غیرت کے نام پر قتل کی ایک وجہ ’’شادی‘‘ دیر سے کرنا بھی
ہے۔ اﷲ نے انسان میں جنسی خواہشات رکھی ہیں، یہ خواہشات فرشتوں میں نہیں
ہیں، ابن آدم میں اﷲ نے جنسی خواہشات رکھی ہیں، جب انسان کی جنسی خواہشات
پوری نہیں ہوتیں تو انسان اس خواہش کو پورا کرنے کیلئے اِدھر اُدھر منہ
مارتا ہے، یہ وہ خواہش ہے جس کی طلب پوری کرنے کیلئے انسان حد سے گزر جاتا
ہے اور آج کل تو جنسی خواہشات پوری کرنے کے بہت سے ذرائع ہیں ۔ ہم لوگ
اسلام سے دور ہو چکے ہیں اسلام میں حکم ہے کہ بیٹی کے جوان ہوتے ہی اس کی
شادی کر دو لیکن آج کل بیٹیوں کو والدین گھروں میں بیٹھا دیتے ہیں اچھے
رشتوں کی تلاش کرتے کرتے بیٹیوں کے سر پر چاندی اُتر آتی ہے پھر یہی ماں
باپ اپنی بیٹی کی عمر چھپاتے پھرتے ہیں اور لڑکے والوں کو اپنی بیٹی کی عمر
کم بتاتے ہیں تا کہ رشتہ ہو جائے یہی اگر والدین پہلے سمجھداری سے کام لے
لیں تو جھوٹ نہ بولنا پڑے اور جو رشتہ جھوٹ کی بنیاد پر جوڑا جائے گا اُس
رشتے کی عمر زیادہ نہیں ہوتی۔
ایک باپ اپنی بیٹی کو بہت پیار کرتا ہے ہر خواہش پوری کرتا ہے لیکن اُس کی
جوانی کو بھول جاتا ہے کہ اب بیٹی جوان ہو گئی ہے اب اسے شوہر کی ضرورت ہے
لیکن نہیں بیٹی کو اعلیٰ تعلیم کے چکر میں بوڑھا کر دیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں
نہ کہ اگر تیار فصل کو ٹائم سے کاٹا نہ جائے تو وہ فصل انسانوں کی خوراک تو
نہیں بنتی لیکن جانوروں کی خوراک ضرور بن جاتی ہے۔ یہی مثال ہے ایک نوجوان
لڑکے‘ لڑکی کی اگر ہم ان کی شادیاں ٹائم سے نہیں کریں گے تو انہوں نے تو
اپنی خواہشات کی بھوک مٹانے کیلئے جانوروں سے رابطے کرنے ہیں۔ جب بیٹی بھاگ
کر شادی کر لے تو ہم اسی لاڈلی بیٹی کو قتل کر دینے تک آجاتے ہیں ‘ ہم
سوچتے ہیں کہ ہم نے اپنی بیٹی کو اتنے ناز سے لاڈ سے پالا ہے ایک پل میں یہ
کسی بیگانے لڑکے کے ساتھ بھاگ نکلی تو اس میں ہماری اپنی غلطیاں ہیں ہم اُس
کی جوانی کے تقاضوں کو سمجھ لیں تو پانی سر سے نہ گزر پائے۔
ہم نے اپنی اُولاد کا ذہن بنا دیا ہے کہ تمہاری شادی تو 32سال کی عمر سے
پہلے ہو نہی سکتی تو اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ لڑکے لڑکیاں ساری ساری رات
موبائل پر بات کرتے ہیں‘ سب لڑکی لڑکوں کو پتہ ہے ہماری شادی تو بہت دیر سے
ہونی ہے تو چلو موبائلز پر دل بہلا لیں‘ موبائل پر ایسی ایسی باتیں کرتے
ہیں کہ شیطان بھی حیران رہ جاتا ہے۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے ہمارے ملک میں
مجھے تو سمجھ نہیں آتی۔ میرا خیال ہے کم عمر میں ہونے والی شادیاں زیادہ
کامیاب ہوتی ہیں۔ لڑکیوں کی عمر زیادہ ہوتی ہے تو مسائل زیادہ جنم لیتے ہیں،
ان کے اندر کمپرومائز کی قوت کمزور ہوجاتی ہے، کیونکہ وہ پروفیشنل لائف میں
آجاتی ہے۔ ان کی ساخت کچھ اس طرح بن جاتی ہے کہ اپنے آپ کو ماحول کے مطابق
ڈھالنے میں ناکام رہتی ہیں۔ آپ اگر کسی کو حلال کھانا نہیں دیں گے تو وہ
حرام ہی کھائے گا۔ ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے کہ جناب! پہلے ایم بی بی ایس ہو
جائے ڈاکٹر بن جائے ملازمت پر لگ جائے‘ کچھ کما لے، اپنا مکان ہو جائے‘ اس
کے بعد شادی کریں گے۔ آپ خود سوچیں عمر کہاں تک پہنچ گئی ہو گی؟ اب ایک
نوجوان جوانی کے زمانے میں کیا کرے گا؟ 18سے 20 سال کے نوجوان پر کیا گزرتی
ہے اس کا اندازہ وہی کر سکتے ہیں، یہی وجہ ہے وہ بعض اوقات اپنی جنسی خواہش
پوری کرنے کے لئے آخری حدوں کو پار کر دیتے ہیں۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے ہم لوگ اپنے بچوں کو کپڑے اچھے پہناتے ہیں، کھانے پینے
پر بہت خرچ کرتے ہیں، لیکن ان کی جنسی ضرورت حلال طریقے سے پوری کرنے کے
لئے کوشش نہیں کرتے جب زندگی کا طویل عرصہ بیت جائے، تب انہیں دُلہا اور
دُلہن بنا دیتے ہیں اور اس وقت ان کی جوانی کو گہن لگ چکا ہوگا ہے۔ پھر پتہ
چلتا ہے ان میاں بیوی میں سے کوئی ایک ایسا ہے جو جوانی کو غلط استعمال کر
چکا ہے اب بچہ پیدا نہیں کر سکتا تو پھر طلاقیں جنم لیتی ہیں۔ میں نے دیکھا
ہے شادی کے بعد بھی میاں بیوی ایک دوسرے سے سکون حاصل نہیں کر سکتے تو وہ
شادی کے باوجود دوستیوں میں ٹائم گزارتے ہیں اِدھر اُدھر سکون ڈھونڈتے ہیں۔
یہ ساری وجہ دیر سے شادی کرنے کی ہے۔اب دُلہا ڈاکٹر تو بن گیا لیکن اپنی
جوانی تو واپس نہیں لا سکتا نہ ‘ دُلہن سکول کی پرنسپل تو بن گئی لیکن
جوانی اُسے کون لوٹائے گا؟ اب جب 32,32 سال کی عمر میں نکاح ہو گا تو
ایوریج زندگی انسان کی آج کل 45-50 رہ گئی ہے یہ بھی زیادہ بتا رہا ہوں تو
آپ خود بتائیں اس عمر میں شادی ہو گی تو ان کے بچے یتیم اور مسکین نہ ہوں
گے؟ ہمارے ملک میں بیروزگاری کیوں ہے؟ چائلڈ لیبر کیوں ہے؟ چوری چکاری کیوں
ہے؟ برائی کے اڈے کیوں آباد ہے؟ ان سب کی وجہ دیر سے شادی کرنا بھی ہے۔ آپ
اپنے اِردگرد کے گھروں میں یتیم ، مسکین بچوں کو ضرور دیکھیں اُن کی یتیمی
مسکینی کی وجہ پوچھیں ‘ غور کریں تو 80فیصد یہی وجہ نکلے گی۔
تعلیم کو ہم نے آج کل پیسہ کمانے کا ذریعہ بنا لیا ہے ہم شعور تعلیم سے
حاصل نہیں کر رہے ‘ ہمیں شعور دنیا کی ٹھوکریں دے رہی ہیں‘ تعلیم ہم صرف
پیسہ کمانے کیلئے حاصل کر رہے ہیں‘ ہم بچوں کو پیدا ہوتے ہی کہہ دیتے ہیں
تم زیادہ پڑھو گے زیادہ پیسہ کماؤں گے ‘ اپنا گھر بناؤ گے پھر اچھی جگہ
شادی ہو گی‘ شعور نہ ہم خود اپنی اُولاد کو دیتے ہیں نہ تعلیم سے حاصل کرنے
دیتے ہیں۔’’علم حاصل کرو محد سے لحد تک‘‘ یہ تو سب نے سنا ہو گا تو اگر ہم
اسے اپنی شادیوں پر اثر انداز کریں تو پھر تو ہمیں پیدا ہونے سے مرنے تک
تعلیم ہی حاصل کرنی چاہئے شادی تو نہیں کرنی چاہئے؟ ارے بھائی تعلیم اپنی
جگہ چلتی رہتی ہے پیسہ اپنی جگہ کمایا جاتا ہے شادی اپنی جگہ کی جاتی ہے۔
ہم نے انگریز سے آزادی حاصل کی تا کہ ہم اسلامی ملک میں اسلامی طرز سے
زندگی گزار سکیں لیکن اب ہم خود انگریز کے پیچھے لگے ہوئے ہیں انگریز تو
روز جنسی خواہشات پوری کرنے کے مختلف ذرائع ہمارے ملک میں پھینک رہے ہیں جن
کے استعمال سے ہماری نوجوان نسل اندر ہی اندر سے ضائع ہوتی جا رہی ہے۔ ایک
طرف روز انگریز کوئی نئی ڈگری ایجاد کر دیتا ہے تا کہ مسلمان پیسہ کمانے کے
چکر میں ڈگریوں میں پھنسیں رہیں اور شادیوں میں دیر ہو اور یہ بچے پیدا
کرنے کی عمر گزار دیں اور بچے پیدا نہ ہوں ، ہمارے والدین بڑے فخر سے بتاتے
ہیں ہماری بیٹی‘ بیٹے نے یہ ڈگری حاصل کی ہے یہ نہیں پتہ کہ اب ڈگریاں حاصل
کرتے کرتے جوانی ضائع کر چکے ہیں۔ یہ سب نسل کشی چل رہی ہے ہمارے ملک میں
مسلمانوں کو ختم کرنے کی بہت بڑی سازش ہے آج کل ہر تیسرا شادی شدہ جوڑا
ایسا ہے جس کے ہاں اُولاد نہیں ہوتی آپ غور کریں اپنے اردگرد ہائے رے خدا
یہ ہمارے ملک میں کیا ہو گیا؟ والدین بھی ہوش کے ناخن لیں۔ آپ اپنی آپ بیتی
مجھ سے شیئر کریں میں اپنے الفاظ میں اسے تحریر کرکے اپنی اور سماج کی
اصلاح کیلئے کالم لکھوں گا۔ انشاء اﷲ!
|