#العلمAlilmعلمُ الکتاب سُورَةُالسجدة ، اٰیت 23 تا 25
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
لقد اٰتینا
موسی الکتٰب
فلاتکن فی مریة
من لقائهٖ وجعلنٰه ھدی
لبنی اسرائیل 23 وجعلنا
منھم ائمة یھدون بامرنا لما
صبرواوکانواباٰیٰتنا یجحدون 24
ان ربک یفصل بینھم یوم القیٰمة فیما
کانوافیه یختلفون 25
اے ھمارے رسُول ! علم و تحقیق کے ہر ایک پہلُو سے اِس اَمر کی تصدیق ہو چکی
ھے کہ مُوسٰی کو دی گئی کتاب کے بارے میں آپ کے فہم نے جو تفہیم حاصل کی ھے
وہ آپ کے یقینی فہم کی ایک یقینی تفہیم ھے اِس لیۓ کہ علمِ وحی کی جو کتاب
آپ سے پہلے ھم نے مُوسٰی کو دی تھی وہی کتاب ھم نے مُوسٰی کے بعد آپ کو بھی
دی ھے ، یہ وہی کتابِ علم ھے جس کے علمِ ھدایت سے بنی اسرائیل کو ھدایت ملی
تھی اور یہ وہی کتابِ علم ھے جس کے علمِ ھدایت سے بنی اسرائیل میں رُشد و
ھدایت کے وہ پیشوا پیدا ہوۓ تھے جو ھمارے حُکم کے مطابق ھمارے وہ اَحکامِ
ھدایت جاری کیا کرتے تھے جن اَحکام کے زمانی و مکانی اختلاف کی تفصیل قیامت
کے روز تحلیل ہو جاۓ گی کیونکہ انسان کو اِس عالَمِ شاھد میں جو اختلاف نظر
آتا ھے وہ اُس عالَمِ غائب میں داخل ہوتے ہی غائب ہو جاتا ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کے آغاز میں ھم نے عرض کیا تھا کہ اِس سُورت کا موضوعِ سُخن
تَخلیقِ عالَم و تَعلیمِ عالَم اور تَجدیدِ عالَم ھے ، پھر اِس صراحت کے
بعد ھم نے اٰیاتِ رَفتہ کے مفاہیمِ رَفتہ کے ضمن میں اللہ تعالٰی کے اُس
غیر معمولی قانُونِ تَخلیق کا ذکر کیا تھا جس کا قُرآنی نام خَلقِ جدید ھے
لیکن اِس عنوان سے ھم نے انسان کی جس خَلقِ جدید کا ذکر کیا تھا وہ خلقِ
جدید انسان کی وہی جسمانی خَلقِ جدید ھے جس کے مطابق ایک انسان مرکر زمین
میں دفن ہو جاتا ھے ، پھر زمین کے پردے میں رہ کر زمین کے مُختلف چھوٹے بڑے
جان داروں کی خوراک بن کر اُن کے جسموں اور اُن کی جانوں کے درمیان چُھپ
چُھپاکر سفر کرتا ہوا پہلے اپنے باپ کے جسم میں پُہنچتا ھے اور پھر اپنی
ماں کے رحم کی جنت میں پُہنچ جاتا ھے ، پھر رحمِ مادر کی اُس جنت سے
پروانہِ حیات لے کر زمین پر آجاتا ھے ، پھر زمین پر اپنے بچپن و جوانی اور
بڑھاپے کے زمانے گزار کر دوبارہ زمین میں اُتر جاتا ھے اور اِس طرح اُس کی
خَلقِ جدید کا ایک دور یا ایک دائرہ مُکمل ہو جاتا ھے ، انسان کی اِس خلقِ
جدید کی قابلِ ذکر بات یہ ھے کہ انسان کا جسم جس غیر محسوس طریقے کے ساتھ
جسم زمین میں رہ کر ایک جسم سے دُوسرے جسم تک جسم در جسم سفر کرتا ھے انسان
کی رُوح بھی اسی غیر محسوس طریقے کے ساتھ سفر کرتی ہوئی ایک جان سے دُوسری
جان تک جاتی اور ایک جسم سے دُوسرے جسم تک پُہنچتی رہتی ھے اِس لیۓ یہ بات
محض ایک نادانی کی بات ھے کہ مرنے کے بعد انسان کا جسم زمین میں جاتا ھے تو
رُوح آسمان میں چلی جاتی ھے ، جن فلاسفہ اور جن حکما نے رُوح کے اَعمال پر
بات کی ھے تو اُن کا کہنا ھے کہ زندگی کا جو جان دار خلیہ مُختلف زمان و
مکان کا ایک طویل سفر کرکے باپ کے جسم تک آتا ھے اور باپ کے جسم سے گزر کر
ماں کے رحم میں جاتا ھے وہ رحمِ مادر میں پُہنچ کر جب اپنی مطلوبہ خوراک
پاتا ھے تو اُس خوراک سے اُس کے وجُود میں جو جذب و حرکت اور قُوت و حرارت
پیدا ہوتی ھے اُس سے اُس کے اُس جسم میں سب سے پہلے خون و بلغم اور سودا و
صفرا کے اَخلاطِ اربعہ تیار ہو تے ہیں جن سے اُس کے وجُود میں وہ جوہرِ
بسیط پیدا ہوتا ھے جس کو رُوح کہا جاتا ھے اور جب اُس جسم میں اُس رُوح کا
وہ پہلا جوہر پیدا ہو جاتا ھے تو اِس کے بعد اُس کے جسم میں وہ تجربہ کار
رُوح بھی آجاتی ھے جو ایک زندہ جسم سے نکلنے کے بعد ایک دُوسرے زندہ جسم کی
تلاش میں ہوتی ھے اور جب یہ دو اَرواح اپنے اپنے عھدِ ہجر کے بعد اپنے اپنے
عھدِ وصال سے مُتصل ہو جاتی ہیں تو اِن کے اِس وصال و اتصال سے وہ نیا
انسان تیار ہو کر زمین پر آجاتا ھے جس کے رُوح و جسم نے یہاں پر پُہنچنے کے
لیۓ زمان و مکان میں خلقِ جدید کا ایک طویل سفر طے کیا ہوا ہوتا ھے لیکن
اِن دو اَرواح کے وصال و اتصال سے وہی ایک جسم تیار نہیں ہوتا جو زمین پر
ظاہر ہوتا ھے بلکہ جب اِن دو اَرواح کے اتصال سے ایک جان تیار ہوتی ھے تو
یہ دونوں اپنے اُس تجربے اور اپنے اُس مُشاھدے کے تجرباتی و مُشاھداتی عمل
کو دیکھ کر خود بھی ایک نیا جسم حاصل کرلیتی ہیں جو اُن مادی عناصر سے ایک
بلند تر وجُود ہوتا ھے جن مادی عناصر سے اُن کا پہلا جسم تیار ہوتا ھے اور
اِن اَرواح کے تیار کیۓ ہوۓ پہلے جسم کے بعد جو دُوسرا جسم تیار ہوتا ھے
اسی دُوسرے جسم کا نام وہ "جن" ھے جو اِس انسان کے ساتھ دُنیا میں آتا ھے
اور اِس انسان کی موت تک اِس کے جسم میں آنے اور جانے پر قادر ہوتا ھے ،
اگر انسان کے ساتھ پیدا ہونے والا وہ جن ایک اَچھا ہوتا ھے تو اُس انسان کی
ھدایت کا باعث ہوتا ھے ، اگر ایک بُرا جن ہوتا ھے تو صرف ضلالت کا باعث
ہوتا ھے ، لیکن اِس بات کو سمجھنے کے لیۓ اِس بات کا سمجھنا لازم ھے کہ
رُوح اللہ تعالٰی کے دیگر اَوامرِ وحی کی طرح ایک اَمرِ وحی ھے جس کا ایک
نادیدہ رُوحانی وجُود تو ضرور ہوتا ھے مگر اُس کا کوئی نظر آنے والا جسمانی
وجُود نہیں ہوتا ھے لیکن یہ بات بہر حال طے ھے کہ رُوح کا گھر ایک جسم ہی
ہوتا ھے اِس لیۓ ہر رُوح ایک زمان و مکان سے دُوسرے زمان و مکان میں جانے
کے لیۓ کسی جسم سے گزرتی ھے اور کسی جسم میں رہ کر گزرتی ھے جس کا ذریعہ
صرف وہی وحی ہوتی ھے جو وحی پہلے سارے زمانوں سے گزرتی ہوئی مُوسٰی علیہ
السلام کے زمانے تک اور مُوسٰی علیہ السلام سے چلتی ہوئی سیدنا محمد علیہ
السلام کے اُس زمانے تک پُہنچی ھے جس زمانے کا اٰیاتِ بالا میں ذکر ہوا ھے
اور اٰیاتِ بالا کے اِس بیان سے یہ نتیجہ سامنے آیا ھے کہ اللہ تعالٰی کے
اِس عالَم کے ہر شُعبہِ عالَم میں خلقِ جدید کا وہ عمل ہمیشہ سے ہمیشہ کے
لیۓ جاری ھے اور اُس دائمی عمل کا دائمی علم بھی انسان کو ہمیشہ ہی قُرآنِ
کریم سے ملتا رھے گا !!
|