ڈاکٹر خان کے ایٹمی کارنامے کو نصاب کا حصہ بنایا جائے

ڈاکٹر خاں27اپریِل1936ء میں دارالاقبال بھوپال میں پیدا ہوئے ۔آپ کا تعلق ایک اعلی نسب سپاہ گر گھرانے سے تھا ،آپ کے آباؤ و اجداد بارہویں صدی عیسویں میں برصغیر میں وارد ہوئے ۔یہ وہ دور تھا جب اجمیر اور مضافات خواجہ معین الدین چشتی ؒ کی شمع ہدایت سے منور اورسلطان محمد شہاب الدین غوری برصغیر میں اسلامی سلطنت کی بنیادیں استوار کررہے تھے ۔ڈاکٹر خان کے جد امجد ملک بہبل نے 1192ء میں ترائن کے میدان میں پرتھوی راج کی شکست میں اہم کردار اداکیا تھا۔ملک بہبل کی وفات کے بعد ان کے بیٹے اور پوتے تخت دہلی سے وابستہ رہے۔ڈاکٹر خاں کے دادا محمد منصور خاں کے چار بیٹے تھے ،ان میں تیسرے نمبر پر عبدالغفور خاں تھے جو شادی کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے والد بنے ۔وہ سپہ گری کو خیرباد کہہ کر محکمہ تعلیم سے وابستہ ہوگئے۔ڈاکٹر خان کی نانی کلثوم بیگم اوروالدہ زلیخا بیگم کا شاہی محل میں آناجانا تھا، ایک مرتبہ جبکہ ڈاکٹر خان کی عمر چار ماہ تھی تو والدہ انہیں اپنی آغوش میں لیے شاہی محل جاپہنچی ۔رانی نے نومولد قدیر کو والدہ کے ہاتھوں سے اچک لیا اور پیار کرنے لگی۔پھر بولیں مجھے تو یہ بچہ بھگوان کا اوتار لگتا ہے،اس کی آنکھیں دیکھو کس قدر روشن ہیں۔ہم اپنے جوتشی مہاراج کوبلوا کر اس بچے کی جنم پتری بنواتے ہیں ۔جوتشی نے اپنا حساب کتاب لگاکر کہا " یہ بچہ خوش بخت ہے ،یہ اعلی تعلیم حاصل کرکے اپنے وطن اور قوم کے لیے کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دے گا "۔ڈاکٹر خاں کے گھر کا ماحول خالصتا مذہبی تھا ،انہیں بچپن ہی سے مطالعے کا شوق تھا،انہوں نے مولانا شبلی کی الفاروق کئی مرتبہ پڑھی ۔جبکہ ان کے پسندید ہ مصنف مولانا عبدالحلیم شرراور نسیم حجازی تھے جو اسلامی تاریخ کے ہیروز کو اپنی تحریر کا موضوع بناتے تھے ۔انہوں نے محمد بن قاسم اور یوسف بن تاشقین پر لکھے ہوئے ناولوں کو بار بار پڑھا ۔یہی وجہ تھی کہ کفار کی اینٹ سے اینٹ بجانے والے مسلم ہیرو ہی ان کے آئیڈیل تھے ۔وہ بچپن میں اکثر کہا کرتے تھے کہ میں سائنس پڑھ کر بڑا انجیئنربنوں گا ۔قدرت نے ان کو بڑا کارنامہ انجام دینے کا موقعہ اس وقت عطافرمایا جب 18 مئی 1974 ء کو بھارت نے پہلا ایٹمی دھماکہ کرکے یہ ثابت کردیا کہ باقی ماندہ پاکستان کی سا لمیت بھی اب اس کے رحم و کرم پر ہے - دسمبر 1974 ء میں جب ڈاکٹر خان پاکستان تشریف لائے تو انہوں نے بھٹو سے ملاقات میں بتایا کہ سنٹری فیوج پلانٹ کے ذریعے پاکستان بہت جلد ایٹمی طاقت بن سکتا ہے تو بھٹو نے ڈاکٹر خان کو فوری طور پر اس منصوبے پر کام کرنے کے لیے کہہ دیا - 1978 ء میں ڈاکٹر خاں نے یورینیم افزدگی کا کامیاب تجربہ کرکے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ڈاکٹر خان نے میزائل ٹیکنالوجی کی جانب توجہ مرکوز کی اور وطن عزیز کو غوری ٗ عنزہ ٗ شاہین اور غزنوی جیسے مہلک اور جدید ترین میزائلوں کا تحفہ بھی دیا ۔11مئی 1998 ء کو جب بھارت نے یکے بعد دیگرے پانچ ایٹمی دھماکے کرکے جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن ایک بار پھر اپنے حق میں کرلیا تو بھارت کی ایٹمی بالادستی کو ہرصورت ختم کرنے کا فیصلہ کرلیاگیا۔ کولڈ ٹیسٹ تو 1984 ء میں ہو چکے تھے اب صرف عملی طورپر ایٹمی دھماکے کرنے کا چیلنج درپیش تھا۔چنانچہ 28 مئی1998ء کا سورج پاکستانی قوم کی بے پناہ امیدوں کو لیے طلوع ہوا ۔ ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی اپنے رفقا کے ساتھ راس کوہ کنٹرول روم موجود تھے -ڈاکٹر ثمرمبارک مند نے ( جو سائنس دانوں کی ٹیم کے انچارج تھے) ایٹمی دھماکے کے لیے بٹن دبانے کا فریضہ انجام دیا ۔ بٹن دبانے کے بعد 31 سیکنڈ بعد تین بج کر سولہ منٹ پر راس کوہ پہاڑ ایک خوفناک زلزلے سے لرز اٹھا ۔یہ ایک ہیبت ناک گرج تھی اوردل ہلا دینے والا زلزلہ تھا۔ ایٹم کی قوتوں کا سویا ہوا جن ایک خوفنا ک چنگھاڑ کے ساتھ بیدار ہوچکا تھا جن کی قوت چار کروڑ کلوگرام بارود کے برابر تھی۔ جونہی یہ اثرات دنیا بھر میں نصب ارتعاش پیما آلات پر نظر آئے تو ہمارے دشمنوں کے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی اور دنیا کی آٹھ بڑی طاقتوں کے ایوانوں میں زلزلہ طاری ہوگیا - اس لمحے نہ صرف ہر پاکستانی کا سر فخر سے بلند تھا بلکہ دنیا بھر میں بسنے والے تمام مسلمان اپنے اس عظیم سائنس دان کے کارنامے پر ہدیہ تبریک پیش کررہے تھے ۔قصہ مختصر کہ پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیربنانے والے ڈاکٹر عبدالقدیرخاں اب ہم میں نہیں رہے ،جن ارباب اختیار نے انہیں ذہنی اذیت سے ہمکنارکیاان کا معاملہ اب اﷲ کے سپرد ۔موجودہ حکومت اگرانکی خدمات کا دل سے اعتراف کرتی ہے تو انہیں ڈاکٹر خان کا جسد خاکی فیصل مسجد کے احاطے میں ایک مزار بناکر شفٹ کرنا ہوگا کیونکہ پاکستان بنانے والے قائداعظم محمد علی جناح کا کراچی میں مقبرہ ہے توپاکستان بچانے والے کا مقبرہ بھی فیصل مسجد کے احاطے میں شایان شان ہوناچاہیئے مزید ڈاکٹرخان کے تمام اعزازت بحال کرکے ان کے بارے میں ایک مستند مضمون تیار کروا کر چھٹی کلاس سے بی اے تک کی نصابی کتابوں میں شامل کرکے موجودہ اورآنیو الی نسلوں تک ڈاکٹر خان کی زندگی اور کارناموں کو پہنچا یا جائے ۔میری نظر میں احسان مند ی کا یہی سلیقہ ہے۔


 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 785840 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.