عالمی سطح پر دنیا کی دوسری بڑی معیشت کی حیثیت سے چین کے
معاشی اشاریوں پر ہمیشہ نمایاں توجہ دی جاتی ہے اور ہر سہ ماہی کے دوران
چین کے معاشی اعداد و شمار دنیا میں زیر بحث ہوتے ہیں۔ابھی حال ہی میں چین
کی تین سہ ماہیوں کے حوالے سے جاری تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق چین کی
مجموعی قومی پیداوار یعنیٰ جی ڈی پی پہلی تین سہ ماہیوں میں 82.31 ٹریلین
یوآن (تقریباً 12 12.8 ٹریلین امریکی ڈالر) تک پہنچ چکی ہے جس میں گزشتہ
سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 9.8 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ کھپت،صنعتی
پیداوار اور پائیدار اثاثہ جات میں سرمایہ کاری،روزگار اور عوام کی آمدن
سمیت تمام اشاریے ظاہر کرتے ہیں کہ پہلی تین سہ ماہیوں میں چین کے اہم
میکرو انڈیکس معقول دائرے میں ہیں ، بین الاقوامی ادائیگیوں کا توازن
برقرار ہے ، معاشی ڈھانچے کی ترتیب سے اسے مزید بہتر بنایا گیا ہے اور
مجموعی سماجی صورتحال ہم آہنگ اور مستحکم ہے۔یوں چینی معیشت دیگر خطرات سے
موثرطور نمٹنے میں کامیاب رہی ہےاور بحالی کے راستے پر گامزن ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ملک میں وبائی صورتحال،سیلاب،عالمی اقتصادی بحالی
میں سست روی اور اجناس کی بلند قیمتوں سمیت دیگر عوامل کے باعث تیسری سہ
ماہی میں اگرچہ چین کی اقتصادی ترقی میں سست روی نظر آئی،تاہم اگر سال بھر
کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یقیناً چین اقتصادی و سماجی ترقی کے
اہداف کو پورا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر
بھی چین کی معاشی ترقی کے حوالے سے بلند توقعات ظاہر کی گئی ہیں۔عالمی
جریدے وال اسٹریٹ جرنل نے ایک مضمون میں معاشی ماہرین کے حوالے سے کہا کہ
چین رواں سال طے شدہ متوقع چھ فیصد شرح نمو تک پہنچنے کے لیے پراعتماد ہے۔
حقائق کے تناظر میں پہلی تین سہ ماہیوں نے چوتھی سہ ماہی میں چینی معیشت کی
ترقی لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کی ہے۔تاہم آئندہ عرصے میں عالمی سطح پر
عدم استحکام اور غیریقینی صورتِحال جیسے عوامل کی وجہ سے چینی معیشت کو
درپیش چیلنجز میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔چین کی تجارتی ترقی کا ہی جائزہ لیا
جائے تو رواں سال کی پہلی تین سہ ماہیوں میں مالیاتی تجارت کے حوالے سے چین
کی درآمدات و برآمدات کی مجموعی مالیت 28.33 ٹریلین یوآن تک پہنچ چکی ہے جس
میں گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 22.7 فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔ اس سے
ظاہر ہوتا ہے کہ چین کی بیرونی تجارت نسبتاً لچکدار ہے ، اور مجموعی طور پر
بہتری کا رجحان تبدیل نہیں ہوا ہے جو چینی اور عالمی معیشت کی بحالی میں
مستحکم قوت محرکہ فراہم کرتی رہےگی۔ ملک میں شہری بے روزگاری کی شرح ستمبر
میں 4.9 فیصد رہی جو کہ پچھلے سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 0.5 فیصد کم
ہے۔جنوری سے ستمبر کی پہلی تین سہ ماہیوں کے دوران ملک میں 10.45 ملین نئی
شہری ملازمتیں پیدا کی گئی ہیں ، یوں تاحال سالانہ طے شدہ ہدف کا 95 فیصد
حاصل کر لیا گیا ہے ۔
چین کی کوشش ہے کہ اگلے مرحلے میں مارکیٹ کی طاقت کو مزید فروغ دیا جائے ،
ترقی کی رفتار میں اضافہ کیا جائے ، گھریلو طلب کی صلاحیت کو بلند کیا جائے
، اور ایک معقول حد کے اندر معاشی گردش کو برقرار رکھنے کی کوشش کی جائے
تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ معاشی اور سماجی ترقی کے سالانہ
بنیادی مقاصد اور اہداف جامع طور پر مکمل کیے گئے ہیں.چینی معیشت میں کھپت
کے شعبے کی بات کی جائے تو "جدت" ترقی کا لازمی عنصر بن چکی ہے جبکہ ای
کامرس کو اس لحاظ سے نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ رواں سال کی پہلی تین سہ ماہیوں
میں چین میں آن لائن یا انٹرنیٹ شاپنگ کی مجموعی مالیت 9.2 ٹریلین یوآن
(1.43 ٹریلین ڈالرز) تک پہنچ چکی ہے جس میں گزشتہ برس کی نسبت اضافے کا
تناسب 18.5 فیصد ہے۔
انٹرنیٹ کے اس نئے دور میں متعدد کاروبار اب روایتی طریقوں سے ہٹ کر آن
لائن پلیٹ فارمز کو موئثر طور پر استعمال میں لا رہے ہیں اور چین بھر میں
اشیائے خورد ونوش سمیت روزمرہ ضروریات کی عام چیزوں کی خریداری کے لیے آن
لائن شاپنگ میں زبردست اضافہ دیکھا گیا ہے ۔ دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے
طور پر ، چینی معیشت موجودہ عالمگیر وبائی صورتحال میں عالمی معیشت کے لیے
ایک مضبوط سہارا بن چکی ہے۔ مجموعی طور پر چین کے تازہ معاشی اعداد و شمار
ظاہر کرتے ہیں کہ چینی معیشت کووڈ۔19 سے بہتر طور پر نمٹتے ہوئے مستحکم طور
پر آگے بڑھ رہی ہے جبکہ معاشی نمو کا یہ رجحان آنے والے عرصے میں بھی جاری
رہے گا۔ چین کی بڑھتی ہوئی مالیاتی طاقت اور مالیاتی پالیسیوں کے لیے وسیع
گنجائش موثر اقدامات متعارف کروانے کی صلاحیت رکھتی ہے جو ہر قسم کی رونما
ہونے والی تبدیلیوں کا بروقت جواب دے سکتی ہے اور معاشی آپریشن کو مستحکم
رکھ سکتی ہے۔
|