اہل ایمان شب و روز نبیٔ مکرم ﷺ پر درود و سلام کا نذرانہ
پیش کرتے رہتے ہیں مگر ماہِ ربیع الاول میں عقیدت و محبت کا اظہار بامِ
عروج پر ہوتا ہے۔ رسول اکرم ؐ کا ارشاد ہے:’’ کوئی بندہ مومن نہیں ہوسکتا
یہاں تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے اہل وعیال، اس کے مال اور تمام لوگوں سے
زیادہ محبوب نہ بن جاؤں‘‘۔سیدنا علیؓ سے کسی نے دریافت کیا کہ رسول اللہ ؐ
کے ساتھ آپ لوگوں کی محبت کیسی تھی؟ انہوں نے جواب دیا " اللہ کی قسم! رسول
اللہ ؐ ہمیں مال و اولاد اور ہمارے ماں باپ سے زیادہ محبوب تھے اور جتنا کہ
شدید پیاس کے وقت ٹھنڈا پانی ہوتا ہے، اس سے بھی زیادہ محبوب تھے ‘‘۔حضرت
عمر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ یقیناً آپ ؐمجھے اپنے نفس کے سوا ہر چیز سے
زیادہ محبوب ہیں ۔ اس پر نبی کریم ؐنے فرمایا:’’نہیں، اس ذات کی قسم جس کے
قبضے میں میری جان ہے یہاں تک کہ میں تمہارے نزدیک تمہارے نفس سے بھی زیادہ
محبوب ہوجاؤں‘‘۔ اس پر سیدنا عمر ؓ نے عرض کیا " ہاں! اللہ کی قسم ، اب آپ
ؐ مجھے اپنے نفس سے زیادہ محبوب ہیں‘‘۔ نبیٔ مکرم ؐ نے ارشاد فرمایا ’’ہاں
اب اے عمر‘‘۔ یعنی اب تمہارا ایمان مکمل ہوا۔
ارشادِ ربانی ہے:’’پیغمبر مومنوں پر اُن کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے
ہیں‘‘۔ صحابہ رضوان اللہ اجمعین کی زندگی اس آیت کی عملی تفسیر تھی اور
ضمن میں بے شمار واقعات ملتے ہیں جن میں آپ ﷺ کے تئیں بے پناہ محبت و
عقیدت کا اظہار ہوتا ہے مثلاً حضرت زید بن وثنہؓ کو کفار نے پکڑ لیا اور
قتل کے ارادے سے بیرونِ حرم لے چلے۔ راستے میں ابو سفیان نے پوچھا:’’ بتاؤ
کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ تمہاری جگہ (نعوذ باللہ) محمدؐ کو پھانسی دی
جاتی اور تم گھر میں آرام سے رہتے؟‘‘ حضرت زید بن وثنہ ؓ جواب دیا:’’اللہ
کی قسم! مجھے ہرگز یہ بات بھی گوارہ نہیں کہ میں چھوڑ دیا جاؤں اور اس
رہائی کے بدلے محمدؐکو کوئی کانٹا بھی چبھے۔" یہ سن کر ابو سفیان یہ کہنے
پر مجبور ہوگیا کہ ہم نے کسی کو کسی سے ایسی محبت کرتے نہیں دیکھا جیسی
محبت محمدﷺ سے ان کے اصحاب ؓ کرتے ہیں۔ محبت میں رخصت کے بجائے عزیمت کا کا
اظہار حضرت زید بن وثنہؓ کے اس عمل میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔
حضرت خبیب بن عدیؓ سے تختۂ دار پر ظالموں نے کہا کہ اگر اسلام چھوڑ دو تو
جان بخشی ہوسکتی ہے مگر حضرت خبیبؓ کا جواب تھا کہ جب اسلام نہ رہا تو جان
رکھ کر کیا کروں؟ جان پر بن آئے تو کلمۂ کفرسےرخصت کی گنجائش ہے مگرعزیمت
کے پیکر صحابہؓ نے اسے گوارہ نہیں کیا۔ ایک شقی القلب نے نیزہ سے جگر چھید
کر کہا :’’اب تو تم ضرور یہ پسند کرتے ہوگے کہ میری جگہ محمدؐ ہوتے اور میں
چھوٹ جاتا۔ یہ سن کر سیدنا خبیبؓ جواب دیا : ’’اللہ کی قسم! مجھے یہ بھی
پسند نہیں کہ میری جان بچ جائے اور اس کے عوض محمدؐ کے پائے مبارک میں
کانٹا چبھے‘‘۔غزوۂ احد میں سیدنا ابو طلحہؓ نے ڈھال بن کر 70 سے زیادہ تیر
اپنے ہاتھ اور سینے سے روکے ۔ سیدنا ابو دجانہؓ نے رسول اللہؐ کی محبت میں
آپؐ کی حفاظت میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا۔
اسی غزوۂ میں رسول اللہ ؐکے شہادت کی افواہ پھیل گئی۔ یہ خبر سن کر بنو
دینارایک انصاری خاتون بے اختیار میدانِ احد کی طرف نکل پڑیں ۔ غزوۂ احد
میں اس عورت کے باپ، بھائی ، بیٹا اور شوہر سب شہید ہوگئے تھے۔ وہ جب ان پر
سے گزرتی تو لوگ خبر دیتے کہ یہ تمہارا باپ ہے، یہ بیٹا، یہ بھائی اور یہ
تمہارا شوہر ہے لیکن وہ ہر مرتبہ بے چینی سے پوچھتی کہ رسول اللہؐ کس حال
میں ہیں؟ ان سے کہا جاتاوہ کہ آپؐ آگے ہیں، وہ کہتی: ’’مجھے دکھاؤ کہ میں
اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں‘‘۔چہرۂ اقدسؐ پر جب نظر پڑی تو بے اختیار کہنے
لگی: یا رسول اللہ (ﷺ) !میرے ماں باپ آپؐ پر قربان، آپؐ سلامت موجود ہیں تو
ہر مصیبت ہیچ ہے ۔ اس دورِ رخصت میں محبت و عقیدت اور عظمت و عزیمت کے یہ
نمونےہمارے لیے مشعل راہ ہیں ۔
|