ساٹھ {60} کی دہائی تھی۔ میں ان دنوں سکول کا طالب علم
تھا۔ میری ماں جی (دادی) مجھے گوشت لینے بھیجتیں ۔ میں ان کے کہنے کے مطابق
کبھی ڈیڑھ پاؤ اور کبھی آدھ کلو گوشت لے کر آتا۔ گوشت دس آنے پاؤ تھا۔ ڈیڑھ
پاؤ لیتا تو ایک روپے میں سے ایک آنہ بچ جاتا اور آدھ پاؤ لیتا تووہ سوا
روپے کا ہوتا۔ ان دنوں زیادہ گاہک ایک پاؤ یا کم وزن کے ہوتے تھے، یوں میں
ایک بڑا گاہک تھا۔ہمارے محلے کی نکر پر فیروز قصائی کی دکان تھی۔ان دنوں
محلے کے دکانداروں سے تعلق ایسا ہوتا تھا کہ سب کو ہم چاچا ہی کہتے تھے۔
میں چاچا فیروز کے پاس جاتا اور اسے بتاتا کہ ماں جی نے کہا ہے گوشت بہت
اچھا ہو۔ چاچا فیروز نے گوشت دینا اور کہنا کہ میری ماں کو بتانا شاندار
گوشت دیا ہے۔ کبھی کبھار گوشت میں کچھ کمی ہوتی تو ماں جی کا حکم ہوتا آج
فیروز سے نہیں، چار دکانیں آگے ظفر سے لے آنا۔فیروز گوشت ٹھیک نہیں
دیتا۔میں ظفر سے گوشت لے آتا۔ چاچا فیروز مجھے آگے جاتا دیکھتا تو بہت
آوازیں دیتا، اپنے پاس بلانے کی کوشش کرتا ، مگر میں تو حکم کا بندہ تھا۔
ان دنوں بزرگوں کے احترام کی صورت یہ تھی کہ ماں جی کی کہی بات سے دائیں
بائیں ہونا ہمارے گھرتو کیا محلے بھر میں کسی کے بس میں نہیں ہوتا تھا۔
شام کو چاچا فیروزہمارے گھر کے دروازے پر موجود ماں جی کی جھڑکیں بڑے ادب
سے سن رہا ہوتا۔ ماں جی بتاتیں کہ اتنا گندہ گوشت تم نے دیا کہ اس نے پکنے
میں دگنا وقت لیا۔ ایسے بکرے کیوں لیتے ہو۔ وہ بار بار معذرت کرتا اور
آئندہ احتیاط برتنے کی یقین دہانی پر ماں جی سے معافی مانگ کر اس یقین کے
ساتھ خوش خوش لوٹ جاتا کہ کل سے گوشت اسی سے خریداجائے گا۔اس کے جانے کے
کچھ بعد ظفر نے آجانا کہ ماں جی گوشت ٹھیک تھا کوئی شکایت تو نہیں۔کل سے آپ
نے گوشت مجھ سے ہی لینا ہے۔ماں جی معذرت کر دیتیں کہ جیسے تم ہو ویسے ہی وہ
بھی میرا بیٹا ہے، اس کی دکان راستے میں ہے ، اسے چھوڑ کے آگے جاتے شرم
محسوس ہوتی ہے۔ کوشش کروں گی کہ کبھی تم سے بھی گوشت خرید لوں۔ یہ اس وقت
کا لاہور تھا، بھائی چارہ ،مروت ، تحمل، برداشت ا ور بزرگوں کاحد سے زیادہ
احترام جس کا خاصہ تھا۔ کھانے کی عادتیں بھی جائز حد تک تھیں۔دکاندار محنت
سے حلال کماتے تھے۔گاہکوں کی تسلی ان کی صفت تھی۔ لوٹ مار نہیں تھی۔زندگی
بہت سادہ تھی۔
اسی (80) کی دہائی میں ، میں چند سال اچھرے اور باقی ماڈل ٹاؤن رہا۔اب
گھروں میں الیکٹرک اور الیکٹرونکس کی بھرمارشروع تھی۔ وقت کم تھا، زندگی کی
رفتار کافی تیز ہو گئی تھی۔ اب قصائی کی دکان کا سٹائل بدل گیا تھا۔ وہ جس
کے پاس بیچنے کو کبھی پورے دن میں کل چار یا پانچ بکرے ہوتے تھے، اب اس کی
دکان میں درجنوں بکرے موجود تھے۔ وہ خود کام کرنے کی بجائے پانچ چھ ملازموں
سے کام لیتا تھا۔ میں ہفتے بھر کے لئے دو تین کلو گوشت خریدتا مگر قصائی کم
توجہ کرتا کہ اب میں بڑا گاہک نہیں معمولی گاہک تھا۔ خریدنے والے ایک سالم
بکرے سے کم بات ہی نہیں کرتے تھے۔ اس وقت تک منسٹروں کے دماغ اتنے خراب
نہیں تھے جتنے قصائیوں کے۔ دو تین کلو مانگتے شرمندگی بھی ہوتی مگر کیا
کرتے ، ہماری ہفتے کی ضرورت ہی اتنی تھی۔ چار چار بکرے خریدنے والے پتہ
نہیں گوشت کھاتے تھے کہ پھینکتے، مجھے کبھی سمجھ نہیں آیا۔ یہ نفسا نفسی کا
دور تھا، قدریں تبدیل ہو رہی تھیں ۔ اب احترام کا معیار اخلاقی کی بجائے
مالی قدروں میں بدل رہا تھا۔ لوگوں کے مالی حالت تو بہتر ہو رہے تھے مگر
اخلاقی تنزلی ان کے رویوں سے عیاں تھی۔شرم ،حیا، احترام، مروت جیسی چیزیں
کو اب ڈھونڈھنا پڑتا تھا۔ بات صرف قصائی کی نہیں سبھی دکاندار چاہے قصائی
تھا یا سبزی والا، کریانہ سٹور والاسب ہوس کا شکار تھے اور گاہکوں کو لوٹ
کر بلندیوں کو محو پرواز تھے۔یہ سلسلہ یونہی کئی سال چلتا رہا مگر کوئی کمی
نہ آ سکی۔
آج 2021 ہے ، مہر و محبت، بھائی چارہ، مروت، تحمل، برداشت اور احترام ، سب
پچھلی صدی کی باتیں تھیں اب کوئی ان کے بارے سوچتا بھی نہیں۔ اب تو شرم حیا
بھی مفقود ہے، گھر کے مکین ایک دوسرے کو وقت نہیں دے پاتے۔خاندانی نظام اور
قدریں شکست وریخت کا شکار ہیں اور اس دور میں جناب عمران خان صاحب کا کمال
ہے کہ یہ سارے چور، لوٹ مار کرنے والے اپنی اوقات پر واپس آ گئے ہیں، ان کے
کس بل نکل گئے ہیں۔ویسے اس دور میں اوقات عام آدمی کی بھی کچھ نہیں رہی۔
کچھ دن پہلے میں گوشت لینے قصائی کی دکان پر گیا۔ اب اس نے اس دو کلو گوشت
والے چھوٹے سے گاہک کو بڑے اہتمام سے خوش آمدید کہا۔ وہ دکان جہاں ہر وقت
سینکڑ وں بکرے لٹکے ہوتے تھے کچھ خالی خالی تھی۔ کل آٹھ دس بکرے ہوں گے۔
میں نے پوچھا کہ آج گاہک کچھ کم لگتے ہیں ۔ جواب ملا گاہک ہیں ہی نہیں۔
مہنگائی اتنی ہے کہ بکرے کا مہنگا گوشت اب لو گوں کی قوت خرید میں
نہیں۔مرغی یا کوئی سستی چیز کھا لیتے ہیں۔ اگلے دن میں مرغی خریدنے گیا،
وہاں بھی ہو کا عالم تھا۔ پوچھا بھائی گاہک کہاں ہیں۔ جواب ملا،مہنگائی نے
غائب کر دئیے ہیں اور مرغی مہنگی کیوں نہ ہو ۔ فیڈ کی بوری جو پہلے دو ہزار
یا بائیس سو میں ملتی تھی اب پینتیس سے چار ہزار میں دستیاب ہے۔ حکومت
مہنگائی کرکے خوش ہے تو لوگ کیا کریں۔ غریب لوگ اس ذلت کو کسی طرح تو کاٹیں
گے چاہے بھوکا ہی رہنا پڑے۔پہلے اگر ۰۰۵ مرغی بکتی تھی تو ان کی ٹانگیں جو
لوگ پھینک دیتے ہیں ، سو پچاس غریب وہ کے جاتے تھے کہ مرغی نہیں تو ان
ناکارہ ٹانگوں سے یخنی بنا کر مرغی کا ذائقہ چکھ لیں۔ اب مرغی سو بھی نہیں
بکتی اور ان پھینکنے والی ٹانگوں کو لینے والے پانچ سو ہوتے ہیں، یہ غربت
کا حال ہے۔کل مجھے سبزی لینے جانا پڑا۔ دکان دار تھوڑی سی سبزیاں لئے بیٹھا
تھا۔ میں نے کہا اتنی کم سبزی ، کہنے لگا ڈیمانڈ ہی اتنی ہے۔ کوئی سبزی سو
ڈیڑھ سو کلو سے کم نہیں، لوگ کیا کریں۔ دال وال پر گزارہ کر لیتے ہونگے۔
میں بیگم سے دالوں کے بارے بات کر رہا تھا تو پتہ چلا کہ وہ دال جس کی پلیٹ
ہمارے بچپن میں تنور والے روٹی کے ساتھ مفت دے دیا کرتے تھے اب تین اور چار
سو روپے کلو ملتی ہے۔وہ بھی غریب کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہے۔ سوچتا ہوں اگر
یہی حال رہا تو بقول ساحر، بھوک آداب کے سانچے میں نہیں ڈھل سکتی،کچھ حالات
ٹھیک نہیں نظر آتے۔
یہ حکومت شجر کاری کی بہت بڑی حامی ہے۔ مجھے فخر ہے کہ امسال میں نے اپنی
ذاتی کاوش سے اپنی سوسائٹی میں دو ہزار سے زیادہ پودے لگائے ہیں۔ مجھے امید
ہے خان صاحب کا اس مہنگائی میں اگلا مشورہ پتے کھانے کا ہوگا جس کا ہم نے
اپنے علاقے میں پورا انتظام کر لیا ہے۔مہنگائی کی حد تو یہ ہے کہ میں بازار
سے گزر رہا تھا۔ اس حجام کی، جس سے میں عموماً بال کٹواتا ہوں مجھ پر نظر
پڑی ، مجھے زبردستی بال کاٹنے دکان میں لے گیا۔بال کاٹنے کے دوران حالات کا
ذکر ہوا تو عملاً وہ رو دیا کہ مہنگائی کی وجہ سے گاہک ہی نہیں، لوگ ہر ماہ
بال کٹوانے کی بجائے چار پانچ مہینے بعد کٹواتے ہیں، مندہ تو ہو گا۔دکان کا
کرایہ نکالنا مشکل ہو رہا ہے، گھر کا آپ اندازہ خود ہی کر لیں۔مجھے اس کی
بات عجیب لگی۔ میں اپنے ایک ارسطو نما دوست سے حجام کی اس بات کا ذکر کر
رہا تھا تو وہ بولا، حجام ٹھیک کہتا ہے۔ لوگ بال کٹوانے کی ضرورت گھر ہی
میں پوری کر لیتے ہیں۔ پہلے کبھی جب بیوی جلال میں ہوتی تھی توسر بچانے کو
دائیں بائیں ہو جاتے تھے۔ اب جب مہنگائی ہے، جیب میں پیسے نہیں تو ایسے
حالات میں جلالی بیگم کے آگے سر کر دیتے ہیں ۔ایک پنتھ دو کاج، حجامت بھی
ہو جاتی ہے اور بچت بھی۔
|