آٹھ اکتوبر کی یادیں

آٹھ اکتوبر 2005 کا دن اور آٹھ بج کر باون منٹ کا لمحہ ہم میں سے شائد بہت سارے لوگ کبھی فراموش نہیں کرپائیں گے وہ ایسا دن تھا جب میں نے اپنے گاؤں کے بہت بڑے تالاب کو یوں ہلتے دیکھا جیسے کوئی پیالے میں پانی ڈال کر ہلا رہا ہو۔ زلزلے کے بعد دس اور گیارہ اکتوبر کی درمیانی رات کالعدم جماعت الدعوہ ( جو ابھی اپنی حب الوطنی کے باعث حکومتی ظلم اور عتاب کا نشانہ نہیں بنی تھی)کے ایک امدادی قافلے کے ساتھ (جو وزیر آباد کی شہری و دیہی آبادی سےسامان اکٹھا کرکے دس بارہ ٹرکوں پہ مشتمل تھا) ڈاکٹر مظاہرصاحب ،اشتیاق بھائی اور ناچیز جماعت الدعوہ کے بیس کیمپ مانسہرہ پہنچ گئے تھے ابھی سانحہ ہوئے صرف تین دن ہی ہوئے تھےمگر یہاں پاکستانی عوام کی طرف سے ہر طرح کے امدادی سامان کا ایک بہت بڑا پہاڑ بنا ہوا ایک بڑا ڈھیر تھا جس میں سے مختلف اشیاء الگ الگ کی جارہی تھیں محترم حافظ سعید صاحب کے سینکڑوں کارکنان دن رات ایک کئے ہوئے اس کام میں مصروف تھے اور پیچھے سے مسلسل سامان آرہا تھا۔ہم نے ایک دن یہاں گزارا پاکستان کی ہر چھوٹی بڑی مذہبی و سیاسی جماعتوں کے کارکنان یہاں خدمت خلق کے عظیم کام میں مصروف تھے(اتفاق سے یہیں پہ ریکارڈنگ کرتے ہوئے میں عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی کے کیمرے کی زد میں آگیا اور میرے چچا نے سعودی عرب ٹی وی دیکھتے ہوئے مجھے پہچان لیا)پھر ڈاکٹر صاحب کی بڑی منتوں کے بعد ہم تینوں کو بارہ اکتوبر کی صبح بستروں سے بھرے ٹرک پر سوار کرکے مظفرآباد کے لئے روانہ کردیا گیا کھلی چھت پہ ہونے کی وجہ سے ہم نے رستے میں ہونے والی تباہی کے مناظر بغور اپنی آنکھوں سے دیکھے ہرطرف تباہی مچی ہوئی تھی اور جیسے جیسے مظفرآباد قریب آرہا تھا ویسے ہی تباہی کی شدت بھی بڑھتی جارہی تھی ۔
مظفرآباد شہر کو اگر باہر سے اونچی جگہ پہ کھڑا ہوکر دیکھا جائے تو یہ ایک پیالے کی شکل میں نظر آتا ہے اور اس دن یہ سارے کا سارا پیالہ مسمار ،تباہ حال اور اجڑا جڑا تھا ہر طرف گری اور ٹوٹی پھوٹی عمارتیں گندگی خراب رستے اور ایک عجیب سی ناگوار بو پھیلی ہوئی تھی ۔

تازہ قبروں کے شہر آباد تھے اور زندہ انسانوں کے چہرے جانے والوں کے غم سے اداس اور مستقبل کے خطرات سے خوف ذدہ تھے کیونکہ وقفے وقفے سے مسلسل زلزلے کے جھٹکے لگ رہے تھے اور جنہوں نے وہ خوفناک منظر اپنی آنکھوں سے دیکھاتھا وہ اب بارش سے بچنے کے لئے بھی کنکرینٹ اور لوہے کی چھتوں کے نیچے پناہ لینے کے لئے تیار نہیں تھے اس وقت وہاں سب سے قیمتی چیز پلاسٹک کی شیٹس تھیں جنہیں لوگ بارش اور سردی سے بچنے کے لئےبطور خیمہ استعمال کررہے تھے پورا ایک دن ہم لوگوں نے بھی یہی پلاسٹک شیٹس قینچی سے کاٹتے اور تقسیم کرتے ہوئے گزارا۔

مظفرآباد لاری اڈے کے ساتھ دریا کی دوسری جانب قریب تمام عمارتیں ایک قطار میں نجی تعلیمی اداروں پہ مشتمل تھیں ان میں زیر تعلیم تمام بچے اور اساتذہ کی نوے فیصد تعداد شہید ہوگئی تھی یہاں بڑے روح فرسا مناظر بکھرے ہوئےتھے کتابیں کاپیاں پنسلیں اور بچوں کے سکول بیگز مٹی اور کنکریٹ میں لت پت پڑے تھے جتنی ممکن تھیں نعشیں نکال لی گئی تھیں اور باقی دفن تھیں بعد میں کچھ ملیں کچھ نہیں ملیں ۔
ایک دن میں اور ڈاکٹر صاحب ایسے ہی ایک سکول کے ڈھیر پہ جابیٹھے وہ ڈھیر سے بچوں کی پنسلیں اور ہوم ورک والی کاپیاں اٹھاتے آخری ہوم ورک اور ٹیچر کے ریمارکس دیکھتے اور پھر دوسری کاپی اٹھالیتے ایسا کرتے کرتے دکھ اور صدمے سے خود انکی طبیعت خراب ہوگئی کہ بہرحال خود انکے بھی چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔

وہاں ایک ایسی خوش نصیب بیوہ ماں بھی ملی جس کا اکلوتا بیٹا دو دن سے زیادہ گھر کے ملبے تلے دبا رہنے کے باوجود صحیح سلامت ذندہ نکل آیا تھا۔مظفراباد قلعے کے پاس دریا کنارے مشہور نیلم ہوٹل کےاندر ہونے والی تباہی اور اس کے بارے میں بڑی عجیب و غریب باتیں سنیں وہ میں یہاں لکھنا نہیں چاہتا۔

اسی طرح بالاکوٹ پورا شہر تباہ ہوگیا تھابس صرف ایک عمارت بچی تھی جس کا مالک سنا تھا تبلیغی جماعت کا کارکن ہے اور صدقات اور زکوات پابندی سے ادا کرنے والا تھا ۔

آج اس سانحے کو سولہ سال گزر گئے مگر ہمارے کشمیری بہن بھائی آج بھی اس صدمے سے نکل نہیں پائے وہ دن اور اس کے بعد آنے والی پہلی رات کا خوف اور اپنے بچھڑنے والوں کی یادیں انہیں آج بھی اداس رکھتی ہیں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے وہ کریم ذات تمام شہداء کی مغفرت کاملہ فرمائے اور دوبارہ کبھی ہمارے ملک و ملت کو ایسے سانحے سے دوچار نا کرے۔آمین

Shahid Mushtaq
About the Author: Shahid Mushtaq Read More Articles by Shahid Mushtaq: 114 Articles with 77587 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.