اقوام متحدہ میں چین کے 50 برس

اقوام متحدہ میں عوامی جمہوریہ چین کی قانونی نشست کی بحالی کو 50 برس ہو چکے ہیں۔ اس حوالے سے بیجنگ میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چینی صدر شی جن پھنگ نے اسے دنیا اور اقوام متحدہ کے لیےایک اہم پیش رفت قرار دیا ۔انہوں نے کہا کہ یہ دنیا میں امن اور انصاف کے حامی ممالک کی مشترکہ کوششوں کا ثمر ہے جس سے چینی عوام ، جو دنیا کی ایک چوتھائی آبادی ہیں ، اقوام متحدہ کے اسٹیج پر واپس آئے۔ یہ واپسی چین اور دنیا کے لیے اہم اور دور رس اہمیت کی حامل ہے۔گزشتہ 50 سالوں میں چینی عوام نے دنیا بھر کے ممالک کے عوام کے ساتھ تعاون کیا ہے، بین الاقوامی انصاف کی حفاظت کی ہے اور عالمی امن و ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان50 سالوں میں چینی عوام نے ہمیشہ اقوام متحدہ کے اختیارات اور حیثیت کو برقرار رکھا ہے، کثیرالجہتی پر عمل کیا ہے اور اقوام متحدہ کے ساتھ چین کا تعاون مزید گہرا ہوا ہے۔شی جن پھنگ نے واضح الفاظ میں کہا کہ چینی عوام اپنی خودمختاری، سلامتی اور ترقیاتی مفادات کے تحفظ کے لیے ترقی پذیر ممالک کی منصفانہ جدوجہد کی مضبوطی سے حمایت کرتے ہیں۔انہوں نے زور دیا کہ موجودہ دور میں ہمیں تاریخی رجحان سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے ، محاذ آرائی کی بجائے تعاون کو برقرار رکھنا چاہیئے،بندش کی بجائے کھلے پن کو فروغ دینا چاہیئے،زیرو سم گیم کی بجائے مشترکہ مفادات کو فروغ دینا چاہیئے،ہر قسم کے تسلط ،بالادستی ، جبری سیاست ،یک طرفہ پسندی اور تحفظ پسندی کی مخالفت کرنی چاہیئے۔

حقائق کے تناظر میں گزشتہ 50 سالوں میں چین ہمیشہ عالمی امن کا معمار ، عالمی ترقی میں معاون اور بین الاقوامی نظم و نسق کا محافظ رہا ہے۔ چین نے متعدد مرتبہ اقوام متحدہ میں حق و انصاف کی آواز بلند کرتے ہوئے دنیا کے امن و ترقی کو آگے بڑھانے کے لیے چینی فہم اور چینی کلیہ پیش کیا ہے۔ چین نے تعاون اور مشترکہ کامیابی کو مرکز بناتے ہوئے نئے بین الاقوامی تعلقات کا تصور پیش کیا ہے۔ چین نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ طاقت کے بجائے نظام اور اصولوں کی بنیاد پر مشاورت سے مسائل کا حل تلاش کیا جائے ۔چین نے دنیا سے بھی اپیل کی کہ عالمی گورننس کے ںظام کو بہتر بنانا لازم ہے اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب حقیقی طور پر کثیرالجہت پسندی پر عمل درآمد کیا جائے۔ پرامن ترقی کے بارے میں چین کا نقطہ نظر بالکل واضح ہے کہ عالمی امن اور بنی نوع انسان کے مشترکہ مستقبل کے تحفظ کے لئے ہم نصیب سماج کے تصور کو مضبوط بنانا ہوگا۔ تعصب، امتیازی سلوک ، نفرت اور جنگیں صرف تباہی اور مصیبت لاتی ہیں جبکہ باہمی احترام ، مساوات ، پرامن ترقی اور مشترکہ خوشحالی بنی نوع انسان کے لئے درست انتخاب ہیں۔

چین کا موقف رہا ہے کہ عالمی امن کےلئے اقوام متحدہ کے مرکزی کردار کو فروغ دینا ہوگا۔چین اقوام متحدہ کے امن مشنز میں بھی ہمیشہ فعال طور پر شریک رہا ہے۔اس وقت چین اقوام متحدہ کے امن مشنز میں شرکت کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ چین اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان میں سب سے زیادہ امن دستے بھیجنے والا ملک ہے۔ گزشتہ 30 برسوں میں چین نے 50 ہزار سے زیادہ امن دستے بھیجے ہیں ، اقوام متحدہ کے 30 امن آپریشنز میں حصہ لیا ہے جو 20 سے زائد ممالک اور خطوں کا احاطہ کرتے ہیں۔اس دوران 16 چینی افسران اور سپاہیوں نے اقوام متحدہ کے امن مشنز میں اپنی قیمتی جانیں دی ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی حیثیت سے ، چین ہمیشہ عالمی اور علاقائی حل طلب مسائل کے پرامن سیاسی حل کی حمایت کرتا آیا ہے۔ اسی طرح چین نے اقوام متحدہ کے لیے اپنی مالیاتی ذمہ داریوں کو ہمیشہ بروقت ، جامع اور غیر مشروط طور پر پورا کیا ہے۔ 50 برسوں کے دوران چین نے اقوام متحدہ کی عالمی گورننس میں بھی فعال طور پر حصہ لیا ہے۔اس وقت اقوام متحدہ کے 15 خصوصی اداروں میں سے 4 کی قیادت چینی شہری کر رہے ہیں۔گزشتہ پچاس برسوں میں چین نے انسانیت اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی اور عالمی ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے اپنا بھر پور کردار ادا کیا ہے ۔ چین نے موسمیاتی تبدیلی، حیاتیاتی تنوع اور دیگر ماحولیاتی معاہدوں سے متعلق اپنی ذمہ داریاں پوری دیانتداری سے نبھائی ہیں ۔ اس وقت چین ہائیڈروجن توانائی کی صنعت کو بھرپور طریقے سے ترقی دے رہا ہے جس سے انرجی مارکیٹ میں جدت ، توانائی کے تحفظ اور اخراج میں کمی کے لیے مزید امکانات لائے جا رہے ہیں۔ چین نے موسمیاتی تبدیلی کے میدان میں بھی شاندار خدمات انجام دی ہیں جبکہ ملکی سطح پر قابل تجدید توانائی کی تحقیق و ترقی اور مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے ذریعے متعلقہ مصنوعات کی قیمتوں میں کمی لائی گئی ہے، جس سے دوسرے ممالک کے لیے بھی نئے مواقع میسر آئے ہیں۔

چین اپنے ٹھوس اقدامات سے حقیقی کثیرالجہتی پر عمل پیرا ہے، وسیع تعاون اور تبادلوں پر توجہ دے رہا ہے ، "بیلٹ اینڈ روڈ" جیسے کثیر جہتی تعاون میکانزم کی مدد سے ترقی پذیر ممالک کو مدد فراہم کررہا ہے۔ چین آج بھی پرامن بقائے باہمی کے پانچ اصولوں کی روشنی میں آگے بڑھ رہا ہے اور دوسرے ممالک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام، عدم جارحیت، ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت، برابری و مشترکہ مفاد اور پرامن بقائے باہمی کی راہ پر گامزن ہے۔ چین نے کبھی بھی کمزور ممالک کو زیرتسلط نہیں لایا ہے ،اسی باعث دنیا چین کی معترف ہے۔عالمی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے چین نے استقامت سے سفارتی امور انجام دیے ہیں۔

چین نے ہمیشہ اس بات پر اصرار کیا ہے کہ بین الاقوامی معاملات کو مشاورت کے ذریعے نمٹایا جائے، یک طرفہ پسندی اور تحفظ پسندی کی بھرپور مخالفت کی جائے۔ عالمی ترقی کے عمل میں عوام کو مرکزی حیثیت دی جائے، اشتراک، اختراع، انسان اور فطرت کی ہم آہنگ بقائےباہمی کوبرقرار رکھا جائے تاکہ عالمگیر ترقی کا ہم نصیب معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔ چین آج بھی پر عزم ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں کے تحفظ سے اقوام متحدہ کے کلیدی کردار کی بھرپور حمایت کی جائے اور دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تشکیل کی جائے تاکہ انسانیت کی مشترکہ ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے ۔


 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1117 Articles with 417380 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More