شکاری


کسی کام کے سلسلے میں شہر سے باہر گیا ہو اتھا دن بھر کی مصروفیت اور طویل سفر کے بعد جب رات کی دیوی اپنی سیاہ زلفیں تیزی سے لاہور شہر پر پھیلا رہی میں اپنی گلی میں داخل ہوا تو گلی کا سیکورٹی گارٖڈتیزی سے میری طرف بڑھا اوربولا جناب مجھے پتہ ہے آپ نے منع کیا ہوا ہے لیکن کوئی شخص صبح سے آپ کا انتظار کررہا ہے میں نے کئی بار اُس کو منع کیا دفتر کا ایڈریس بھی دیا کہ کل جا کر آفس میں مل لینا لیکن وہ بضد ہے ابھی نماز پڑھنے مسجد گیا ہوا ہے بہت پریشان لگتا ہے سر اُس کو مل لیں اُس نے آپ سے ملے بغیر واپس نہیں جانا آپ کے کالج کے دور کا دوست کہتا ہے یہ رقعہ بھی دے گیا ہے کہ جب آپ آئیں آپ کو دے دوں میرے کالج کے ذکر پر میں چوکنا سا ہو گیاکہ کالج دور کا کون دوست ہے جو فون یا رابطہ کئے بغیر آدھمکا جلدی سے رقعہ کھولا تو مختصر الفاظ میں لکھا تھا جناب آپ یقینا مجھے بھول گئے ہونگے کیونکہ میری آپ کی آخری ملاقات تیس سال پہلے ہوئی تھی آپ اور آپ کے دوست مجھے شکار پر جاتے ہوئے ساتھ لے کر جاتے تھے میرا نام ’’ مودا شکاری ‘‘ ہے برائے مہربانی مُجھ سے مل لیں بہت پریشانی میں آپ کے پاس درخواست لے کر آیا ہوں ’’ مودے شکاری ‘‘ کا نام اشتہار کی طرح کئی بار چلا بجا پھرماضی کے دھندلکوں میں مودا شکاری واضح ہو تا گیا میری یادداشت نے اُس کی شکل و صورت کریکڑ کو میرے سامنے زندہ کر دیا بہت دل چسپ کردار تھا میری زیادہ ملاقاتیں نہیں دو یا تین بار ہی ملا تھا لیکن کریکڑ اتنا دل چسپ بھر پور تھا اپنا تاثر چھوڑ گیا چھوٹے چھریرے جسم کا چست پھرتیلا تیز مو دا شکاری جو بہت ساری حیرت انگیز صفات کا مالک تھا میں گھر آکر مودے شکاری کا انتظار کر نے لگا بہت سالوں بعد اُس سے ملاقات ہونے جار ہی تھی کالج دور میں ہم دوست مل کر اکثر پرندوں خرگوش یا مچھلی کا شکار کر نے جاتے تھے ایک دوبار ہم اناڑی لوگوں نے شکار کی کوشش کی لیکن دن رات بھاگ بھاگ کر جب ناکام رہے تو ایک دوست نے مودے شکاری کا ذکر کیا جو اِس کو جانتا تھا کہ وہ ہر قسم کے شکار کا ماہر ہے اگلی بار اُس کو لے کر آؤں گا ہم بار بار ناکام کوششیں کر چکے تھے لہذا اگلی بار مودا شکاری جس کا اصل نام محمود احمد تھا لیکن اپنی عادات کریکڑاور شہرت کی وجہ سے مودا شکاری کے نام سے مشہور ہو گیا مودا شکاری ہلکے پھلکے چست پھرتیلے جسم کا جوان تھا شکاری کتوں کے ساتھ اتنی ہی برق رفتاری سے دوڑتا خرگوش کودوڑ کر پکڑ لیتا تھا درختوں پر آسانی سے چڑھ جاتا تھا اور جب مچھلی کے شکار پر ا ٓتا تو پانی میں کھڑے ہو کر تیزی سے تیرتی ہوئی مچھلیوں کو جال کنڈی کے بغیر ہاتھ سے ہی پکڑ لیتاپانی اور مٹی دیکھ کر بتا دیتا یہاں پر خرگوش مچھلیاں وغیرہ ہیں کہ نہیں پورے علاقے کی شکار گاہوں سے اچھی طرح واقف تھا پھر شکار کے لیے مطلوبہ اوزار چیزیں مسالہ اِس کے پاس موجود ہوتا تھا پورا چالاک مکمل شکاری تھا شکار کرنے کے طریقوں سے خوب خوب واقف تھا پرندوں مچھلیوں جانوروں کی خصوصیات نفسیات سے بھی واقف تھا اگر شکار کیا ہوا پرندہ نہر یا دریا میں گر جاتا تو چھلانگ مار کر پانی میں اُتر جاتا اور تیرتا ہوا جا کر برق رفتاری سے شکار کو جھپٹ لیتا مودا شکاری ون مین آرمی تھا ہم سب اناڑی تھے لیکن اِس کے آنے سے ہم سب تربیت یافتہ شکاری بن گئے تھے مودے نے پہلی اینٹری پر ہی اپنی اہمیت اور مہارت کا بھر پور مظاہرہ کیا ہمیں بھی شکار کے بہت سارے گُر جاننے کا موقع ملا مودا ہمارا لیڈر تھا ہم اُس کے پیچھے پیچھے حرکت کرتے وہ ہماری شکار پارٹی کا روح رواں تھا دو تین ملاقاتوں میں ہی مودا شکاری ہم سب کی آنکھوں کا تارا بن گیا غیر معمولی انسان مجھے شروع سے ہی بہت زیادہ متاثر کرتے ہیں میں بغور مودے کو دیکھتا اُس کے چہرے کی چالاکی آنکھوں کی چمک قابل ذکر تھی پھر نوکری کے سلسلے میں میری نوکری کوہ مری ہو ئی تو میں کالج کے دوستوں سے دور ہو تا گیا آج جب مودے کا نام سامنے آیا تو ساری یادیں پھر سے تازہ ہو گئیں میں نے گھر میں کھانے کا کہا کہ صبح سے مودا آیا ہوا ہے اُس کے ساتھ ہی کھاؤں گا پھرتھوڑی دیر بعد شکاری آگیااُجڑا ہوا ویران کمزور اجڑے بال میلے کچیلے کپڑے چہرے کی سرخی اور آنکھوں کی چمک رخصت ہو چکی تھی میرے دماغ میں شوخ چنچل پھرتیلا مودا تھا لیکن یہ تو بوڑھا ہو گیاتھاگردش ایام نے اُس سے جوانی پھرتی چھین کر اُس پر ضرورت سے زیادہ بڑھاپا طاری کر دیا تھا کئی غم درد پچھتاوا اُس کو اندر سے مار رہا تھا میں گرم جوشی سے ملا ۔کھانا منگوایا معذرت کی کہ میں گھر پر موجود نہیں تھا مودے کے ساتھ مل کر کھانا کھایا پھر جب چائے آگئی تو میں نے مودے کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا اور کہا بہت سالوں بعد ملاقات ہو رہی ہے پھر تھوڑی دیر ماضی کے دوستوں کا ذکر بھی ہوا تو مودا بولا جناب پچھلے دنوں خالد سے ملاقات ہوئی تو اُس نے آپ کی درویشی فقیری کا ذکر بہت ساری تعریفیں کیں تو میں اپنا مسئلہ غم لے کر حاضر ہو گیا ہوں میری مدد کریں میں جوانی میں شکاری تھا میں بہت چالاک بہت تیز دماغ تھا ہر مسئلے کا حل نکالنا اُس کی تہہ تک پہنچنا میرے بائیں ہاتھ کا کام تھامیں جانوروں پرندوں کے ساتھ انسانوں کی نفسیات کو بھی خوب جانتا تھا میں انسانوں سے بھی کھیلتا تھا اپنی غلط خواہشوں کی تکمیل بھی نہایت چالاکی سے کرتا تھا مجھے جوانی میں عورتوں سے عشق لڑانے کی بھی بیمار ی تھی اپنی چالاکی ذہانت سے عورتوں کو اپنے دام میں پھنسا لیتا تھا اپنی مرضی پوری کر نے کے لیے میں رشتوں کا خیال بھی نہیں کرتا تھا انہی دنوں میری نظر گاؤں کے قاری صاحب کی بیگم پر آگئی پھر میں نے اُس کو بھی قابو کر لیا قاری صاحب کو پتہ چلا تو میری بہت منتیں کیں کہ میں اُس کی بیوی کو چھوڑ دوں لیکن میں باز نہ آیا دس سال اُس کے ساتھ کھیلتا رہا ایک دن قاری صاحب نے مجھے کہا تم چالاک طاقتور ہو میں مجبور بے بس لیکن تہجد کے وقت تمہارے لیے بد دعائیں کر تا ہوں میں قاری کی بات سن کر غرور سے مسکرا دیا کہ اور بد دعائیں دو مجھے نہیں لگتیں میں جوانی میں مست سال گزرتے چلے گئے پانچ سال پہلے میری جوان بیٹی کسی بد معاش کے ساتھ بھاگ گئی چند دن دل بہلا کر اُس نے کوٹھے پر بیچ دی بڑی مشکلوں سے بیٹی کو واپس لایا وہ چند دن بعد پھر کراچی بھاگ گئی اب وہ پتہ نہیں کہا کس کوٹھے پر میری عزت کا جنازہ نکال رہی ہے میں ساری زندگی لوگوں کو شکار کر تا رہا آخر خود شکا رہو گیا پھر شکاری بہت رویا کہ خدا کے لیے دعا کریں وہ شرافت کی زندگی کی طرف آجائے میں نے ذکر بتایا تو وہ چلا گیا اور میں سوچنے لگا طاقت جوانی میں مست انسان دوسروں کو شکار کر تا ہے پھر وقت اُس کو شکار کرلیتا ہے ۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 735872 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.