مجھے کینسر ہے... کیسے ائیر مارشل نور خان نے بغیر کسی ہتھیار کے پاکستانی جہاز اغواﺀ کرنے والے ہائی جیکر پر قابو پایا، بہادری کی حیرت انگیز داستان

image
 
کچھ افراد قوم کے لئے فخر کا باعث ہوتے ہیں، کہا جاتا ہے ایسے افراد کے ذکر کے بنا اس شعبے کا ذکر ادھورا تصور ہوگا۔ جنگ پینسٹھ کی، پاک فضائیہ کی سنہری تاریخ جب بھی ذکر کیا جائے گا، اس میں ایئر مارشل نور خان کا ذکر ہمیشہ تابندہ جذبوں کے ساتھ کیا جائے گا- بلا شبہ پاک فضائیہ کی بھی خوش قسمتی ہے ، انکی قیادت ایئر مارشل نورخان جیسے دلاور، ذہین، چاک چوبند انسان نے کی، یہ زیادتی اور نا انصافی ہوگی اگر نور کے ساتھ ان کے پیشو رو بابائے فضائیہ ایئر مارشل اصغر خان صاحب کا ذکر نہ کیا جائے-
 
بلاشبہ ان کی خدمات بھی نہ محدود ہیں، نہ ان کو کسی ایک مخصوص سوچ سے دیکھا جاسکتا ہے۔ ایئر مارشل ملک نور خان کا آج ذکر اس لیے نکل آیا کہ ریسرچ کے دوران بھارتی اخباروں کی سرخیوں پر نظر پڑی تو اس میں ایک پلین ہائی جیک ( ہوائی جہاز کے اغواء) کی کہانی درج تھی، اور کیوں کہ کہانی کا تعلق پاکستان اور نور خان سے تھا تو دل چاہا کہ اپنے دوستوں کے ساتھ یہ کہانی شیئر کرتے چلیں ۔
 
پاکستان ایک نئے حالات سے گزر رہا تھا، ملک میں ضیاء الحق کے مارشل لاء کو ابھی کچھ دن ہی گزرے تھے۔قصہ کچھ یوں ہے کہ بیس جنوری1978 کے پی آئی اے کا ایک فوکر ایف ۔ 27 (سیرئیل نمبر PK-543 )جو سکھر سے کراچی کے لیے روانہ ہوا،صبح کے ناشتے کے بعد ہائی جیکر سیٹ سے اٹھا اور کاکپٹ (وہ جگہ جہاں سے پائلٹ پرواز کے امورانجام دیتے ہیں) میں جا پہنچا، جہاز میں عملے کے دس ارکان سمیت 42 افراد سوار تھے، صبح نو بجکر پینتالیس منٹ پر ایک مسلح شخص نے اغوا ء کر لیا۔
 
image
 
ہائی جیکر نے مطالبہ رکھا جہاز کا رخ فوراً بھارت کی جانب موڑ دیا جائے،جہاز کے کپتان خلدون غنی نے ہائی جیکر کو بتایا جہاز میں اتنا ایندھن نہیں کہ اس کو بھارت لے جایا جائے، بہتر ہوگا کراچی میں جہاز اتار لیا جائے۔ کراچی ایئر پورٹ کو ساڑھے دس بجے اس بات سے آگاہ کیا گیا کہ جہاز اغواء کیا جاچکا ہے، 10:55 پر طیارہ کراچی میں اترا، جہاز کو سترہ نمبر بے میں پارک کیا گیا-
 
ہسٹری آف پی آئی اے نامی ویب سائٹ کیے مطابق جہاز، اغواء کار سے رابطے میں آنے والی پہلی شخصیت ریٹائرڈ ایئر وائس مارشل ملک نور خان تھے جو قومی ایئر لائن پی آئی اے کے چیئرمین کے فرائض انجام دے رہے تھے- جہاز کے باہر کھڑے ہو کر کاک پٹ کی طرف سے ہائی جیکر نے مخاطب ہوتے ہوئے بتایا کہ وہ کینسر جیسے مہلک مرض میں مبتلا ہے اور وہ چاہتا ہے اس ایک کروڑ پاکستانی اور دس لاکھ امریکی ڈالر نقد دیے جائیں تاکہ وہ زندگی کا آخری حصہ آرام سے گزار سکے-
 
نور خان نے اسکو پیشکش کی اگر وہ مسافروں اور عملے کو چھوڑنے پر راضی ہو تو نور خان اپنے آپ کو یرغمال کے طور پر پیش کرنے کے لیے بھی تیار ہیں، نیز اس کا علاج پی آئی اے برادشت کرے گی، ہائی جیکر نے یہ تمام پیشکش مسترد کرتے ہوئے سہ پہر تین بجے کی ڈیڈ لائن دے دی، وہ جمعے کا دن تھا، اور اس زمانے میں جمعے کے دن ہفتہ وار چھٹی ہوا کرتی تھی-
 
پی آئی اے کی جانب سے ہائی جیکر کو بتایا گیا کہ آج تو بینک بند ہوں گے، اس رقم کا انتظام کرنا آج ممکن نہیں ہوگا۔
 
image
 
شام کے وقت ہائی جیکر نے جہاز میں کھانا اور پانی اندر لانے کی اجازت دے دی، اس سے قبل وہ ایک ایئر ہوسٹس اور چودہ مسافروں کو رہا کر چکا تھا، رات کے وقت ہائی جیکر نے پیغام بھیجا کہ کسی اہم شخصیت کو بھیجا جائے جو اس کے ساتھ مذاکرات کر سکے، نور خان شاید اسی بلاوے کے منتظر تھے، ایک آرمی افسر کے ہمراہ جہاز کی جانب چل دیے، رات گیارہ بچکر پچاس منٹ پر ہائی جیکر نے صرف نور خان کو اندر آنے کی اجازت دی-
 
گھنٹے بھر کے مذاکرات کے دوران نور خان کو ہائی جیکر پر حملہ کرنے کا جیسے موقع ملا، وہ ہائی جیکر پر حملہ آور ہوگئے، جواب میں ہائی جیکر نے نور خان پر بہت قریب سے نور خان پر فائر کھول دیا ،گولی نور خان کی ریڑھ کی ہڈی کے انتہائی قریب لگی، لیکن نور خان اس پر قابو پانے میں کامیاب ہو چکے تھے، رہی سہی کسر فوراً فوکر طیارے کے عملے نے پوری کردی-
 
اغواء کار کو حراست میں لے لیا گیا، بتایا جاتا ہے جب اغوا کار کا طبی معائنہ ہوا تو کینسر کے مریض ہونے کا دعویٰ محض جھوٹ پر مبنی نکلا، خیر اس کاروائی کے بعد نور خان دوبارہ جلد صحت یاب ہوگئے، اور گراں قدر دلیری کے صلے میں ہلال شجاعت کے اعزاز سے سرفراز کیا گیا۔یہ قصہ ان کی ولولہ انگیز زندگی کا محض ایک چھوٹا سا حصہ ہے، ان کارناموں پر بات چیت آگے بھی جاری رہے گی۔پاک فضائیہ تو یقیناً لیکن پی آئی اے اور دوسرے بہت سارے اداروں کے سربراہ کی حیثیت سے نور خان کی خدمات کا موازنہ دنیا میں کسی اور کے ساتھ شاید ہی ممکن ہوسکے۔
YOU MAY ALSO LIKE: