|
|
طلاق یافتہ عورت کو ہمارے معاشرے میں جس نظر سے دیکھا
جاتا ہے اس حوالے سے ہر عورت کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس داغ کو اپنے
ماتھے پر سجانے کے بجائے ہر طرح کا سمجھوتہ کر لے۔ مگر بعض اوقات حالات اس
نہج پر پہنچ جاتے ہیں جہاں بغیر کسی قصور کے بھی طلاق کا لیبل عورت کی
زندگی کو برباد کر دیتا ہے- |
|
ایسی ہی ایک عورت عابدہ بھی تھی جس کی کہانی گزشتہ دنوں
ایس ایچ او صغیر وٹو نے اپنی یاداشتوں کی صورت میں انڈیینڈنٹ اردو میں شئیر
کی۔ ان کا کہنا تھا کہ عابدہ کا تعلق خانیوال سے تھا جس کی پہلی شادی 28
سال کی عمر میں اس کے کزن سے ہوئی تھی مگر پانچ سال تک اولاد نہ ہو سکنے کے
سبب بانجھ کہہ کر اس کے شوہر نے اس کو طلاق دے دی- |
|
طلاق کے بعد وہ خانیوال میں اپنے بھائی کے گھر پر رہنا
شروع کر دیا جہاں ان کے والدین کے انتقال کے بعد گھر پر بھابھی کا راج تھا
جس کی نظر میں طلاق یافتہ عابدہ کانٹے کی طرح کھٹکنے لگی جس وجہ سے نند
بھابھی میں آئے دن جھگڑے رہنے لگے- |
|
|
|
اس وجہ سے بھابھی نے عابدہ کی دوسری شادی کی کوششیں شروع
کر دیں مگر ہر رشتے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ عابدہ کا بانجھ ہونا تھی-
اسی دوران عابدہ کی بھابھی نے عابدہ کے لیے 51 سالہ امجد خان ہرل کے رشتے
کو قبول کر لیا- |
|
جس کی پہلی بیوی کا پانچ سال قبل انتقال ہو چکا تھا اس
سے امجد کے تین بچے تھے جن میں سے بیٹی کی شادی ہو چکی تھی چھوٹا بیٹا
آٹھویں کلاس میں بورڈنگ میں رہتا تھا جب کہ بڑا بیٹا ارشد ہرل جس کی عمر 23
سال تھی ایک ناکارہ اور آوارہ نوجوان تھا جو پڑھائی چھوڑ چکا تھا اور صرف
آوارہ گردی کرتا تھا- |
|
عابدہ کو ان کے والد کی آبائی ورثے میں سے شہر میں موجود
دو دکانیں بھی ملی تھیں جن کا کرایہ اس کی گزر بسر کے لیے کافی تھا مگر
بھابھی نے عابدہ سے چپقلش کے سبب اس کی شادی کو ایک بہترین حل سمجھتے ہوئے
اس کو بوجھ کی طرح سر سے اتار دیا- |
|
اس شادی کے بعد شروع کے دو سال اچھے گزرے مگر وقت کے
ساتھ ان دونوں میاں بیوی کے درمیان لڑائی جھگڑے شروع ہو گئے جس کا سب سے
بڑا سبب امجد کا بڑا بیٹا ارشد ہوتا جو کہ مار پیٹ کر کے عابدہ سے اس کی
دکانوں کا آنے والا کرایہ چھین لیتا تھا اور جب اس کی شکایت عابدہ امجد سے
کرتی تو ان میاں بیوی کے درمیان جھگڑے شروع ہو جاتے- |
|
جس کی وجہ سے یہ دونوں باپ بیٹے عابدہ کو تشدد کا نشانہ
بناتے جس کا اہل محلہ گواہ بھی تھے مگر عابدہ ایک بار طلاق کا داغ ماتھے پر
لگا چکی تھی اس وجہ سے نہ صرف ہر ظلم برداشت کرتی بلکہ اس کا ذکر اپنے میکے
والوں سے بھی نہ کرتی تھی- |
|
|
|
ایس ایچ او صغیر وٹو کے مطابق ایک دن ان کو اطلاع ملی کہ
ملتان روڈ پر کسی عورت نے خودکشی کر لی ہے یہ خبر سن کر جب وہ وقوعہ پہنچے
تو وہ مرنے والی عورت عابدہ تھی جس کے بارے میں اس کے شوہر کا یہ بتایا تھا
کہ عابدہ عید کی چھٹیوں میں مری سیر و تفریح کے لیے جانا چاہتی تھی مگر جب
انہوں نے اس کو منع کیا تو اس نے دلبرداشتہ ہو کر نیند کی گولیاں کھا کر
خود کشی کر لی- |
|
ایس ایچ او صاحب کا کہنا تھا کہ اس کے بعد سے ان کے پاس
فون آنے شروع ہو گئے کہ فوری طور پر بغیر پوسٹ مارٹم کے لاش لواحقین کے
حوالے کر دی جائے اور اس کیس کو خودکشی کا کیس کہہ کر داخل دفتر کر دیا
جائے- |
|
مگر اسی دوران وقوعہ سے واپسی کے دوران محلے کی ایک عورت
نے اپنی شناخت چھپانے کی شرط پر یہ بات بتائی کہ یہ خودکشی نہیں ہے بلکہ
شہر کی دکانوں کو ہتھیانے کے لیے اس باپ بیٹے سے عابدہ کو قتل کر دیا ہے ۔ |
|
جب پوسٹ مارٹم کیا گیا تو قتل کی وجہ نیند کی گولیوں کے
بجائے سانس گھٹنا بتایا گیا اس حوالے سے مزید باپ بیٹے سے تحقیق کی تو پتہ
چلا کہ بیٹا ارشد عابدہ کی دکانیں اپنے نام کروانا چاہتا تھا اور اس کے منع
کرنے پر باپ کے سامنے اس نے عابدہ کا گلا دبا کر اس کو ہلاک کر دیا- |
|
عابدہ کے مرنے کے بعد باپ بیٹے نے اس قتل کو خودکشی کا
رنگ دینے کی کوشش کی مگر ناکام رہے آج دونوں باپ بیٹے کے خلاف کیس چل رہا
ہے اسی وجہ سے لوگ درست ہی کہتے ہیں کہ مری ہوئی بیٹی سے طلاق یافتہ بیٹی
بہتر ہوتی ہے عابدہ کی یہ سچی کہانی اس کا ثبوت ہے- |
|