لوگ اہرامِ مصر گھومتے اور شام تک لندن پہنچ جاتے۔۔۔ دنیا کے سب سے پہلے لگژری جہاز کی ناکامی کی حیران کن داستان جس میں مشہور شخصیات نے سفر کیا

image
 
یہ وہ جہاز تھا جو جب لینڈ کرتا تو لمبی اور مخروطی ناک کی وجہ سے ایسا لگتا کہ کوئی عقاب اپنے شکار پر جھپٹ رہا ہے۔
 
یہ وہ جہاز تھا جس میں آواز کی رفتار سے تیز سفر کرتے ہوئے بھی لوگ معمول کے مطابق کھاتے، پیتے اور ایسا محسوس کرتے کہ جیسے وہ اپنے بستر میں ہی موجود ہوں۔
 
بات ہو رہی ہے کونکورڈ کی، جو برطانیہ اور فرانس کا مشترکہ منصوبہ تھا اور جس نے تقریباً تین دہائیوں تک لوگوں کے دلوں پر راج کیا۔
 
سنہ 1976 میں باقاعدہ سروس میں شامل ہونے کے 27 سال بعد کونکورڈ کو 24 اکتوبر 2003 کو ریٹائر کر دیا گیا تھا۔
 
قارئین کی دلچسپی کے لیے اس موقع پر بی بی سی فور کی دستاویزی فلم کونکورڈ: اے سپرسونک سٹوری کا اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔
 
image
 
نومبر 1962 میں فرانس اور برطانیہ نے ایک منصوبہ بنایا جو اگلے 40 سال پر محیط ہونا تھا۔ وہ ایک سپرسونک جہاز بنانا چاہتے تھے۔ یہ منصوبہ دوسری عالمی جنگ کے اختتام سے ہی ان کے ذہنوں میں پنپ رہا تھا۔
 
کونکورڈ جہاز پر کتاب لکھنے والے جوناتھن گلینسی کے مطابق کونکورڈ کے بارے میں سب سے پہلی بحث برطانوی انجینیئروں کے درمیان 40 کے دہائی کے اواخر میں ہوئیں، وہ ایسے مستقبل کا خواب دیکھ رہے تھے جو اُس دنیا سے کہیں آگے تھا جس میں وہ رہ رہے تھے، اس وقت برطانیہ کوئلے سے چلنے والا، دیوالیہ ملک تھا جہاں راشن کارڈز چلا کرتے تھے۔'
 
آواز کو پیچھے چھوڑنے کی خواہش
جب امریکی 1947 میں پہلی مرتبہ آواز کی رفتار سے تیز پرواز کرنے میں کامیاب ہوئے تو دنیا بھر میں پہلا سپر سونک یعنی آواز سے تیز تر مسافر جہاز بنانے کی دوڑ شروع ہو گئی۔
 
نازی دوسری عالمی جنگ کے دوران فضائی ٹیکنالوجی میں کافی ترقی حاصل کر چکے تھے اور اب برطانوی سائنسدانوں نے ان تصورات پر غور کرنا شروع کیا اور انھیں آگے بڑھایا۔
 
اب برطانیہ کو کچھ حد تک بنیاد مل گئی تھی لیکن اس کی تکمیل میں دس کروڑ پاؤنڈ کا خرچہ آنا تھا۔
 
انگلش چینل کے دوسری جانب فرانس بھی ایک ایسے تصور پر کام کر رہا تھا جو برطانوی ڈیزائن کے مشابہ تھا۔ مگر دونوں ممالک نے مسابقت اختیار کرنے کے بجائے ایک دوسرے سے تصورات کا تبادلہ کیا اور اخراجات آپس میں بانٹ لیے۔
 
image
 
دونوں ممالک نے طے کیا کہ ایک طیارہ فرانس کے شہر ٹولوز میں اور ایک برطانیہ کے شہر برسٹل میں بنایا جائے گا۔
 
انتیس نومبر 1962 کو اس معاہدے پر دستخط ہوئے۔
 
چونکہ یہ معاہدہ صدیوں پرانے دشمنوں کے درمیان طے پایا تھا اس لیے دونوں جانب شکوک و شبہات بھی بہت زیادہ تھے۔
 
کونکورڈ کے چیف ڈیزائن انجینیئر ٹیڈ ٹالبوٹ کہتے ہیں کہ ہمارے سیاستدانوں کو فرانسیسی سیاستدانوں پر بھروسہ نہیں تھا اس لیے اُنھوں نے اصرار کیا کہ جو بھی اس معاہدے سے ہٹے گا وہ اس کے مکمل ہونے تک کے اخراجات ادا کرے گا۔ چنانچہ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہم بھی باہر نہیں نکل سکتے تھے۔'
 
مگر یہ شق اگلے دس سال تک برطانوی سیاستدانوں کے بھی سر کا درد بنی رہی۔
 
برطانیہ اور فرانس کے انجینیئروں نے اس منصوبے پر کام شروع کر دیا۔
 
دونوں اطراف نے اپنے اپنے ورکرز کے لیے زبان کے کورسز کروائے کیونکہ دونوں کو ہی ایک دوسرے کی زبان سمجھنے میں مشکلات کا سامنا تھا۔ کونکورڈ کے فلائٹ انجینیئر فلپ کیئرنز کہتے ہیں کہ اس منصوبے پر فرانس کی ڈرائنگز فرانسیسی میں ہوتی تھیں اس لیے یہ سب سیکھنا پڑتا تھا۔
 
image
 
ایک دوسرے پر شک
برطانوی انجینیئر کو اس بات کا خیال رکھنا پڑتا تھا کہ کھانے کے وقفے کے دوران بھی کہی گئی کوئی ہلکی پھلکی بات اس نازک سے معاہدے کو خطرے میں نہ ڈال دے۔
 
جوناتھن کہتے ہیں کہ 'مگر اس کے باوجود برطانیہ اور فرانس کے انجینیئرز کے درمیان کافی اچھی ہم آہنگی پیدا ہونے لگی تھی اور وہ ایک دوسرے کو چھیڑتے بھی رہتے تھے۔ چنانچہ دونوں طرف کے قومی تفاخر کے اس میں شامل ہونے اور مسابقت کی وجہ سے ایک بہت ہی کامیاب مشین تیار ہوئی۔'
 
مگر انجینیئرز کی ہم آہنگی ہونے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ سیاست دان بھی ایسے ہی تھے۔
 
وزیرِ اعظم برطانیہ ہیرالڈ ولسن کو جب معلوم ہوا کہ فرانسیسیوں نے کونکورڈ کے نام کے آخر میں انگریزی حرف 'ای' کا اضافہ کر دیا ہے تو اُنھیں فرانسیسی صدر چارلس ڈی گال پر بہت غصہ آیا، چنانچہ اُنھوں نے وہ ہٹوا دیا۔ مگر ڈی گال نے یہ واپس لگوا دیا۔
 
مگر ٹولوز اور برسٹل میں انجینیئرز کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔
 
برطانیہ اور فرانس کے درمیان معاہدے کے ایک سال بعد ابتدائی ڈیزائن کی رونمائی کی گئی۔ اس کے اندرونی حصے کا تجربہ فراہم کرنے کے لیے لکڑی کا ایک نمونہ بنایا گیا۔
 
جوناتھن گلینسی کہتے ہیں کہ فوراً ہی اس طیارے کے آرڈرز موصول ہونے لگے۔ 'ہوابازی کی صنعت بہت پُرجوش تھی۔ سپر سونک پروازوں کا یہ ابتدائی دور تھا۔ اس نے ایئرلائن مالکان میں وہ جوش بھر دیا تھا جو آج تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ سب کو معلوم تھا کہ کونکورڈ ہی اگلی بڑی چیز ہے۔'
 
image
 
ایک کے بعد ایک آرڈرز
دنیا بھر میں 16 ایئرلائنز نے 75 سے زائد طیاروں کا آرڈر دیا۔ کئی آرڈرز امریکی ایئرلائنز کے تھے جس نے صدر کینیڈی کو مشتعل کر دیا، چنانچہ اُنھوں نے کونکورڈ سے بھی بہتر طیارہ بنانے کا اعلان کر دیا۔
 
جوناتھن گلینسی کہتے ہیں کہ 'امریکہ پیچھے نہیں رہنا چاہتا تھا کیونکہ ایک اور کھلاڑی بھی اس کھیل میں شامل تھا یعنی سوویت یونین جس کے پاس سپر سونک ٹیکنالوجی تھی، اس کے علاوہ جرمنی میں بھی اس پر کام ہو رہا تھا۔'
 
اب چونکہ گاہک موجود تھے، اس لیے کونکورڈ کو حقیقت میں بدلنا ضروری تھا۔
 
ہر چیز کی شروعات ابتدا سے کی گئی اور مٹیریلز کو اُن کی آخری حد تک ٹیسٹ کیا گیا۔ یہ پراجیکٹ اس لیے بھی بڑا ہو گیا تھا کیونکہ ایک وقت میں ہی دو طیارے بنائے جا رہے تھے چنانچہ ہر پرزہ اور ہر آلہ دو مرتبہ بنایا جاتا۔
 
مگر آواز کی رفتار سے دو گنا تیزی سے سفر کرنے کے لیے ایئرکرافٹ ڈیزائن میں بہت بڑی پیش رفت کی ضرورت تھی۔ کئی مہینوں تک طیاروں کے پروں کی آزمائش کی جاتی رہی اور فوجی طیاروں سے حاصل انجنز کو از سرِ نو بنا کر اُنھیں دوگنا طاقتور بنایا گیا۔
 
لمبی ناک کو کسی بھی دوسرے مسافر طیارے کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے ہوا چیرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔
 
image
 
مگر انجینیئرز کو ٹیک آف اور لینڈنگ کے لیے ایک نیا طریقہ ایجاد کرنا پڑا تھا۔
 
کونکورڈ کی ٹیک آف اور لینڈنگ کے دوران اس طویل ناک کو نیچے کی جانب موڑ دیا جاتا تاکہ پائلٹس کو رن وے نظر آ سکے۔ سنہ 1966 تک طیارے کے بڑے حصے دونوں طرف کی فیکٹریوں سے تیار ہو کر دوسری جانب پہنچائے گئے۔
 
مگر جلد ہی کونکورڈ اپنے ابتدائی اخراجات سے پانچ گنا زیادہ مہنگا ہونے لگا اور اس کے آرڈرز کرنے والی کمپنیاں مزید مہنگے اضافوں کی درخواست کرنے لگی تھیں۔ بالآخر 1967 کے موسمِ سرما میں ایک دن کونکورڈ کے اوّلین طیارے کی رونمائی کی گئی۔
 
اس دن لوگوں میں بہت امید اور جوش بھرا ہوا تھا اور یہاں تک کہ فلائٹ اٹینڈنٹس نے خلابازوں کی طرح کپڑے پہن رکھے تھے جو اس بات کا عندیہ تھا کہ یہ دونوں قومیں اس طیارے کو کس طرح دیکھتی ہیں۔
 
پھر آخر کار وہ دن بھی آ گیا جب ٹولوز میں دو جانباز پائلٹس نے پہلی بار کونکورڈ کی آزمائشی پرواز کرنی تھی۔
 
یہ پرواز کامیاب رہی اور اس کے بعد برطانوی کونکورڈ کی 22 منٹ طویل آزمائشی پرواز بھی کی گئی۔
 
اب کونکورڈ کی فلائٹ ٹیسٹنگ کا کام تیزی سے شروع ہو گیا تھا۔
 
image
 
ابتدائی خدشات: دھواں اور شور
مگر کونکورڈ کے انجنز سے نکلنے والے گاڑھے دھوئیں اور اس کے شور کے بارے میں خدشات پیدا ہونے شروع ہو گئے۔
 
زمین پر موجود کسی بھی شخص کو اپنے اوپر کونکورڈ کے گزرنے پر دو دھماکے سنائی دیتے، جنھیں سونک بوم کہا جاتا ہے۔ یہ تب پیدا ہوتے ہیں جب کوئی چیز آواز کی رفتار سے تیز سفر کرے۔
 
جوناتھن گلینسی کہتے ہیں کہ جب کسی آبادی پر سے گزرتا تو لوگ اس کی شکایتیں کرتے۔
 
گر 1972 آنے تک بھی کونکورڈ منصوبہ اب تک ایک ارب پاؤنڈز سے زیادہ پھونک چکا تھا اور اب بھی سروس میں آنے سے کہیں دور تھا۔
 
اسی دوران کونکورڈ کے پروٹوٹائپ کو برطانوی وزیرِ ہوابازی لارڈ مائیکل ہیسیلٹائن اور متعدد انجینیئرز کے ساتھ ایک سیلز ٹور پر بھیجا گیا جس نے دنیا بھر کا دورہ کرتے ہوئے دیگر کمپنیوں کو بھی اس کی خریداری پر قائل کرنا تھا۔
 
پہلا سٹاپ تہران تھا جہاں شاہ رضا پہلوی نے اس میں ایک آزمائشی سفر کیا۔
 
پرواز کے دوران وہ ہیسیلٹائن سے بولے کہ وہ کاک پٹ میں جانا چاہتے ہیں۔ جب وہ واپس اترے تو طیارے خریدنے کے لیے حامی بھر چکے تھے۔
 
اُنھوں نے دو طیارے خریدنے اور کونکورڈ کو ایران پر سے گزرنے کی اجازت دینے کا اعلان کیا۔
 
image
 
آرڈرز منسوخ ہونے لگے
مگر اب کونکورڈ کی طلب میں کمی آنے لگی تھی۔ جب یہ سیلز ٹور جاپان پہنچا تو اس سے نکلنے والا دھواں دیکھ کر جاپانی صدمے میں چلے گئے اور اُنھوں نے اپنے تین طیاروں کا آرڈر منسوخ کر دیا۔
 
ماک 2 میگزین کی ایڈیٹر کیٹی جون کہتی ہیں کہ جب کونکورڈ آسٹریلیا پہنچا تو وہاں لوگوں نے اس کے شور سے آسٹریلیا کے اصلی، قبائلی باشندوں پر ہونے والے منفی اثرات کے خلاف مظاہرہ کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ لوگوں نے اسے 'نوآبادیاتی ہوابازی' تصور کیا جس میں فرانس اور برطانیہ نے اُن غریب لوگوں پر سے کونکورڈ کی پروازیں اڑانی تھیں جو خود کبھی اس طیارے میں سفر نہیں کر سکتے تھے۔
 
سونک بوم اب ایک عالمی مسئلہ بننے لگا تھا۔
 
انڈیا نے کونکورڈ کو اپنے زمینی حصے کے قریب نچلی پرواز سے منع کر دیا تھا کیونکہ کیٹی جون کے مطابق 'انڈین یہ کہنے لگے تھے کہ ہم اس شور سے کیوں متاثر ہوں، کیا ہم برطانوی اور فرانسیسیوں سے کم اہم ہیں؟'
 
اپنے مشکلات سے بھرپور مستقبل کی پہلی جھلک دیکھنے کے بعد یہ طیارہ گھر واپس لوٹ آیا۔ مگر جو خوش قسمت لوگ اس میں پہلی مرتبہ سفر کر پائے اُن کے لیے یہ نہایت یادگار تجربہ تھا۔
 
فلپ کیئرنز کہتے ہیں کہ بحیرہ روم کے اوپر سے 58 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہوئے ایک جانب یورپ اور ایک جانب افریقہ نظر آ رہا تھا جو حیرت انگیز تھا۔ کونکورڈ کو واپسی پر برطانیہ میں شاہی منظوری عطا کر دی گئی مگر اس کا مستقبل اب بھی غیر یقینی کی کیفیت میں تھا۔
 
دوسری جانب امریکہ کا سپر سونک طیارہ اب تک زمین سے بلند ہونے میں بھی مشکلات کا شکار تھا۔
 
کیٹی جون کہتی ہیں کہ بوئنگ کمپنی کا بنایا گیا ڈیزائن بہت پیچیدہ تھا، اس کے علاوہ امریکیوں کا ویتنام جنگ اور اپالو خلائی پروگرام پر بھی کافی پیسہ لگ رہا تھا۔ چنانچہ ایک ارب ڈالر خرچ کرنے کے بعد امریکی حکومت نے یہ منصوبہ ختم کر دیا۔
 
کونکورڈ یا کونکورڈسکی؟
دوسری جانب روسیوں نے کونکورڈسکی نامی سپر سونک طیارے کو سروس میں شامل کرنے کے لیے تقریباً تیار کر لیا تھا۔
 
یہ اپنے ڈیزائن میں حیران کُن حد تک کونکورڈ جیسا تھا۔
 
جوناتھن گلینسی کہتے ہیں کہ ایک حوالے سے روسی پراجیکٹ بہت زبردست تھا کہ یہ سپر سونک پرواز کرنے والا پہلا مسافر طیارہ بنا، اس کی پرواز شاندار تھی، اور سوویت یونین نے رائے عامہ کے میدان میں فتح حاصل کر لی تھی۔
 
image
 
مگر وہ کہتے ہیں کہ یہ طیارہ بہت جلد بازی میں تیار کیا گیا تھا، اس کے ٹوائلٹس اور لائٹنگ اکثر کام نہیں کرتے تھے، جہاز کے نیچے سامان کی جگہ نہیں تھی، نشستیں بھی بہت عام سی تھیں، چنانچہ یہ اپنی تباہی کا خود سبب بنا۔
 
جون 1973 میں پیرس ایئر شو میں ایک پرواز کے دوران یہ طیارہ فضا میں ہی پھٹ گیا جس میں عملے کے چھ ارکان اور زمین پر موجود آٹھ افراد ہلاک ہوئے۔
 
اس کے بعد کونکورڈسکی نے روس کے اندر ہی صرف 55 مزید پروازیں کیں اور اسے بالآخر 1978 میں گراؤنڈ کر دیا گیا۔
 
کونکورڈ کی زبردست انجینیئرنگ نے کسی سانحے کا امکان بہت کم کر دیا تھا مگر سروس میں شامل ہونے کا وقت جیسے جیسے قریب آ رہا تھا، ویسے ویسے اس کے اپنے مسائل سر اٹھا رہے تھے۔
 
ستّر کی دہائی کی شروعات میں ماحولیاتی لابی متحرک ہونے لگی تھی اور یہ وہ دور تھا جب تیل کے بحران کی وجہ سے ایندھن کی قیمتیں بھی بلندیوں کو چھو رہی تھیں۔
 
کونکورڈ اب محبوب پراجیکٹ نہیں رہا تھا۔
 
سنہ 1973 کے اواخر تک کونکورڈ کے تقریباً تمام آرڈرز منسوخ ہو چکے تھے، یہاں تک کہ اسے بنانے والے ملکوں کی قومی فضائی کمپنیاں برٹش ایئرویز اور ایئر فرانس تک اسے خریدنے پر آمادہ نہیں تھیں۔
 
image
 
’شرمناک‘ معاہدہ
مائیکل ہیسلٹن کہتے ہیں کہ یہ بہت شرمناک تھا۔
 
'چنانچہ میں نے مذاکرات کیے کہ جب تک یہ طیارہ پیسے نہیں کما کر دے گا، تب تک ادائیگی لازم نہیں ہو گی اور اس کی بنا پر میں نے یہ شرمناک معاہدہ کیا مگر کم از کم میں یہ طیارے فروخت کر پایا۔'
 
برٹش ایئرویز نے پانچ طیارے خریدے جن میں سے ہر طیارہ دو کروڑ 20 لاکھ پاؤنڈ کا تھا۔
 
جنوری 1976 میں لندن سے بحرین اور پیرس سے ریو ڈی جنیرو کے لیے دنیا کی پہلی کمرشل سپرسونک پروازیں شروع ہوئیں۔
 
سنہ 1977 نیو یارک کے لیے پروازیں شروع کی گئیں۔ کوئی بھی شخص جو 431 پاؤنڈ کا یکطرفہ ٹکٹ ادا کر سکتا تھا، وہ بحرِ اوقیانوس کو آٹھ کے بجائے ساڑھے تین گھنٹوں میں عبور کر لیتا۔
 
کونکورڈ پر باقاعدگی سے پرواز کرنے والے ٹیری مینزفیلڈ کہتے ہیں کہ 'کونکورڈ پروازوں کے بارے میں بہترین بات یہ تھی کہ ان کا لاؤنج فوراً بنا دیا گیا تھا، آپ کے پاس ٹکٹ ہوتا تو آپ (کونکورڈ مسافروں کے لیے مخصوص) دروازوں سے گزر کر ہوٹل جیسی ایک جگہ پہنچ جاتے۔'
 
کونکورڈ میں سفر کرنے والی گوین اور جارج بیلی کہتے ہیں کہ یہ بہت بڑی دعوت کی طرح ہوتا تھا۔
 
اس طیارے میں فلائٹ سٹیورڈ رہنے والی سیلی آرمسٹرانگ کہتی ہیں کہ طیارے کا عملہ مسافروں کی فہرست میں اُن لوگوں کے نام دیکھتا تھا جو پہلے بھی اس سے سفر کر چکے ہیں، اور اُنھیں اُن کے نام سے مخاطب کرتا تھا جس پر وہ بہت خوش ہوتے تھے۔
 
کونکورڈ میں سفر کرنے والے ڈیو ویلموٹ کہتے ہیں کہ لوگوں کو لگتا تھا کہ کونکورڈ بہت بڑا معلوم جہاز ہو گا لیکن قریب سے دیکھنے پر یہ بہت چھوٹا معلوم ہوتا تھا اور اندر سے کافی تنگ تھا۔
 
برائن ملر بھی اس طیارے میں باقاعدگی سے سفر کرتے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ طیارے کی چھت کافی نیچی تھی اور کھڑکیاں عام طیاروں کے مقابلے میں بہت چھوٹی تھیں۔
 
یہاں تک کہ خود سابق وزیرِ ہوابازی مائیکل ہیسلٹن بھی کہتے ہیں کہ جہاز بہت تنگ تھا۔
 
’فلم سٹار‘ جیسا احساس
برٹش ایئرویز کی فلائٹ سٹیورڈیس جینیٹ ہارٹلی کہتی ہیں کہ ٹیک آف سے قبل ہی فرسٹ کلاس کی طرح لوگوں کو گرم تولیے فراہم کیے جاتے اور بار آرڈرز لے لیے جاتے۔
 
گوین کہتی ہیں کہ یہ سب بہت 'رومانوی' تھا اور اُنھیں کسی 'فلم سٹار' جیسا احساس ہونے لگتا تھا۔
 
'وہ آپ کو ویسا محسوس کرواتے تھے۔'
 

اور اس میں ٹیک آف کرنا بھی اپنے آپ میں ہی ایک الگ تجربہ ہوتا تھا کیونکہ یہ اتنی تیز رفتار پر ہوتا تھا کہ ٹیک آف کے دوران اگر کوئی شخص آگے جھکنے کی کوشش کرتا تو وہ بھی ممکننہ ہوتا اور ایکسلریشن کی وجہ سے اپنی سیٹ میں ہی دھنسا رہتا۔

 
برائن ملر کہتے ہیں کہ وہ بہت حیران کُن لمحہ تھا پورا لندن ایک لحظے میں ہی نقطے میں تبدیل ہو گیا۔
 
کونکورڈ کو سونک بوم کے مسئلے کی وجہ سے صرف سمندروں کے اوپر ہی آواز کی رفتار سے تیز سفر کرنے کی اجازت ہوتی تھی اس لیے بحرِ اوقیانوس کے اوپر اسے اس رفتار سے اڑایا جاتا تھا۔
 
برائن ملر کہتے ہیں کہ 'طیارے میں مسلسل اس کی رفتار کا کاؤنٹر نظر آ رہا ہوتا تھا اور کبھی کبھی یہ سوچنا عجیب لگتا تھا کہ آپ گولی کی رفتار سے سفر کر رہے ہیں۔'
 
طیارے میں سفر کرنے والے لوگ کہتے ہیں کہ آواز کی رفتار سے دو گنا سے بھی زیادہ تیز رفتار پر کسی قسم کا ارتعاش محسوس نہیں ہوتا تھا۔ برطانوی اداکارہ و مصنفہ جوآن کولنز کہتی ہیں 'ایسا لگتا تھا آپ اپنے بستر میں موجود ہیں۔'
 
ایک بار جب طیارہ اپنی مقررہ بلندی تک پہنچ جاتا تو لوگ مینیو کے مطابق اپنا کھانا آرڈر کر سکتے تھے۔
 
اور یہ کوئی عام کھانا نہیں بلکہ 'کونکورڈ' کا کھانا ہوتا تھا۔
 
جینیٹ کہتی ہیں کہ سب سے پہلے مسافروں کو لوازمات پیش کیے جاتے، پھر تین گرم کھانے اور ایک ٹھنڈا کھانا۔
 
اس کے بعد کسی مہنگے ترین ریستوران کی طرح مہنگی شراب پیش کی جاتی۔
 
برائن ملر کہتے ہیں کہ اُنھیں وائن پیش کی گئی تو اُنھوں نے منع کر دیا لیکن پھر اُنھوں نے دیکھا کہ یہ فرانس کی سب سے زبردست وائن میں سے ایک تھی، اور اُنھوں نے خود سوچا کہ میں نے تو آج تک یہ نہیں پی۔
 
وہ کہتے ہیں کہ پھر اُنھوں نے ایک کے بعد ایک گلاس پینا شروع کیا اور جب نیو یارک پہنچے تو دس بجے کی میٹنگ سے پہلے اُنھیں اندازہ ہوا کہ وہ فرانس کی نفیس ترین شراب کی آدھی سے زیادہ بوتل پی چکے ہیں۔
 
کونکورڈ میں پرواز کرنا ایک مہنگا تجربہ تھا چنانچہ اس کی توجہ بھی اُن ہی مسافروں پر ہوا کرتی تھی جو اس کا ٹکٹ خرید سکتے تھے، جن میں انویسٹمنٹ بینکرز، فنڈ مینیجرز، فلم اداکار، موسیقار، گلوکار اور ایسے ہی لوگ تھے۔
 
image
 
یادگار سفر
مگر ایسے بھی مسافر ہوا کرتے تھے جو ایک عرصے تک پیسے جمع کر کے اپنی زندگی کا سب سے یادگار تجربہ حاصل کرنا چاہتے تھے اور اُنھیں بسا اوقات اپنی توقعات سے کہیں زیادہ بہتر تجربہ ملتا۔
 
طیارہ اتنا تیز تھا کہ جوآن کولنز کہتی ہیں کہ آپ کھانا ختم کرتے، کچھ ڈرنکس پی کر ایک جھپکی لیتے تو لندن آ جاتا تھا۔
 
مگر کونکورڈ کو چلائے رکھنا کمپنیوں کے لیے خسارے کا باعث بن رہا تھا۔
 
سنہ 1981 تک اسے سروس میں شامل ہوئے صرف پانچ ہی سال ہوئے تھے مگر برٹش ایئرویز اور ایئر فرانس کو کروڑوں کا نقصان ہونے لگا تھا۔
 
جوناتھن گلینسی کہتے ہیں کہ یہ سروس بہت مہنگی اور بہت محدود تھی کیونکہ اس کے لیے سودمند روٹ صرف ایک تھا، یعنی لندن سے نیو یارک، نیو یارک سے لندن، یا پھر نیو یارک سے پیرس اور پیرس سے نیو یارک۔
 
مگر اُن کے نزدیک کونکورڈ کے لیے ضروری تھا وہ ٹکٹوں کی قیمت بڑھا کر اسے صرف مخصوص لوگوں کے لیے ہی قابلِ رسائی بنا دے۔
 
چنانچہ برٹش ایئرویز نے کونکورڈ کے ٹکٹس کی قیمتیں اپنی دیگر پروازوں پر فرسٹ کلاس کی قیمتوں سے دوگنا سے زیادہ کر دیں۔
 
اب کونکورڈ 80 کی دہائی کے وسط میں بالآخر منافع کمانے لگا تھا مگر اس کا صرف ایک کامیاب روٹ تھا، لندن سے نیو یارک۔
 
برٹش ایئرویز کے زیادہ تر کونکورڈ فارغ کھڑے رہتے تھے۔
 
image
 
بالآخر کمپنی نے فیصلہ کیا کہ کونکورڈ طیاروں کو چارٹر پروازوں کے لیے دستیاب کر دیا جائے اور جو بھی شخص قیمت ادا کر سکتا ہو وہ پورا طیارہ بک کروا لے اور جہاں دل چاہے لے جائے۔
 
جینیٹ کہتی ہیں کہ اُن کے کئی دوستوں نے اُن سے کہا کہ وہ کونکورڈ میں سفر کرنا چاہتے ہیں۔
 
جینیٹ نے کہا، ’کیوں نہیں۔‘
 
وہ کمپنی کے پاس گئیں اور پوچھا کہ کیا وہ ڈیڑھ گھنٹے کے لیے کونکورڈ کی سپر سونک پرواز چارٹر کروا سکتی ہیں؟ اُنھیں کہا گیا کہ ساڑھے 17 ہزار پاؤنڈ میں یہ ممکن ہو سکتا ہے۔
 
وہ بتاتی ہیں کہ فی شخص 175 پاؤنڈ حصے میں آئے اور اُنھوں نے دو کونکورڈ بُک کروائے اور کہتی ہیں کہ وہ تیسرا بھی 'آسانی سے' کروا سکتی تھیں۔
 
دوپہر مصر میں، شام لندن میں
چارٹر پروازیں کھلنے سے اس کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ یہ پروازیں دنیا بھر میں ڈھائی سو سے زیادہ جگہوں تک جانے لگی تھیں جن میں سے 76 امریکہ میں تھیں۔
 
چنانچہ کونکورڈ کئی لوگوں کے لیے زندگی کے منفرد ترین تجربے کے لیے بھی استعمال ہونے لگا اور برٹش ایئرویز کے لیے تشہیر کے آلے کے طور پر بھی۔
 
یہاں تک کہ لوگ برطانیہ سے مصر تک جاتے، اہرامِ مصر کے اردگرد گھومتے اور شام کی چائے تک واپس لندن پہنچ جاتے۔
 
ریگ ہال نامی ایک مسافر بتاتے ہیں کہ 'سورج غروب ہو چکا تھا مگر جہاز اٹلی کی جانب جا رہا تھا اور کپتان کی جانب سے کہا گیا کہ دیکھیں ہم اتنی تیزی سے جا رہے ہیں کہ سورج واپس اوپر آ رہا ہے۔ یہ کتنا منفرد تجربہ تھا۔'
 
اب کونکورڈ قومی علامت بننے لگا تھا اور بڑی عوامی تقریبات میں اسے مرکزی اہمیت حاصل ہونے لگی تھی۔
 
ایسا لگنے لگا تھا کہ یہ خواب ہمیشہ جاری رہے گا۔
 
image
 
خواب جو ٹوٹ گیا
مگر پھر ایک دن کونکورڈ کے کریش ہونے کی خبر سامنے آئی۔ یہ 25 جولائی سنہ 2000 کی بات ہے۔
 
اس حادثے میں ایک سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ ایئر فرانس کی اس چارٹرڈ پرواز 4590 کی تباہی نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور اب اس کی تحقیقات ہونے لگی تھیں۔
 
ایئر فرانس کی باضابطہ رپورٹ میں کہا گیا کہ رن وے پر موجود ایک دھاتی ٹکڑے نے ٹائروں اور ایندھن کے ٹینکوں کو نقصان پہنچایا تھا۔
 
برٹش ایئرویز اور ایئر فرانس دونوں نے ہی اپنے اپنے کونکورڈ گراؤنڈ کر دیے اور نومبر 2001 میں اُنھیں مزید تبدیلیوں کے ساتھ متعارف کروایا۔
 
مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
 
گیارہ ستمبر کے حملوں میں 2700 افراد کے ہلاک ہونے کے بعد فضائی سفر کی طلب میں کمی آئی تھی اور نیو یارک تک کی کاروباری پروازیں سب سے زیادہ متاثر ہوئیں۔
 
اب کونکورڈ بحرِ اوقیانوس کو تقریباً خالی ہی عبور کیا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ مرمت اور دیکھ بھال کے اخراجات میں بھی اضافہ ہونے لگا تھا۔ چنانچہ اپریل 2003 میں ایئر فرانس اور برٹش ایئرویز کی جانب سے کونکورڈ کی ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا گیا۔
 
اگلے چھ ماہ میں کونکورڈ میں ایک بار پرواز کر لینے کی خواہش میں کئی لوگوں نے کونکورڈ کے لیے ٹکٹیں بک کروائیں۔
 
اس دوران ہر پرواز کی ہر نشست بک ہو جاتی، یہاں تک کہ طلب پوری کرنے کے لیے مزید پروازیں چلائی جانے لگیں۔
 
image
 
آخری پرواز
ایئر فرانس مئی 2003 میں ہی کونکورڈ کو ریٹائر کر چکی تھی اور بالآخر 24 اکتوبر 2003 کو برٹش ایئرویز کی کونکورڈ پرواز 002 آخری مرتبہ نیو یارک سے لندن کے لیے روانہ ہوئی۔
 
برطانوی فضائی کمپنی نے آخری کمرشل لینڈنگ دیکھنے کے خواہش مندوں کے لیے ہوائی اڈے پر ایک ہزار سیٹوں پر مشتمل سٹینڈ بنایا تھا۔
 
اس روز اس عظیم طیارے کی تین پروازیں آخری دفعہ مسافروں کو لے کر پانچ پانچ منٹ کے وقفے سے لندن کے بین الاقوامی ہوائی اڈے ہیتھرو پر اُتریں جہاں پر ہزاروں لوگوں نے اس طیارے کو آخری دفعہ زمین پر اترتے دیکھا۔
 
پہلی پرواز بحرِ اوقیانوس پر آواز کی رفتار سے فضا کو چیرتے ہوئے نیو یارک سے سو اہم اور مشہور شخصیات کو لے کر اتری۔ اس سے ٹھیک پانچ منٹ بعد ایک اور طیارہ ایک مقابلے میں جیتنے والے خوش نصیبوں کو لے کر ایڈنبرا سے لندن پہنچا اور اس کے پانچ منٹ بعد ایک کونکورڈ جہاز خیلج بسکے سے واپس لوٹا۔
 
اور اس کے ایک ماہ بعد آخری بنایا گیا کونکورڈ طیارہ بھی برسٹل میں اپنے گھر وہیں لوٹ آیا جہاں سے اپریل 1969 میں پہلی بار برطانوی کونکورڈ اڑا گیا تھا۔
 
گوین کہتی ہیں کہ 'ہمارا کونکورڈ میں سفر کرنے اور پھر اس کے اختتام کا پورا تجربہ ہمارے ساتھ رہا ہے، یہ ایک سانحہ ہے مگر ہم خوش قسمت تھے کہ ہمیں اس میں سفر کرنے کا موقع ملا۔'
 
اب کونکورڈ طیارے کو برٹش ایئرویز کی طرف سے ایک میوزیم بنا دیا گیا ہے۔
 
یہ وہ سفید ہاتھی تھا جو ایک سفید راج ہنس بنا، لیکن بس اپنے وقت سے کچھ آگے تھا۔
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: