جب زمینوں کی پیمائش دیہاتوں کی تعداد ان کی حفاظت اور ان دیہاتوں قصبات میں ہونے والی تمام سرگرمیوں سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے نمبرداری سسٹم کو رائج کیا اور ہر گاوں دیہات قصبہ چک اور شہروں میں نمبردار مقرر کیے نمبردار کو لمبردار مکھیا چودھری سرغنہ میر محلہ بڑا زمیندار معزز آدمی معتبر آدمی اور انگریزی میں چیف آف ویلج بھی کہاجاتا ہے جبکہ 1947 میں پاکستان معرض وجود میں آنے کے بعد یہ سسٹم اسطرح چل رہا ہے ۔پاکستان لینڈ ریونیو ایکٹ 1967 کے سکشن نمبر 28 میں نمبردار کو ویلج آفیسر اور ہیڈ مین کا نام دیا گیا ہے جبکہ سکشن نمبر 36 نمبردار کو مستقل ملازم رکھنے کی سفارش کرتا ہے ۔نمبرداروں کا تقرر پنجاب ریونیو ایکٹ 1967 اور پنجاب لینڈ ریونیو رولز 1968 کے تحت ہوتا ہے نمبردار مقامی گاوں کا رہائشی اور زرعی زمین کا مالک ہونا لازمی ہے صوبہ پنجاب میں نمبرداروں کی منظور شدہ آسامیاں 38500 ہیں جن میں تقریبا 5500 خالی ہیں ۔نمبردار کی خالی نشست پر سب سے زیادہ حق اس کی اولاد کا ہی ہوتا ہے اور ایک رولز کے تحت اسے جدی سیٹ بھی کہا جا سکتا ہے اور زیادہ تر نمبردار مرد ہی مقرر کیے جاتے ہیں تاہم بعض اوقات انتہائی کم عمر بچوں کو بھی نمبردار مقرر کر دیا گیا ہے جیسا کہ انڈیا کے صوبہ ہماچل اتر پردیش کے شہر سرمور کے گاوں سہالہ میں 10 سالہ بچے جھگت سنگھ چوہان کو نمبردار مقرر کیا گیا۔مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی نمبردار مقرر ہو رہی ہیں جبکہ سب سے پہلی مسلم خاتون پنجاب کے ضلع ساہیوال کے چک نمبر 43/12Lچیچاوطنی سے 1959 میں بیگم ثروت امتیاز نمبردار مقرر ہوئیں اور اس وقت بھی پاکستان میں کوئی ڈیڑھ درجن کے قریب خواتین نمبرداری کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں ۔نمبردار یا لمبردار کی ذمہ داریاں محکمہ مال کی طرف سے زمینداروں کو لگایا گیا مالیہ آبیانہ اور دیگر واجبات اکٹھے کر کے پٹواری یا خزانہ سرکار میں جمع کروانا محکمہ مال کی طرف سے ہونے والے احکامات فوری گاوں کے لوگوں تک پہنچانا اور ان پر عمل درآمد یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کرنا پولیس کو گاوں میں ہونے والے واقعات کی بروقت اطلاع دینا اور پولیس کی مدد کرنا جرائم پیشہ عناصر پر نظر رکھنا اور متعلقہ اداروں کو بتانا گاوں کی اپنی مدد آپ کے تحت حفاظت کے لیے پہرہ داروں کا انتظام کرنا سرکاری ملازمین کو مکمل تعاون اور گاوں میں درکار مدد فراہم کرنا سیلاب قدرتی آفات وبائی امراض کی فوری اطلاع متعلقہ حکام کو دینا راستوں جوہڑوں کنوئیں تالابوں سرکاری زمینوں جنگلات اور سرکاری عمارتوں کو نقصان پہنچنے کی صورت میں متعلقہ اداروں کو اطلاع دینا پیدائش و اموات کا اندراج وبائی امراض سے محفوظ رہنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے اعلانات اور حفاظتی انتظامات کرنا نمبردار کی ذمہ داری میں شامل ہے انسانوں اور مال مویشیوں کو بیماریوں سے بچانے کے لیے حفاظتی ویکسین لگوانے کے لیے بھی نمبردار کو ہی ذمہ داری ادا کرنا ہوتی ہے .اسطرح نہری پانی کی چوری کی اطلاع راستوں گلیوں میں رکاوٹیں کھڑی کرنے سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنے راستوں قبرستانوں میں لگے درخت کاٹنے کی اطلاع دینا مساجد قبروں جنازہ گاہ کی حفاظت بھی نمبردار کی ذمہ داری ہے گاوں میں کسی فرد کا فوج یا کسی اور سیکورٹی فورسز میں شامل ہونے کی صورت میں چال چلن اور کردار کی تصدیق شناختی کارڈ زمین کے انتقال وراثت بیع ہبہ وغیرہ کی تصدیق بھی نمبردار کا کام ہے یعنی گاوں اور زمین اور عوام کی رکھوالی کی ذمہ داری نمبردار کی ہے کسی بھی ضمانت میں نمبردار تصدیق کرتا ہے ۔حتی کہ نکاسی آب فراہمی بجلی و پانی و دیگر سہولیات کی فراہمی بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے درس و تدریس کے لیے سکول مدرسہ کا اہتمام بھی اکثر و بیشتر علاقوں میں نمبردار ہی کر رہے ہیں گاوں میں آنے والے محکمہ مال اور دیگر اداروں کے اہلکاروں کی خدمت تواضع میں بھی نمبردار ہی نمایاں ہیں ۔پنجاب لا ایکٹ 1872 کے تحت نمبرداروں کو اپنے علاقوں میں چوکیداروں کی نگرانی اور کنڑول کے علاوہ پولیس سے رابطہ رکھنا ہوتا ہے جبکہ صوبہ پنجاب کے نو ڈویژنوں میں چوکیداروں کی منظور شدہ 18000 ہزار میں سے 8500 آسامیاں خالی ہیں مقامی حکومتوں کے نظام کے نفاذ کے بعد نمبردار کے منصب کی اہمیت نوآبادیاتی اضلاع کے علاوہ ختم ہو چکی ہے ان اضلاع میں جنوری 2006 میں کالونائزیشن آف گورنمنٹ لینڈز ایکٹ 1912 کے تحت 500 نمبرداروں کی تحویل میں سرکاری زمینیں ہیں دوسرے اضلاع کے نمبرداروں کے پاس کوئی زمین نہیں ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی زیادہ ذمہ داریاں ادا کرنے پر نمبردار کو کیا معاوضہ ملتا ہے تو یہ سن کر آپ حیران و پریشان ہو جائیں گے کہ یہ تمام ذمہ داریاں نمبردار مفت ادا کرتا ہے نمبردار کو کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا اور نہ ہی کوئی تنخواہ دی جاتی ہے بلکہ جو نہری علاقوں میں آبیانہ اکٹھا کرتا ہے اس کا 3 فیصد کمشن جبکہ دیگر ریونیو مالیہ وغیرہ کا 5 فیصد نمبردار کو کمشن ادا کیا جاتا ہے ۔جبکہ موجودہ حالات میں نمبرداروں کی اکثریت اپنی جیب سے مالیہ (لوکل ریٹ )کی رقم پٹواری یا خزانہ سرکار میں جمع کروانے میں عافیت سمجھتی ہے جبکہ سابقہ حکومت نے نمبرداروں پر احسان کیا اور اسلحہ لائسنس فری جاری کرنے کے احکامات جاری فرمائے ۔ایک رپورٹ کے مطابق ہمسایہ ملک انڈیا کے صوبہ ہریانہ میں نمبرداروں کو 3000 ہزار روپے ماہانہ اعزازیہ دیا جاتا ہے ۔پاکستان کے دیگر صوبوں میں نمبرداری سسٹم انتہائی کمزور ہو چکا ہے وڈیرہ شاہی جاگیرداری جرگہ سسٹم نے نمبرداری سسٹم کو بہت گہرائی میں دفن کر دیا ہے جبکہ صوبہ پنجاب میں نمبرداروں کی اتحادی تنظیموں نے اسے زندہ رکھا ہوا ہے اور اس کو فعال کرنے کے لیے دن رات کوشاں ہیں جبکہ وزیر اعلی پنجاب اور محکمہ ریونیو بھی نمبرداری سسٹم کو رائج کرنے پر سوچ بچار کر رہے ہیں ایک اعلی سطح کے اجلاس میں 9 کمشنر اور 27 ڈپٹی کمشنرز نے نمبرداری سسٹم کو رائج کرنے کی سفارش کی ہے اور چودہ قسم کی ذمہ داریاں نمبردار کو دینے کی سمری تیار کی گئی ہے حکومت نمبرداروں کو فعال بنانے کے لیے نمبرداری سسٹم کو رائج کرے نمبرداروں کو مستقل ملازم رکھتے ہوئے تنخواہ اور دیگر مراعات دے اور 100 کنال زرعی اراضی ہر نمبردار کو دی جائے نمبردار کو ویلج آفیسر کا نام دیا جائے شناختی کارڈ رجسٹری انتقال بیع نامہ ہبہ وغیرہ پر نمبردار کی تصدیق لازمی کی جائے سرکاری ملازمتوں کی بھرتی میں نمبردار کے بچوں کا کوٹہ مقرر کیا جائے اور سرکاری دفاتر اداروں میں نمبردار کو عزت دی جائے ۔ایسے کرنے سے جہاں ریونیو اکٹھا کرنے میں کامیاب ملے گی وہاں گاوں کے بہت سے مسائل باہمی تعاون اور مشاورت سے حل کرنے میں مدد ملے گی بہت سے گھریلو لڑائی جھگڑے زمینوں سے متعلقہ معاملات گاوں کی سطح پر حل ہو جائیں گے جس سے تھانہ کچہری پر بوجھ کم ہو گا اور عوام کا قیمتی وقت اور سرمایہ ضائع نہیں ہو گا اور لوگوں کو دہلیز پر فراہمی انصاف کا وعدہ پورا کرنے میں مدد ملے گی ۔

Abdul Khaliq Ch
About the Author: Abdul Khaliq Ch Read More Articles by Abdul Khaliq Ch: 32 Articles with 29598 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.