طلاق در طلاق

 یہ کہاوت تو آپ نے یقینا سنی ہو گی کہ جو دوسروں کیلئے گڑھا کھودتے ہیں وہ اسی میں جاگرتے ہیں یہ کہانی اسی تناظرمیں انتہائی دلچسپ و عجیب ہے
دو عورتیں قاضی ابن ابی لیلی کی عدالت میں پہنچ گئیں،یہ اپنے زمانے کے مشہور و معروف قاضی تھے قاضی نے پوچھا آپ کا کیا مسئلہ ہے؟
دونوں نے بات کرنا چاہی لیکن ان کے ہونٹ کپکپا کررہ گئے قاضی نے پھر پوچھابوڑھی عورت کے چہرے پر تذبذب کے آثار نمایاں تھے نوجوان نے بات کرنا چاہی بوڑھی نے اس کی بات کاٹ دی
قاضی نے کہا تم فیصلہ کرلو تم دونوں میں سے کس نے بات پہلے کرنی ہے؟
ان میں سے بڑھی عمر والی خاتون نے دوسری سے کہا تم اپنی بات قاضی صاحب کے آگے رکھو
وہ کہنے لگی قاضی صاحب یہ میری پھوپھی ہے میں اسے امی کہتی ہوں چونکہ میرے والد کے انتقال کے بعد اسی نے میری پرورش کی ہے یہاں تک کہ میں جوان ہوگئی۔
قاضی نے جنجھلاکر پوچھا اس کے بعد ؟
وہ کہنے لگی پھر میرے چچا کے بیٹے نے منگنی کا پیغام بھیجا انہوں نے ان سے میری شادی کر دی،میری شادی کو کئی سال گزر گئے ازدواجی زندگی خوب گزر رہی تھی ایک دن میری یہ پھوپھی میرے گھر آئی اور میرے شوہرخلیل کو اپنی سوتیلی بیٹی روبینہ سے دوسری شادی کی آفر کرلی ساتھ یہ شرط رکھ لی کہ پہلی بیوی(یعنی میں) کا معاملہ پھوپھی کے ہاتھ میں سونپ دے،میرے شوہر نے کنواری دوشیزہ سے شادی کے چکر میں اس کی شرط مان لی میرے شوہر کی دوسری شادی ہوئی سہاگ رات کو میری پھوپھی میرے پاس آئی اور مجھ سے کہا تمہارے شوہر کے ساتھ میں نے اپنی بیٹی بیاہ دی ہے تمہارے شوہر نے تمہارا معاملہ میرے ہاتھ سونپ دیا ہے میں تجھے تیرے شوہر کی وکالت کرتے ہوئے طلاق دیتی ہوں اب اس کا تم سے کوئی تعلق نہیں میں بہت روئی لیکن میرے شوہر نے اس کے کہنے پر میرے ساتھ قطع تعلق کرلیااس طرح جج صاحب میری طلاق ہوگئی۔ میں نے دوسری شادی کرلی لیکن ایک سال بعد ہی میرے دوسرے شوہر مصباح نے کسی بات پر طیش میں آکر مجھے طلاق دیدی اسی دوران میری پھوپھی کی سوتیلی بیٹی روبینہ نے مصباح سے شادی کرلی اب میری پھوپھی الیکی رو گئی تھی اس نے اپنی سوتیلی بیٹی کے شوہر خلیل سے شادی کرلی میرے سابقہ شوہرخلیل کو اس شادی سے خوش نہیں تھے کہاں جوان اور خوبرو بیوی اور کہاں میری پھوپھی جو تیزی سے بڑھاپے کی جانب گامزن تھی اس لئے جان چھڑاکرخلیل کسی دوسرے ملک چلے گئے کچھ عرصے بعد میری پھوپھی کا شوہرسفر سے تھکے ہارا واپس آیا اتفاق سے میں بھی اپنی پھوپھی کے گھر آئی ہوئی تھی میں جانتی تھی کہ وہ ایک شاعر اور حسن پرست انسان تھے میں بن سنور کر اس کے آگے بیٹھ گئی اور ان سے کہا کیا آپ مجھ سے شادی کریں گے؟ اسکی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا اس نے فورا ً ہاں کرلی،میں نے ان کے سامنے شرط رکھ لی کہ آپ کی پہلی بیوی(یعنی میری پھوپھی) کا معاملہ میرے ہاتھ سونپ دیں اس نے ایسا ہی کیا میں نے وکالت کا حق استعمال کرتے ہوئے پھوپھی کو طلاق دے ڈالی اور پھوپھی کے سابقہ شوہر سے شادی کرلی
قاضی حیرت سے پھر ؟
وہ کہنے لگی قاضی صاحب کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی اطمینان رکھئے میں سارا ماجرہ بیان کررہی ہوں کچھ عرصہ بعد میرے اس شاعر شوہر کا انتقال ہوا میری یہ پھوپھی وراثت کا مطالبہ کرتے پہنچ گئی میں نے ان سے کہا کہ میرے شوہر نے تمہیں اپنی زندگی میں طلاق دی تھی اب وراثت میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ہے، جھگڑا طول پکڑا اس دوران میری عدت بھی گزر گئی ایک دن میری یہ پھوپھی میرا سابقہ شوہرمصباح کو لیکر میرے گھر آئی اور وراثت کے جھگڑے میں میرے اسی سابق شوہر کو ثالث بنایا اس نے مجھے کئی سالوں بعد دیکھا تھا مرد اپنی محبت نہیں بھولتا ہے چنانچہ مجھ سے یوں مل کر اس کی پہلی محبت نے انگڑائی لی میں نے ان سے کہا کیا پھر مجھ سے شادی کروگے؟
اس نے مسکرا کر ہاں کردی میں نے ان کے سامنے شرط رکھ لی کہ اپنی بیوی(میری پھوپھی کی سوتیلی بیٹی) روبینہ کا معاملہ میرے ہاتھ میں دیں،اس نے ایسا ہی کیا میں نے اپنے سابق شوہر سے شادی کرلی اور اس کی بیوی کو شوہر کی وکالت کرتے ہوئے طلاق دے دی
قاضی ابن ابی لیلی سر پکڑ کر بیٹھ گئے پھر پوچھا کہ اس کیس میں اب مسئلہ کیا ہے؟
میری پھوپھی کہنے لگی : قاضی صاحب کیا یہ حرام نہیں کہ میں اور میری بیٹی دونوں کی یہ لڑکی طلاق کروا چکی پھر میرا شوہر اور میری بیٹی کا شوہر بھی لے اڑی اسی پر بس نہیں دونوں شوہروں کی وراثت بھی اپنے نام کرلیا۔
قاضی ابن ابی لیلی کہنے لگے:
مجھے تو اس کیس میں حرام کہیں نظر نہیں آیا،طلاق بھی جائز ہے،وکالت بھی جائز ہے،طلاق کے بعد بیوی سابقہ شوہر کے پاس دوبارہ جاسکتی ہے بشرطیکہ درمیان میں کسی اور سے اس کی شادی ہو کر طلاق یا شوہر فوت ہوا ہو تمہاری کہانی میں بھی ایسا ہی ہوا ہے.
اس کے بعد قاضی نے خلیفہ منصور کو یہ واقعہ سنایا خلیفہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے اور کہا کہ جو کوئی اپنے بھائی کیلئے گڑھا کھودے گا خود اس گڑھے میں گرے گا یہ بڑھیا تو گڑھے کی بجائے گہرے سمندر میں گر گئی.
( جمع الجواہر فی الحْصری عربی سے ترجمہ)
 

Ilyas Mohammad Hussain
About the Author: Ilyas Mohammad Hussain Read More Articles by Ilyas Mohammad Hussain: 474 Articles with 351643 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.