|
|
عام طور پر ہمیں اپنے اردگرد یہی نظر آتا ہے کہ جیسے ہی
کسی کام سے باہر نکلیں تو مختلف بھیک مانگنے والے افراد مانگنے کے لیے ہاتھ
پھیلائے آجاتے ہیں جن میں سے اگر کوئی کسی جسمانی کمزوری میں مبتلا ہوتا ہے
تو اس کا بھیک مانگنے کا انداز ایسا ہوتا ہے جیسے کہ وہ کوئی حق مانگ رہا
ہے- ویسے تو ایسے افراد کی مدد کرنا ہم سب کا معاشرتی اور دینی ذمہ داری ہے
لیکن اگر اپنی معذوری کے باوجود ہاتھ پھیلانے کے بجائے اپنے طور پر کوئی
کام کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ایسی مثالیں نہ صرف سراہے جانے کے قابل ہیں
بلکہ ایسی مثالوں کو معاشرے میں پھیلا کر ان لوگوں کی ہمت شکنی کی جا سکتی
ہے جنہوں نے بھیک مانگنے کو بطور پیشہ اختیار کر رکھا ہے- |
|
بصارت سے محروم سبزی
فروش |
ایبٹ آباد کے محمد بشیر اپنی بینائی سے محرومی کے باوجود
سبزی کا اسٹال لگا کر سبزی فروخت کرتے ہیں انہوں نے اپنے اسٹال پر لکھ کر
لگایا ہوا ہے کہ میں نابینا ہوں مجھ سے سبزی خرید کر میری مدد کریں- ان کے
اسٹال پر آنے والے افراد خود ہی سبزی تول کر لیتے ہیں اور ان کو اس کے پیسے
تھما دیتے ہیں- ان کا یہ کہنا ہے کہ کچھ افراد ان کو اضافی پیسے بھی دے
دیتے ہیں جس سے ان کی مدد ہو جاتی ہے ہر روز ان کے کچھ دوست ان کو منڈی سے
سبزی لا کر دے دیتے ہیں جس کو فروخت کر کے وہ اپنے گھر کا خرچہ بھی چلاتے
ہیں اور دوستوں کو سبزی کے پیسے بھی ادا کر دیتے ہیں- ان کا کہنا ہے کہ وہ
پیدائشی نابینا نہیں ہیں پہلے وہ گاڑیوں کا کام کرتے تھے مگر اچانک آنکھوں
میں تکلیف کے بعد ان کی بینائی زائل ہو گئی چار سال تک گھر میں بے روزگار
بیٹھے رہنے کے بعد کچھ مخیر افراد کی مدد سے انہوں نے یہ اسٹال لگا لیا اور
گھر والوں کی دال روٹی کا بندوبست کرنے کے قابل ہوئے- ان کے چار بچے ہیں جن
میں دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں جو سب زیر تعلیم ہیں ان کے تین بچے حافظ
قراں بھی ہیں محمد بشیر جیسے لوگ سب کے لیے ایک مثال ہیں- |
|
|
ایک بہادر انسان جس نے
نابینا افراد کو روزگار کے قابل بنایا |
ایسے ہی ایک بہادر انسان ریاض حسین بھی ہیں جو کہ صوبہ
سندھ کے علاقے لاڑکانہ سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ خود تو نابینا نہیں ہیں مگر
اللہ نے ان کے دل میں نابینا افراد کے لیۓ خصوصی محبت اور انسیت پیدا کی ہے-
ان کا یہ کہنا ہے کہ انہوں نے کچھ عرصے قبل نابینا افراد کی مدد کے لیے
اپنے چار دوستوں کی مدد سےاپنی مدد آپ کے تحت ایک لٹریسی سینٹر کا قیام کیا
جہاں نابینا افراد کو بریل کے ساتھ ساتھ ایسے ہنر بھی سکھائے جاتے ہیں جس
کی مدد سے وہ اپنا روزگار اپنی مدد آپ کے تحت کما سکیں- ریاض حسین کا کہنا
ہے کہ اب تک وہ 60 نابینا افراد کو ٹریننگ دے کر روزگار پر لگوا چکے ہیں
اور لاڑکانہ جیسے پسماندہ شہر میں بھی 20 لڑکیوں کو انٹر تک تعلیم دلوا چکے
ہیں اور ان کے کچھ اسٹوڈنٹ یونی ورسٹی میں بھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں-ریاض
حسین کی یہ ساری کوششیں اپنی مدد آپ کے تحت جاری ہیں اور ان کو اس حوالے سے
کسی قسم کی سرکاری امداد حاصل نہیں ہے اس حوالے سے یہ ایک مثال ہیں ان سے
دوسرے صحت مند افراد کو بھی یہ سبق ملتا ہے کہ صرف بھکاریوں کو برا کہنے کے
بجائے ان کے لیۓ کچھ کیا بھی جا سکتا ہے- |
|
|
بصارت سے محرومی کے
باوجود موٹر سائیکل چلانے والا ڈرائيور |
صوبہ سندھ کے ضلع قمبر شہداد کوٹ کے 58 سالہ اسماعیل
میہر اس حوالےسے ایک منفرد انسان ہیں کہ وہ نابینا ہونے کے باوجود گزشتہ 36
سالوں سےعام انسانوں کی طرح موٹر سائیکل چلا رہے ہیں- پانچ سال کی عمر میں
بینائی سے محروم ہونے کے باوجود انہوں نے نہ صرف موٹر سائیکل چلانا سیکھا
بلکہ اب تک سندھ کے کئی شہروں کی سیر اسی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر کر چکے
ہیں بغیر دیکھے موٹر سائیکل چلانے کے حوالے سے ان کا یہ کہنا ہے کہ ان کی
آنکھیں ایک چھوٹے بچے کی صورت میں ان کے ساتھ موٹر سائیکل پر ہوتا ہے- جو
ان کو راستہ بتاتا رہتا ہے اور وہ اس کی ہدایات کے مطابق موٹر سائيکل چلاتے
رہتے ہیں جو ان کو دائیں بائیں کے بارے میں بتاتا رہتا ہے مگر موٹر سائيکل
کا پورا کنٹرول ان ہی کے ہاتھ میں ہوتا ہے-اسماعیل میہڑ کو اگرچہ لائسنس تو
نہیں مل سکتا ہے مگر اس کے باوجود ان کا یہ عمل اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر
ہمت ہو تو انسان ناممکن کو بھی ممکن کر سکتا ہے- |
|