ٹیپو سلطان کے بنائے ہوئے راکٹ انگریز پر قہر بن کر گرے… ٹیپو سلطان ؒ کے بحیثیت جنرل عظیم کارنامے

image
 
سلطان حیدر علیؒ کی وفات کے بعد ان کے لائق فائق بیٹے ٹیپو سلطان تخت نشین ہوئے، انگریز جہاں اپنی مکارانہ چال بازیوں سے خطے پر اپنی گرفت مضبوط کرنے میں لگا ہوا تھا، ٹیپو سلطان جانتے کے فرانسیسیوں کی مدد سے وہ با آسانی انگریزوں کو خطے سے نکال باہر کریں گے-
 
امریکہ کی جنگ آزادی میں شکست کھانے کے بعد لارڈ کارنیوالس کو ہندوستان بھیجا گیا، یہاں اس نے انگریز فوج اور غدار مہروں کو ساتھ لے کر بازی از سر نوترتیب دی، معاہدہ مینگلور (بعد میں بینگور، اور بینگلوروو)کی خلاف ورضی کرتے ہوئے اتحادیوں کی نئی فہرست تیار کرائی، جس میں جان بوجھ کر ٹیپو سلطان کا نام شامل نہیں کیا گیا، یہ معاملہ میسور کی تیسری لڑائی کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔
 
میسور کی تیسری جنگ 1790
اس جنگ میں ایک جانب ٹیپو سلطان تھا دوسری جانب انگریز، نظام اور مرہٹے، ابتداء میں اس جنگ میں ٹیپو سلطان کا پلڑا خاصہ بھاری رہا، اور لارڈ کارنیوالس کو پسپائی اختیار کرنا پڑی، لیکن جیسے ہی مرہٹوں کی امداد کارنیووالس کو میسر آئی، جنگ کا پانسہ پلٹ گیا، ٹیپو کو مجبوراً صلح کرنا پڑی۔
 
ٹیپو سلطان کی سفارتکاری
ٹیپو سلطان جانتا تھا کہ انگریزوں کو جنگ میں حتمی طور پر شکست دیے بغیر ہندوستان کی آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا- تیسری جنگ میسور کے بعد ٹیپو سلطان نے اپنی سفارتکاری کی مہم تیز تر کردی- (بحوالہ کتاب بے مثال حکمران ٹیپوسلطان،صفحہ51 پروفیسر نگار سجاد ظہیر) ٹیپو سلطان نے شاہ افغانستان سے تعلقات قائم کرلئے تھے، اور شاہ افغانستان شاہ زمان 1795 بمہ فوج میں لاہور تک آیا بھی تھا قیاس کیا جاتا ہے-
 
ہندوستان میں داخل ہونے کی وجہ انگریزوں پر دباؤ ڈالنا تھا مگر اس کے پیچھے اس کے بھائی شاہ محمود نے بغاوت کردی، اور شاہ افغانستان کو واپس لوٹنا پڑا- انگریزوں کو ویسے بھی نظام اور مرہٹوں کی امداد حاصل تھی،ٹیپو سلطان نے میسور کی تیسری لڑائی سے قبل ہی ترکی میں موجود خلافت عثمانیہ سے بھی روابط قائم کیے- براطانوی مصنف جان کی( John Keay )کی کتاب میں ٹیپو سلطان ؒ کی جانب سے بھیجی جانے والی مختلف سفارتی مہمات کا ذکر ان کی کتاب India a History کے صفحہ نمبر397 سے 400 کے درمیان ملتا ہے۔
 
 مصنف اس حوالے سے بتاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ مصر آنے والے نیپولین کے ہندوستان کے حوالے سے کیا خیالات تھے اور بحر ہند میں موجود فرانسییی کماندار سے Ile de Bourbon کے ساتھ رابطے میں تھے۔
 
پروفیسر نگار سجاد ظہیر کی تحریر میں اس جانب اشارہ ملتا ہے کہ کیوں نپولین یا سلطنت عثمانیہ کی جانب سے بروقت امدداد میسر نہ آسکی، وہ وقت عجیب تھا۔ سلطنت عثمانیہ ایک جانب روس سے بر سر پیکار تھی، سلطنت عثمانیہ کا برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک سے اتحاد کرنا پڑا، شاید وقت ہی موضوع نہیں تھا- 1798 میں مصر پرنپولین کے قبضے کے بعد برطانیہ سے خلافت عثمانیہ کا ساتھ دیا ،مصنف برطانوی جاسوسی تنظیموں کے بارے میں لکھتے ہیں، جاسوسی کا نظام اس قدر اعلیٰ تھا کہ ٹیپو سلطان اور نپولین کے درمیان خطو کتابت کی شریف مکہ کہ وجہ سے تمام تر اطلاعت مل گئیں اور یہ مہم اگر پروان چڑھ جاتی تو شاید خطے کے تاریخ کسی اور انداز میں تحریر کی جاتی۔
 
 ٹیپو سلطان بطور بابائے راکٹ سائنسز
 
image
 
ٹیپو سلطان صرف فرانسیسیسی یا دوسری بیرونی قوت کے انتظار میں نہیں بیٹھا تھا، اس نے ایک جانب اپنی ایجاد میسورین راکٹ کو خوب سے خوب بنانے کی کوشش کی، جس کی حد ضرب اس زمانے میں دو میل بتائی جاتی ہے- دوسری اور تیسری میسور کی جنگوں میں جہاں حیدر علی کی جنگی چالوں نے انگریزوں کو پریشان رکھا، ٹیپو کے بنائے ہوئے راکٹ انگریز اور ان کے اتحادیوں پر قہر بن کر گرے۔
 
 میسور کی چوتھی جنگ
 1799 میں لارڈ ویزلی (Marquess Wellesley) گورنرجنرل مقرر ہوئے، تاریخ بتاتی ہے ٹیپو کے فرانسیسیوں سے بہتر تعلقات پر انگریزوں کے کیمپ میں خاصی پریشانی تھی- ادھر ٹیپو بھی پر عزم تھے کے انگریزوں سے آخری معرکہ ہو کر رہے گا۔ لارڈ ویزیلی فرانسیسیوں کے ساتھ ٹیپو کی قربت پر خاصہ آگ بگولہ ہوا ، اور دو اطراف سے میسور کی جانب فوجیں روانہ کی ایک فوج کرناٹک کے راستے سے دوسری بمبئی(موجودہ ممبئی) کے راستے-
 
 ستم یہ کہ دکن کے نظام نے بھی انگریزوں کی امداد کے لئے فوج روانہ کی ،جس کی قیادت گورنر جنرل ویزلی کے بھائی آرتھر ویزلی کر رہے تھے جو بعد میں ڈیوک آف ویلنگٹن کے لقب سے مشہور ہوئے ، سرنگا پٹم کا گھیراؤں کرلیا گیا-
 
image
 
 اس آخری معرکے کے حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے ہندوستانی نامہ نگار ریحان فضل نے کافی تفصیلی رپورٹ بنائی جو قارئین کے لئے ایک اہم حوالہ ثابت ہو گی- ٹیپو سلطان اس جنگ میں شہید ہوگئے، تاریخ کے مختلف کتابوں میں لکھا ہے ، انگریز بھی ٹیپو سلطان کی بہادری کے قائل تھے اور ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد ان گارڈ آف آنر کی رسم بھی ادا کی گئی، بہرحال جنگ کے نتیجے میں میسور کی ریاست کے حصے بخرے کردیے گئے، ایک بڑا حصہ انگریزوں نے قبضے میں لے لیا- ایک حصہ نظام کے حوالے کردیا گیا، اور ایک چھوٹی سی ریاست میسور انگریزوں کی سرپرستی میں قائم کر دی گئی جس پر سابقہ حکمران خاندان کا ایک لڑکا حکمران بنا دیا گیا، جو انگریزوں کی زیر سرپرستی حکومت کرنے لگا۔
YOU MAY ALSO LIKE: