زیب داستاں
ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر
کاووڈ 19 یا عرف عام میں "کرونا " نے ملک کے مختلف شعبوں پر کیا اثرات مرتب
کئے ہیں، اس کا مکمل اور جامع اعداد و شمار کے ساتھ کبھی بھی جائزہ نہیں
لیا جا سکا۔ ہمیں تو یہ بھی مکمل اندازہ نہیں کہ کتنے لوگ اس موذی مرض میں
مبتلا ہوئے، کتنے اس دنیا سے گزر گئے اور کتنے صحت یاب ہوئے۔ دنیا سے گزر
جانے والوں میں سے کتنے کس عمر کے تھے۔ اس وبا نے قومی زندگی کے کن کن
شعبوں کو کس حد تک متاثر کیا؟ بے روزگاری کتنی بڑھی؟ لوگوں کی سوچ اور
طرزعمل میں کیا تبدیلیاں آئیں؟ گھریلو زندگیاں کس طرح متاثر ہوئیں؟ معیشت
پر کتنے مہلک اثرات پڑے۔ اب غیر ملکی ماہرین بتا رہے ہیں کرونا سے صحت یاب
ہو جانے والے افراد زندگی بھر کے لئے کیسے مسائل سے دوچار ہو سکتے ہیں۔
ہمارے ہاں کسی کو اس کی فکر نہیں۔ شاید ہی ملک میں مکمل ریکارڈ دستیاب ہو
کہ کتنے لوگ ایسے ہیں جو بظاہر صحت یاب ہو کر گھروں کو جا چکے ہیں لیکن وہ
مختلف بیماریوں کے نشانے پر ہیں۔
میرا تعلق شعبہ تعلیم و تدریس سے ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اس وبا نے سب
سے مضر اور شاید ناقابل تلافی حد تک نقصان شعبہ تعلیم کو پہنچایا ہے۔ تعلیم
کوئی فیکٹری نہیں کہ عارضی طور پر بند ہو گئی اور پھر کچھ عرصے بعد چل پڑے
گی۔ یہ کوئی فضائی کمپنی بھی نہیں کہ بھاری نقصان تو اٹھا ئے گی لیکن حالات
بہتر ہوتے ہی چل پڑے گی اور پھر کرایوں میں بھاری اضافہ کر کے اپنا نقصان
پورا کر لے گی۔ تعلیم کوئی ریستوران بھی نہیں کہ کاووڈ کی پابندیوں کے باعث
بند ہوا اور کچھ عرصے بعد کھل گیا۔ تعلیم کا تعلق طلبہ و طالبات سے ہے۔
چاہے وہ پرائمری سکول میں ہیں یا یونیورسٹیوں میں یا پیشہ وارانہ کالجوں
میں۔ یہ ہمارا مستقبل ہیں۔ ان کی حیثیت وقتی طور پر کام سے محروم ہو جانے
والے مزدوروں ، کارکنوں یا محنت کشوں کی نہیں۔ جو بلاشبہ شدید مالی مشکلات
اور مسائل کا شکار ہوں گے لیکن حالات معمول پر آتے ہی انہیں محنت مزدوری مل
جائے۔ سکول ، کالج اور یونیورسٹیاں طویل عرصے تک بند رہنے سے صرف یہ نہیں
ہوا کہ طلبہ رسمی تعلیم سے محروم ہو گئے، ان کا تعلیمی تسلسل ٹوٹ گیا یا وہ
تعلیمی ماحول سے خارج ہو گئے اور ان کی دلچسپیاں تبدیل ہو گئیں، بلکہ ان کی
علمی استعداد اور اہلیت پر بھی بہت منفی اثرات مرتب ہوئے۔ کہنے کو "آن لائن
" کلاسز کا ایک نیا تجربہ شروع ہو گیا لیکن یہ اپنے آپ کو فریب دینے سے
زیادہ کچھ نہ تھا۔ نہ اساتذہ کو اس کا کچھ علم تھا نہ طلبہ کو۔ لاکھوں کے
پاس ٹیکنیکل سہولت بھی نہ تھی۔ یہ تجربہ بھی اعلیٰ تعلیم کی حد تک شاید
جزوی طور پر موثر رہا ہو لیکن دیہات اور دور دراز کے علاقوں میں زیر تعلیم
کروڑوں بچے اس فریب سے بھی استفادہ نہ کر سکے۔سو یوں کہنا چاہیے کہ تعلیمی
اداروں کی بندش نے تعلیمی عمل کو جو نقصان پہنچایا، اس کی تلافی مشکل ہی سے
ہو گی۔
اب آئیے ذرا اس افسوسناک بلکہ مضحکہ خیز پہلو کی طرف جو مختلف امتحانی
بورڈز کی طرف سے میٹرک کے امتحانات کے نتائج کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ صرف
لاہور بورڈ آف سیکنڈری اینڈ انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کے نتائج پر ایک نظر ڈالئے۔
بتایا گیا ہے کہ امتحان میں 292836 طلباء و طالبات نے شرکت کی جن میں سے
288617 نے کامیابی حاصل کی۔ یہ شرح 98.56 فی صد بنتی ہے۔ یہ مت سوچیے کہ
باقی ڈیڑھ فیصد ناکام رہے۔ یہ وہ ہیں جنہیں رول نمبر تو جاری ہوئے لیکن وہ
کسی نہ کسی وجہ سے امتحان میں شریک نہیں ہوئے۔ کامیاب ہونے والے طلباء نے
90 فیصد سے زائد نمبر لئے۔ سائنس گروپ میں 206349 طلبہ و طالبات شریک ہوئے
۔204124 نے کامیابی حاصل کی۔ سب کے نمبر 95 فی صد سے زائد ہیں۔ سات سو سے
زائد بچے ایسے ہیں جنہوں نے سو فیصد نمبر لئے یعنی 1100 میں سے 1100 ۔ یہ
پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر کا ریکارڈ ہے۔ بہاولپور بورڈ میں کامیابی کی شرح
99.06 فی صد، گوجرانوالہ میں 99.02 فی صد، ساہیوال میں 99.23 فی صد اور
ڈیرہ غازی خان میں 99.35 فیصد رہی۔ مت سوچئے کہ کوئی فیل بھی ہوا۔ جو امتحا
ن میں بیٹھ گیا وہ پاس ہو گیا اور وہ بھی90 فیصد سے زائد نمبر لے کر۔ فیل
وہ ٹھہرے جو امتحان میں بیٹھے ہی نہیں۔ اب لاہور بورڈ نے اعلان کیا ہے کہ
جو طلبہ کسی وجہ سے امتحان میں نہ بیٹھ کر 90 فیصد نمبروں کے " اعزاز " سے
محروم رہے ا ن کے لئے دسمبر میں ایک خصوصی امتحان کا بندوبست کیا جا رہا ہے
تاکہ وہ بھی شاندار کامیابی حاصل کر سکیں۔ بورڈ نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر
کوئی طالب علم اپنے نمبروں سے مطمین نہیں تو وہ بھی اس امتحان میں بیٹھ کر
گیارہ سو نمبروں کا اعزاز پا سکتا ہے۔
پنجاب کے علاوہ، سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخواہ کا بھی یہی حال ہے جہاں
نمبروں کا سونامی آیا ہوا ہے۔ پورے کے پورے یعنی سو فیصد نمبر پانے والوں
کی مجموعی تعداد ہزاروں میں ہو گی۔ ایک خبر میں تو یہ بھی تھا کہ خیبر
پختونخوا میں کسی بچے نے 1100 میں سے 1150 نمبر حاصل کئے ہیں۔ ان نتائج اور
نمبروں کی بھرمار نے تمام بچوں کو تقریبا ایک ہی سطح پر لا کھڑا کیا ہے۔
کیا محنتی، کیا سست، کیا کام چور، کیا ذہین، کیا کند ذہن، کیا لائق، کیا
نالائق، کیا شہری، کیا دیہاتی، کیا غریب، کیا امیر۔ اس حوالے سے دیکھا جائے
تو حکومت وقت نے شاندار مساوات قائم کر دی ہے۔ لیکن حقیقت اور سنجیدگی سے
دیکھا جائے تو ہم نے ایک پوری نسل کو خجل خوار کر کے رکھ دیا ہے۔ اب کالجوں
میں داخلے ہوتے ہیں۔ کچھ نے پری میڈیکل، کچھ نے پری انجینئرنگ اور کچھ نے
آرٹس کے مضامین میں جانا ہے۔ ماضی میں بچوں کے نمبر تمام مضامین کے تحریری
امتحانات کی بنیاد پر ہوتے تھے۔ شاید ہی کبھی کوئی سو فیصد کے معیار تک
پہنچا ہو۔ اب ایسوں کی تعداد گنتی شمار سے باہر ہے اور90 فیصد سے کم کوئی
شاید ہی ملے۔ ایسے کالجوں کے داخلے بھی معیاری نہیں ہوں گے اور یہ سلسلہ دو
برس بعد، پیشہ وارانہ کالجوں میں داخلے تک جائے گا۔
یقین جانئے! ہم نے بے حکمتی اور بے تدبیری سے اپنی نئی نسل کے تعلیمی
مستقبل کو اتنے شدید اور گہرے دھچکے سے دوچار کر دیا ہے کہ اس کے اثرات آنے
والے کئی سالوں تک محسوس کئے جاتے رہیں گے۔ شاید زندگی کے تمام شعبوں کے
نقصانات کا ازالہ ہو جائے۔ لیکن تعلیمی عمل کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی
کبھی نہ ہو سکے گی۔
|