میرے لاڈلے بیٹے کے بعد ہماری دنیا ہی ختم ہو گئی… قاتلوں کو سزائے موت کا فیصلہ باپ کے دل کو ٹھنڈا کر گیا

image
 
’ان چار بہن بھائیوں میں وہ واحد اولاد تھی۔ میرے اکلوتے، نازوں میں پلے، انتہائی لاڈلے بیٹے کے قتل کے ساتھ ہی ہمارا پورا خاندان ختم ہو گیا ہے، ہماری دنیا ہی ختم ہو گئی ہے۔ تین برس بعد جب عدالت میں بیٹھ کر مجرموں کی سزائے موت کا فیصلہ سنا تو جیسے دل میں ٹھنڈ پڑ گئی ہو۔‘
 
یہ الفاظ ہیں کراچی کے رہائشی اشتیاق احمد کے جن کے 19 سالہ بیٹے انتظار احمد کے قتل کے جرم میں پیر کو کراچی کی انسداد دہشتگردی کی عدالت نے اینٹی کار لفٹنگ سیل کے سابق ایس ایس پی مقدس حیدر کے دو محافظوں کو سزائے موت دینے کا حکم دیا ہے۔
 
انتظار احمد 13 جنوری 2018 کو کراچی کے علاقے ڈی ایچ اے میں ایک جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیے گئے تھے۔
 
سزائے موت پانے والے کانسٹیبل بلال رشید اور محمد دانیال پر الزام تھا کہ انھوں نے ایک منصوبہ بندی کے تحت انتظار احمد کو اس وقت ہلاک کیا جب وہ اپنی دوست کے ساتھ موقع پر موجود تھا۔
 
’جس مقدمے میں پولیس ملزم ہو، اس میں پولیس سے تفتیش نہ کرائیں‘
اشتیاق احمد نے انصاف کے حصول کے لیے تین برس سے زیادہ کی ’جنگ‘ کی تفصیلات بتاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس عرصے میں پولیس نے انھیں دوران تفتیش بہت تنگ کیا اور ہر ممکن کوشش کی ہے کہ یہ مقدمہ کمزور پڑ جائے۔
 
image
 
ان کا کہنا تھا کہ ’میں صرف یہ کہوں گا کہ جہاں پولیس ملزم ہو، وہاں پولیس سے تفتیش نہ کرائیں۔‘
 
اشتیاق احمد کے مطابق انتظار کو جس جگہ قتل کیا گیا اگر اس دکان پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب نہ ہوتے اور اس واقعے کی ویڈیو دستیاب نہ ہوتی تو پولیس سے انھیں انصاف کی کوئی توقع نہیں تھی۔ ’میں عدالت کا شکر گزار ہوں کہ اس مقدمے میں انصاف کو یقینی بنایا۔‘
 
’جرم ثابت ہوا‘
کانسٹیبل غلام حسین کے علاوہ فیصلہ سنانے کے وقت تمام ملزمان کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ غلام حسین ضمانت پر پہلے ہی رہا ہو چکے تھے۔ عدالت نے قرار دیا کہ استغاثہ ملزم بلال اور دانیال کے خلاف جرم ثابت کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
 
عدالت کے مطابق اس جرم میں انھوں نے سرکاری اسلحہ استعمال کیا۔ عدالتی حکم میں ملزمان پر ڈھائی ڈھائی لاکھ رپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے بصورت دیگر انھیں تین ماہ کی مزید جیل بھگتنی ہو گی۔
 
عدالت نے تین انسپکٹرز کو عمر قید کی سزائی سنائی جن میں اس وقت کے ایس ایچ او طارق محمود، طارق رحیم اور اظہار احسان شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دو کانسٹیبل غلام عباس اور فواد خان کو معاونت اور مدد فراہم کرنے کے الزام میں تین، تین لاکھ رپے جرمانے اور عدم ادائیگی پر مزید ایک سال قید کی سزا سنائی ہے۔
 
’انتظار چھٹیاں منانے پاکستان آیا ہوا تھا‘
اشتیاق احمد کے مطابق 19 برس کا انتظار ملائیشیا میں زیر تعلیم تھا اور چھٹیوں پر پاکستان آیا ہوا تھا۔ وہ 13 جنوری 2018 کو اپنی دوست مدیحہ کیانی کے ہمراہ سفر کر رہا تھا، جب سادے کپڑوں میں پولیس اہلکاروں نے اس کا تعاقب کیا اور ڈیفنس کے علاقے میں گولی مارکر ہلاک کردیا اور قرار دیا کہ اس نے گاڑی نہیں روکی تھی۔
 
اس فیصلے کے بعد اشتیاق احمد نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ مکمل انصاف تب ہو گا جب ملزمان کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایا جائے گا۔
 
یاد رہے کہ مدیحہ کیانی رکشہ میں سوار ہوکر فرار ہو گئی تھیں بعد میں ان کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں انھوں نے رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تحفظ کی اپیل کی تھی۔
 
اشتیاق احمد کے مطابق پولیس نے مدیحہ کیانی سے متعلق تفتیش آگے نہیں بڑھائی اور اسے محض ایک عینی شاہد قرار دیا۔
 
’میرا مشن تھا کہ جن پولیس والوں نے میرے بیٹے پر گولیاں چلائیں ہیں وہ ضرور اپنے منطقی انجام کو ضرور پہنچیں۔۔ اب آگے بھی ان مجرموں کا ہر فورم پر تعاقب کرتا رہوں گا۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: