مٹکا رقص

سندھی ثقافت کا اچھوتا رنگ جو بیرون ملک بھی پسند کیا جاتا ہے

سندھ امن و آشتی کی سرزمین ہے، اس کی تہذیب و ثقافت میں محبت و پیارکے رنگ نمایاں نظر آتے ہیں۔ سندھ کے باسیوں کے دلی جذبات کا اظہار ان کے شعر و ادب، لوک کہانیوں،موسیقی اور رقص و سرود کی محافل سے ہوتا ہے۔ سندھی موسیقی میں تو روحانیت چھلکتی ہے جب کہ رقص میں صوفیانہ رنگ نظر آتا ہے۔ ذیل کی سطور میں ہم سندھ کے انوکھے ’’مٹکا رقص کے بارے میں احوال نذر قارئین کررہے ہیں۔
مٹکا رقص کو سندھی زبان میں’’گھڑا یا گھڑو رقص‘‘ بھی کہتے ہیں، دنیا بھر کے لیے ایک انوکھے فن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس رقص کے مظاہرے، گاؤں ، دیہات کے علاوہ شہر کے گلی کوچوں میں بھی انتہائی ذوق و شوق سے دیکھے جاتے ہیں۔اس میں رقاص سر پر کئی فٹ لمبی لوہے کی راڈ پر مٹکا رکھ کر رقص کرتا ہے۔ اس میں رقاص کی مہارت اور توازن کابڑادخلہوتا ہے۔مٹکا رقص کے دوران، رقاص کے سر پر ساڑھے چار فٹ لمبی لوہے کی ایک ’’راڈ‘‘ ہوتی ہے ، جس کے دوسرے سرے پربنے اسٹینڈ پر پانی سے بھرا ہوا مٹکا ٹکا ہوتا ہے، جس کا وزن لگ بھگ سولہ کلو ہوتا ہے۔ رقاص کے ہاتھ میں’’ چپلیاں‘‘ ہوتی ہیں۔ رقص کے دوران ’’راڈ‘‘ فقط سر پر نہیں رہتی، کبھی فن کار اِسے ہاتھ میں پکڑ لیتا ہے، کبھی دانتوں پر ٹکا لیتا ہےجس کی وجہ سے اکثر منہ اور جبڑے زخمی بھی ہوجاتے ہیں۔ہاتھوں سے مٹی کے گھڑے کو لوہے کے بنے ہوئے اسٹینڈ پر رکھنا اور اس کو منہ سے پکڑ کر ہوا میں بلند رکھ کر رقص پیش کرنا، کوئی عام فن نہیں۔ عام آدمی کو یہ سب کمال اور عجوبہ لگتاہے۔مٹکایا گھڑا ڈانس سندھ کی ثقافت کا اہمحصہ ہے جسے اندرون ِسندھ کے یہ لوک فنکار پیش کرکے اس روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔مٹکا رقص کا شمار سندھ کے قدیم رقص میں ہوتا ہےلیکن ٹی وی چینلز کی بھرمار کی وجہ سے اس کی مقبولیت میں بھی کمی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے اس کے فن کار وں نے پیٹ پالنے کے لیے دوسرے پیشے اپنا لیے ہیں اور اب اس لوک رقص سے وابستہ صرف چند رقاص باقی رہ گئے ہیں۔اس کے فن کار شہر کی گلیوں میں سر پر مٹکا رکھ کر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن تمام دن گلیوں گلیوں پھرنے کے بعدیہ گروپ مجموعی طور پرمشکل چند سو روپے ہی کم پاتے ہیں ۔سندھ کے دیہی علاقوں میں اب بھی مٹکا ڈانس، شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کا حصہ ہے۔سائیں داد فقیرکا خاندان صدیوں سے اس فن سے وابستہ ہے ،اور وہ اس فن کو زندہ رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ انہوں نے اسے دنیا بھر میں مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ان کا تعلق خانہ بدوشوں کے جوگی قبیلے سے ہے اور منگہار قوم سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ ضلع ٹھٹھہ کے دورافتادہ علاقےکیٹی بندرکے رہائشی ہیں۔ ان کے والد، محراب فقیر اِس فن میںمہارت رکھتے تھے۔ وہ قیام پاکستان سے قبلنقل مکانی کرکے کراچی آگئے اور لانڈھی میں آباد ہوئے۔ اِس فن پرانہیں خاصی مہارت حاصل تھی۔برطانوی سرکار کے دورمیں سولجر بازار میں ایک میلہ ہوا۔ محراب فقیر مٹکا سر پر رکھے رقص کرنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ ایک انگریز افسر نے انہیںرقص سے روکا اور زمین پر ایک ایک روپے کے سو سکے رکھے۔اس نے انہیں چیلنج دیا کہ مٹکا رقص کرتے ہوئے جتنےسکے اٹھا سکتے ہو، اٹھا لو،تمہارے ہوں گے۔محراب فقیرنے اس کا چیلنج قبول کیا اور رقص کرتے ہوئے تمام سکے اٹھا لیے، جس کے بعد انگریز افسر نے انہیں انعام و اکرام سے بھی نوازا۔ مٹکا تھام کر رقص کرنے کی صلاحیتسائیں داد فقیر کے اندر بچپن سے ہی موجود تھی لیکن بارہ سال کی عمر سے انہوں نے اس کی باقاعدہ تربیت اپنے چچازادبھائی ، محمد خمیسو خان (مرحوم) سے حاصل کی اورکچھ عرصے میں ہی وہ اس میں اتنے ماہر ہوگئے کہ انہوں نے اس فن کو آگے بڑھایا۔خو سائیں داد نہ صرف پاکستان، بلکہ بیرون ملک بھی اپنے منفرد فن کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔چند سال قبل انہوں نے ایک غیرملکی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ،’’ہمارے ملک میں فنکار کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو بیرونی ممالک میں ملتی ہے۔ جب ہم باہر ممالک میں جاتے ہیں تو لوگ ہمیں عزت اور اہمیت دیتے ہیں مگر ہمارےہمارے ہم وطن ، ہمیں فقیر سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے، وہ چند روپے بھیک کی صورت میں دے کر اپنا فرض ادا کردیتے ہیں‘‘۔ سائیں داد فقیر کے مطابق وہ کئی ملکی و بین الاقوامی شخصیات کے سامنے مٹکا رقص کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔ 1981-82میں انہوں نےکراچی کےایک گروپ کے ساتھ جنوبی کوریا کا دورہ کیا جہاں ان کے فن کو بہت پسند کیا گیاوہاں سے وہ جرمنیگئے۔ ’’ہم نے جرمنی کے دو دورے کیے۔ وہ ، چین،بھارت، بلجیم اور دبئی کے دوروں میں بھی مٹکا رقص کا مظاہرہ کرچکے ہیں ۔

1995ء میں لوک ورثہ، اسلام آباد کے وفد کے ساتھ وہ برطانیہ گئے تھے۔ مختلف شہروں میں انہوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔مٹکا ڈانس برطانوی شہریوں کے لیے ایک عجبوبہ تھا اور لوگ انہیں مٹکا سرپر رکھ کر رقص کرتے ہوئے بہت حیرانی سے دیکھ رہے تھے۔ برطانوی شہزادی، آں جہانی لیڈی ڈیانا نے انہیں ستائشی سند کے علاوہ تحفے کے طور پر ایک قلم اور ’’سووینیر‘‘ دیا۔کراچی کے ایک کلب میں بھی وہ اپنےفن کا مظاہرہ کرچکے ہیں جس کے مہمان خصوصی پاکستان کے سابق صدرجنرل پرویز مشرف تھے۔ انہوں نے سائیں داد فقیر کی پرفارمنس سے متاثر ہوکر انہیں پچاس ہزار روپے انعام دیا۔ سائیں داد شہید بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے سامنے بھی مٹکا ڈانس پیش کرچکے ہیں۔سائیں داد کا کہنا ہے کہ ، اِس وقت پاکستان میں، اُن سمیت صرف پانچ مٹکا رقاص ہیں، جنھیں اِس کام کو جاری رکھنے میںمالی مسائل کا سامنا ہے۔ اِس صورت حال پر خاصے آزردہ ہیں۔ ان وجوہات سے یہ قدیم فن آہستہ آہستہ ختم ہوتا جارہا ہے۔لوک فن کاروں کو حکومتی سرپرستی کی ضرورت ہے، محکمہ ثقافت کی جانب سےمختلف اداروں کی اسپانسر شپ میں ہر ماہ ثقافتی پروگرام کا انعقاد کیا جانا چاہئے تاکہ لوک فن کاروں کا ذریعہ معاش چلتا رہے۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 208 Articles with 192870 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.