بالو شاہی اور شاہی چکیوں کا قصبہ
بعض قصبے اور شہر کی منفرد اشیاء ان کی شناخت بن جاتی ہیں ۔ کراچی کے مشرق
میں تقریباً 99 اور ٹھٹھہ سے 21 کلومیٹر کے فاصلے پر جنگ شاہی کا قصبہ ہےجس
کی وجہ شہرت اس کی رسیلی ’’بالو شاہی ‘‘ہے، جو منہ میں رکھتے ہی گھل جاتی
ہے اور زبان پر اس کی شیرینی کافی دیر تک برقرار رہتی ہے۔
جنگ شاہی کے علاقےمیں سندھی زبان بولنے والےگائوں اور قصبات آباد ہیں ۔ ان
علاقوں میں جوکھیو، پلیجو، بروہی اور دیگر سندھی قبائل کے افراد و برادریاں
رہائش پذیر ہیں۔ جنگ شاہی کے قصبے کا سلسلہ تاریخی روایات کے مطابق مکلی کے
قدیم آثار سے ملتا ہے۔یہاں کراچی کے چوکنڈی طرز کی قبروں پر مشتمل ایک بڑا
قبرستان واقع ہے اس قبرستان میں پیر جنگ شاہ نامی بزرگ کا عظیم الشان مقبرہ
بنا ہوا ہے۔ ’’جنگ شاہی‘‘ کا نام انہی بزرگ سے موسوم ہے۔ بالو شاہی کے
علاوہ یہاں کا ریلوے اسٹیشن ، آٹا پیسنے کی شاہی چکی کی وجہ سے بھی مشہو
رہے۔ خوش ذائقہ بالو شاہی تو اب بھی اس علاقے کی پہچان ہےلیکن ریلوے اسٹیشن
ویران ہوچکا ہے۔
جنگ شاہی تک باقاعدہ کوئی سڑک یاپختہ راستہ نہیں ہے۔ کسی زمانے میں یہاں
ٹرینوں کا اسٹاپ تھا لیکن یہاں کے باشندوں کو اب یہ سہولت حاصل نہیں ہے۔
قصبے کے مقامی لوگوں کے مطابق چند عشرے قبل تک ریلوے اسٹیشن انتہائی مصروف
تھالیکن ٹرینوں کا اسٹاپ ختم ہونے کی وجہ سے اب یہاں ویرانی نے ڈیرے ڈالے
ہوئے ہیں۔یہاں کی ’’شاہی چکی ‘‘ کسی دور میں ملک بھر میں مشہور تھی۔ یہاں
اس کے بنانے والے کاریگروں کی کثیر تعداد آباد تھی لیکن برقی چکیوں اور
گرینڈر کے فروغ کے بعد ہاتھ سے آٹا یا مسالے پیسنےکا رواج ختم ہوگیا ہے،
جس کی وجہ سے چکیاں بھی عدم توجہی کا شکار ہوگئیں۔ کاریگروں کی تعداد بھی
بہت کم رہ گئی ہے۔ اسٹیشن سے تھوڑے فاصلے پر چند چھپروں پر مشتمل سائبان
تلے چکیاںاب بھی بنائی جاتی ہیں۔
اس وقت یہاں چکی بنانے والے صرف دس کاریگر رہ گئے ہیں۔ انہیں اس پر مشقت
کام سے تین ، چار ہزار کی ماہانہ آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ معاشی پریشانی کی
وجہ سے وہ اپنے روایتی پیشہ ترک کرکے دوسرے شعبوں کا رخ کررہے ہیں جس کی
وجہ سے شاہی چکی بنانے کا کام بالکل ختم ہوجائے گا۔
|