ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی
ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات
میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں
وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا
جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیا بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی
ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا
ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلی اخلاقی
اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا
جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے
اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی
ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و
شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں
جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین
وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ
مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی
کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک
ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز
میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو
دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ
کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی
ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس
الفاظ کے چناؤ کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر
ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر
ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو
اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل
بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو
وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں
کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک
حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا
کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے
کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی
بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک 400 ویڈیوز بنا کر
ٹک ٹاک پر اپلوڈ کرچکا ہوں لیکن ایک بھی وائرل نہیں ہوئی،اس لئے مجھے بتاؤ
کہ راتوں رات کیسے وائرل ہو ا جا سکتا ہے۔میں نے شاہ جی والا حربہ استعمال
کرتے ہوئے جواب دیا کہ’’ راتوں رات وائرل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ایسی
ویڈیو بناؤ جو صرف رات کو ہی دیکھی جا سکتی ہو‘‘
وائرل ہونے کے پیچھے ایک ہی مقصد کارفرما ہوتا ہے اور وہ ہے شہرت،خواہ
راتوں رات ہو یا سستی۔یقین جانئے بہت سے ٹک ٹاکرز سستی شہرت کے لئے کسی حد
تک جانے اور ’’کہیں‘‘ بھی جانے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔اور تو اور آجکل
بہت سی ویڈیوز میں مائیں اپنی بیٹی کے لئے ویڈیو بنا کر اپلوڈ کر رہی ہیں
کہ میری بیٹی کو لائیک،فالو اور شیئر کریں۔یار سوچو کہ بندہ لائیک اور فالو
تو کر سکتا ہے شیئر کیسے کرے۔اور اگر کوئی من چلا ایسا کر دے تو پھر یادگار
پاکستان جیسے ’’یادگار‘‘ واقعات رونما ہو جاتے ہیں۔یقین کیجئے جب ایسے
واقعات رونما ہو جائیں تو پھر بندہ ’’رونمائی‘‘کے بھی قابل نہیں رہتا۔
ملکی سیاستدانوں کی جیسی ویڈیوز آجکل منظر عام پر آرہی ہیں یقین جانئے یہ
سب ٹک ٹاک ایپ پر ہوں تو ایک ہی ویڈیوز پر ملین ویوز اور لائیک کو کراس کر
جائیں۔کیونکہ ٹک ٹاک پر وہی ویڈیوز چلتی ہیں جوسرحد پار سے ہو یا ہر حد
کراس کر جائے۔الحذر الحذرہو سکتا ہے کہ کچھ سیاستدان خواتین کے نام سے فیک
آئی ڈی سے ٹک ٹاک اکاؤنٹ چلا بھی رہے ہوں۔اس لئے عام ٹک ٹاکرز سے گزارش ہے
کہ اکاؤنٹ سوچ سمجھ کر follow کریں،ایسا نہ ہو کہ جسے آپ sheikha 420 سمجھ
کر follow کر رہے ہوں وہ شیخ رشید صاحب کا اکاؤنٹ ہو۔ضمیر جعفری کا مصرع
یاد آگیا کہ
’’سمجھا تھا جسے انناس وہ عورت نکلی‘‘
یا پھرنواب مصطفیٰ خان شیفتہ کا ایک مشہور زمانہ شعر جوضرب المثل کی صورت
اختیار چکا ہے ،ویسی صورت نہ نکل آئے کہ
ہم طالبِ شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
مذکورشعراگر آج کے دور میں لکھا گیا ہوتا تو اس شعر میں شاعر کی مراد ٹک
ٹاک پر وائرل ویڈیو کو ہی لیا جاتا۔شکر ہے فرازؔ بھی اس ایپ سے قبل ہی دار
فانی سے رخصت ہو چکے وگرنہ جو حال ان کے اشعار کے ساتھ ٹک ٹاکرز کرتے ہیں
وہ جیتے جی ہی مر جاتے۔اس لئے کہ ایک بار جون ایلیا سے کسی نے پوچھا کہ
کبھی ایسا ہوا کہ آپ کا شعر کسی شاعر نے اپنے نام کے ساتھ آپ کے سامنے ہی
پڑھ دیا ہو،تو اپنی درویشانہ انداز میں گویا ہوئے کہ ہاں ایک بار ایسا
ہوا،لیکن اتنی تکلیف مجھے میرا شعر میرے سامنے پڑھنے سے نہیں ہوئی جتنا دکھ
اس بات پر ہو اکہ اس نے وہ شعر بھی بے وزن پڑھا۔
ٹک ٹاک ایپ پر سب سے زیادہ غصہ موسیقار گھرانوں کو ہے۔ان کا موقف اور دلیل
بہت مضبوط ہے کہ ٹک ٹاک پر ایسے ایسے بے سرے اور بے تالے چل رہے ہیں جن کے
اپنے گھر ’’تالے‘‘کے بغیر ہیں۔یقین مانئے جیسے ٹک ٹاکرز کی گھر میں کوئی
نہیں سنتا ایسے ہی موسیقاروں کوٹک ٹاک پر کوئی نہیں سنتا۔اسی لئے بہت سے ٹک
ٹاکرز نے ’’سنانے والی‘‘یعنی بیوی کو ساتھ ہی رکھا ہوا ہے کہ کسی اور کی
بیوی کی سننے سے بہتر ہے اپنی بیوی کے ساتھ ٹک ٹاک پر ’’گھریلو ماحول‘‘
کیوں نہ پیدا کر کے اسی کی ہی کیوں نہ ’’سن ‘‘لیجائے۔
ایک رپورٹ کے مطابق 2020 میں ٹک ٹاک نے دنیا کا نقشہ بدل دیا ہے۔مجھے تو ٹک
ٹاک پر مردوں کی ’’مخنثانہ‘‘ویڈیو دیکھ کر پورا یقین ہو گیا ہے کہ واقعی ٹک
ٹاک نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے۔سوشل میڈیا نے ہر یو ٹیوبر اور ٹک ٹاکر
کو تخلیق کار بنا دیا ہے۔ٹک ٹاک پر وہ بھی اپنے آپ کو ہدائت کار سمجھتا ہے
جسے اس کے اپنے گھر والے چائے کی پتیلی کے قریب بھی پھڑکنے نہیں دیتے کہ اس
نے کام سنوارنے کی بجائے بگاڑنا ہی ہے۔کچھ ویڈیوز آپ کو ایسی بھی دکھائی
دیں گی جو صرف دیکھنے کی حد تک دیکھی جا سکتی ہے۔بلکہ ایسے تخلیق کاروں کی
ویڈیوز دیکھ کر تو ایمان لانے کو دل کرتا ہے کہ جب حضرت انسان کی تخلیق
ہوئی ہوگی تو وہ واقعی برہنہ جسم ہی ہوئی ہوگی۔ایسی ویڈیوز دیکھ کر مجھے تو
پختہ یقین ہے کہ عنقریب سماجی انقلاب برپا ہونے والا ہے لیکن اب کے انقلاب
تقدیر نہیں لباس بدلے گا۔اس سے قبل کہ حقیقت میں سماجی انقلاب بپا ہو جائے
مجھے بھی دو تین ویڈیوز ٹک ٹاک پر اپلوڈ کرنا ہے اس لئے ،فی امان اﷲ۔
|