سندھ کی علاقائی زبانیں اور لہجے

سندھ کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے جب کہ اس کی علاقائی زبانیں بھی انتہائی قدیم ہیں۔ صحرائے تھر کی علاقائی زبانوں میں پانچ ہزار سال قبل بولی جانے والی سندھی اور دراوڑی زبانوں کے الفاظ موجودہیں۔تھر پارکرکا خطہ سات حصوں ڈاٹ، ونگو، کنٹھو، کھاہوڑ، پارکر، سامروٹی اور وٹپر مشتمل ہے۔ماہرین لسانیات کے مطابق ان حصوں میں سے ہرعلاقے کی اپنی الگ زبان ہے، مگریہاں تین مقامی زبانیں زیادہ مقبول ہیں جن میں سندھی تھری، پارکری اور ڈھاٹکی، شامل ہیں ۔سندھ کے خطے میں بولی جانے والی زبانوں کا مختصراً تعارف پیش کرتے ہیں۔

ڈھاٹکی
سب سے پہلے ہم ڈھاٹکی کے بارے میں بتائیں گے۔سندھ کی کلاسیکل اور جدید شاعری میں اس زبان کازیاد ہ استعمال ہوا ہے۔صوفی شاعر شاہ عبدللطیف بھٹائی سے لے کر سچل سرمست، نبی بخش قاسم اور شیخ ایاز جیسےشعرا ئے کرام نے اپنی شاعری میں اس زبان کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔سندھی ادیب ڈاکٹر عبدالجبار جونیجونے اپنی کتاب’’ تھر جی بولی‘‘ میں لکھا ہے کہ’’ ڈھاٹکی کی اپنی ایک جداگانہ شناخت ہے۔بعض ماہرین کے مطابق ، ڈھاٹکی تھر کی اہم زبان ہے، جس کو ’’سوڈکی ‘‘بھی کہتے ہیں۔یہ تھرپارکر کے 54 فیصد لوگوں کی مادری زبان ہےجب کہ ، 97 فیصد آبادی ڈھاٹکی زبان بول اور سمجھ سکتی ۔ضلع عمرکوٹ میں 40 فیصد لوگوں کی مادری زبان ڈھاٹکی ہے، 60 فیصد سے زیادہ آبادی کی یہ ثانوی زبان ہے۔ کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص، ٹنڈوالہٰیار، سانگھڑ، بدین اورٹھٹھہ میں ڈھاٹکی بولنے والوں کی کافی تعداد موجود ہے۔معروف سندھی محقق ، ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ نے اپنے کتاب ’’سندھی بولی ادب جی مختصر تاریخ‘‘ میں لکھا ہے کہ ڈھاٹکی کا بنیادی مخزن سندھی زبان ہے۔ تھر کا لوک ادب ثقافتی رنگ کے ساتھ اپنے اصلی روپ میں موجود ہے۔ تھری لوک ادب کی کہانیوں اور شعر و شاعری میں پریوں سمیت دیگر ماورائی مخلوق کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ ڈھاٹکی کی موسیقی بڑی درد بھری ہےاور لوک گیتوں میںاس زبان کی سادگی کا حسین رنگ جھلکتاہے۔ لوک گیت کسی ایک شاعر کی تخلیق نہیں بلکہ صدیوں کا ورثہ ہیں۔چارن، بھاٹ، بھان اور منگنھار قبیلوں کا ڈھاٹکی لوک ادب میں بڑا کردار ہے۔ یہ زبان پہلے دیوناگری اور اب سندھی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ اس رسم الخط میں محدود پیمانے پر تحریریں اور گیت موجود ہیں۔

گجراتی
گجراتی زبان کی جنم بھومی بھارت ی کجرات ہے۔پاکستان میں اس زبان کے بولنے والوں کی تعدادتقریباً 25 لاکھ افراد پر مشتمل ہے،جب کہ بھارت میںیہ تعداد پانچ کروڑ افراد ہے۔ برصغیر کے دو بڑے رہنماؤں ،قائد اعظم محمد علی جناح اورمہاتما گاندھی کی یہ مادری زبان تھی ۔ کراچی میں داؤدی بوہرہ، اسماعیلی خوجہ، میمن، کاٹھیاواڑی اور پارسیوں کی بھی یہ مادری زبان ہے۔ اس کا اپنا رسم الخط ہے اورپاک و ہند سے تعلق رکھنے والے ادیبوں کی کجراتی زبان میں لکھی ہوئی کتابیں لائبریریوں میںموجود ہیں۔چند عشرے قبل تک کراچی سے ملت اور ڈان کجراتی نامی اخبار نکلتے تھے جو اب بند ہو چکے ہیں۔ گجراتی زبان سننے کے بعدایسا محسوس ہوتا ہے کہ مخاطب ٹوٹی پھوٹی سندھی میں بات کر رہا ہے۔ گجرات اور ممبئی سے میمن، اسماعیلی اور بوہریپاکستان بننے کے بعد کراچی ، حیدرآباد اور سندھ کے دیگر شہروں میں آباد ہوگئے تھے۔ راجستھان میں لاکھوں کی تعداد میں سندھی راجپوت موجود ہیں، جن کی مادری زبان گجراتی ہے۔ اسماعیلی خوجے بھی گجراتی بولتے ہیں لیکن ان کا لہجہ ’’خوجکی ‘‘ہے۔ خوجکی میں اسماعیلی شاعروں نے مذہبی گیت’’ گنان‘‘ لکھے جو آج کل پوری دنیا میں ان کی عبادت گاہوں میں پڑھے جاتے ہیں۔

راجستھانی
یہ بھارتی ریاست راجستھان کی مادری زبان ہے، تاہم پاکستانی صوبہ سندھ کے بھارتی سرحد سے ملحقہ علاقوں، خاص طور پر تھرپارکر میں بھی اس کے بولنے والوں کی خاصی تعداد آباد ہے۔سندھ کے علاوہ اس کے بولنےوالے پنجاب کےبعض علاقوں میں بھی موجود ہیں۔بھارت میں راجستھانی زبان دیوناگری رسم الخط میں لکھی جاتی ہے تاہم پاکستانی علاقوں میں اسے سندھی رسم الخط رائج ہے۔ یہ ہندوستان کی بڑی زبانوں میں شمار ہوتی ہے لیکن پاکستان میںاس کا رتبہ اقلیتی زبان کے طور پر ہے۔

مارواڑی
تھرپارکر میں ڈھاٹکی کے ساتھ مارواڑی زبان بولنے والوںکی بھی کثیر آباد ی ہے جن کی تعداد دو لاکھ 20 ہزارنفوس پر مشتمل ہے۔یہ زبان بھارت میں بھی بولی جاتی ہےاور وہاں کے کاروباری طبقے کی مقبول زبان ہے، جس کی وجہ سے یہ ترقی یافتہ زبانوں میں شمار ہوتی ہے لیکن سندھ میں زیادہ ترگاؤں گوٹھوں کے افراد یہ زبان بولتے ہیں۔

کچھی لہجہ
کراچی میںکچھی قوم کی کثیر تعدادآباد ہے جن کی شباہت اور لہجہ سندھیوں سے مشاہبت رکھتا ہے۔ ان کا سابقہ وطن رن کچھ کا علاقہ ہے۔ یہ کچھی زبان بولتے ہیں جو سندھی سے ملتی جلتی ہے۔

سواحلی کچھی لہجہ
ه یہ لہجہ سند ھ کے علاوہ افریقہ کے ممالک میں مستعمل ہے جو افریقہ کی سواحلی اور سندھی زبان کا مرکب ہے۔لسانی ماہرین کے مطابق 18ویںصدی میں سند ھ سے کچھی قوم کے افراد ہجرت کرکے افریقی ممالک میں آباد ہوگئے ، جہاں سواحلی زبان بولی جاتی ہے۔وہاںانہوں نے اپنی زبان میں گفتگو کرتے ہوئے سواحلی لب و لہجہ اپنا لیا اورکچھی زبان میںسواحلی زبان کے الفاظ بھی شامل ہوتے گئے۔ آج صرف تنزانیہ اور کینیا میںسواحلی اور کچھی زبان کا مرکب بولنے والوں کی اکثریت ہے صرف کینیا مذکورہ زبان بولنہ والوں کی تعداد 55000 کے قریب ہے۔


 

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 208 Articles with 192850 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.