کمسن بچوں اور بچیوں سے جنسی استحصال کی خبریں دل دہلانے
والی ہوتی ہیں، ایسے واقعات سے انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ کسی بھی
معاشرے کی تہذیب و روایات کے ساتھ سماجی اقداروں کا موازنہ کرکے شرمناک
واقعات کے اسباب و سدباب پر غور کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔ سخت سزاؤں کا خوف
دلانے کے لئے قانون سازی و جرم ثابت کرنے کے لئے تفتیشی عمل ایک دقت طلب
مرحلہ ہے۔ کسی بھی ایسے واقعے کو ثابت کرنے میں تاخیر سے متاثرہ بچے سنگین
نفسیاتی الجھنوں کا شکار بن جاتے ہیں۔ آئے روز کسی نہ کسی علاقے میں جنسی
زیادتیوں کے واقعات نے معاشرتی انحطاط پزیری کے اصل اسباب کو جاننے کی
ضرورت کو اجاگر کیا ہے تاہم بااثر شخصیت اور سماجی و اخلاقی تقاضوں کے نام
پر زبان بندی ایک ایسا مرض بن جاتا ہے جس میں مجرم بے خوف و متاثرہ فرد
سنگین مسائل میں اپنی زندگی کو بوجھ سمجھنے لگتے ہیں۔ بچوں سے جنسی استحصال
پر مخصوص ذہن رکھنے والے اپنی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور ریٹنگ بڑھانے کے
لئے بھی متنازع معالات میں مخالف طبقات کے خلاف منفی پراپیگنڈا شروع کردیتے
ہیں، کسی کے غلط فعل کو کسی مذہب یا قومیت سے جوڑنے کا عمل کبھی بھی اچھا
نہیں سمجھا جاتا تاہم جہاں مذہب کے نام پر ایسے واقعات سامنے آئیں تو پھر
معاشرتی بگاڑ کی درستگی کے لئے یہ سمجھنا انتہائی ضروری ہوتا ہے کہ غیر
جانب دار اور تعصب سے بالاتر ہو کر بغیر کسی صنفی امتیاز،نگ نسل اورمذہب اس
قسم کے واقعات کی روک تھام کے لئے آگاہی کی ضرورت کو اپنایا جائے۔
پاکستان میں مخصوص مذہب بیزار طبقہ جنسی استحصال کے واقعات میں مذہبی
شخصیات کے ساتھ ساتھ اُس کے ادارے، نظام اور درس و تدریس کو نشانہ بناکر یہ
ظاہر کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ تعلیمی ادارے و درسگاہیں مبینہ فحاشی و
جنسی استحصال کی گڑھ ہیں۔ یہ ایک قابل مذمت سوچ و نظریہ ہے جس کومخصوص
مفادات کے استعمال کرنے کی حوصلہ شکنی تمام طبقات کی یکساں ذمے داری بنتی
ہے۔ گذشتہ دنوں فرانسیسی مذہبی رہنماؤں کے ہاتھوں لاکھوں بچوں کے ساتھ جنسی
استحصال کی رپورٹس نے انسانیت کو ہلاکر رکھ دیا۔ فرانس اپنے مذہبی آزاد
پسند نظریات کی وجہ سے دیگر مذہبی اکائیوں کے لئے متنازع ملک کی حیثیت
رکھتا ہے۔ اس ملک کے مقرر کردہ ایک کمیشن کی تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف
کیا گیا کہ فرانسیسی پادریوں نے گذشتہ 70 برسوں میں دو لاکھ زائد ایسے بچوں
کا جنسی استحصال کیا جن کی عمریں 10سے13برس کے درمیان تھیں۔بچوں سے جنسی
استحصال کے واقعات کا کسی بھی مذہبی ادارے کے رہنماؤں اور سرپرستوں کے ساتھ
وابستگی ان گنت لوگوں کے اعتماد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا سبب بن
جاتا ہے۔
فرانس کے علاوہ مشرقی یورپ کے ملک پولینڈ میں بھی سیاسی اثر رسوخ رکھنے
والے کلیسائی اداروں میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے بڑی تعداد میں
واقعات سامنے آئے۔ بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات پر تحقیق کرنے والے
Jesuit پادری ایڈم ذاک کا کہنا تھا کہ 2018 سے لے کر گذشتہ برس کے آخر تک
پولینڈ کے صرف ایک چرچ میں 368 جنسی استحصال کے واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ
کلیسائی اہلکاروں کی طرف سے جنسی زیادتی کے واقعات میں بچے اور بچیوں کی
بڑی تعداد بتائی گئی ہے کہ ایک عشرے سے بھی زیادہ عرصے تک جنسی استحصال کیا
جاتا رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق آسٹریا میں 2010 تک 800 جنسی استحصال کے
واقعات رپورٹ ہوئے جب کہ آئرلینڈ میں 14500، جرمنی میں 3677، فلپائین میں
200، آسٹریلیا میں 15000 اور امریکہ میں ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ بچوں
کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا۔ انگلینڈ اور ویلز میں سرگرم کئی مذہبی
تنظیموں پر بچوں کے جنسی استحصال میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا.ایک
آزاد تحقیقاتی رپورٹ میں بھی ان الزامات کا ذکر ہے۔رپورٹ کے مطابق انگلینڈ
اور ویلز میں بچوں کے جنسی استحصال میں ملوث کل38 تنظیمیں شامل ہیں.اس
انکوائری میں 2015 سے لے کر 2020 کے دوران متعدد مذہبی تنظیموں کی چھتری
تلے رونما ہونے والی سرگرمیوں اور کارروائیوں کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔
اس دوران یہ واضح ہوا کہ بچوں کے ساتھ اس استحصالی عمل میں ملوث افراد یا
تو مذہبی تنظیموں کے ملازم تھے یا پھر ان سے وابستہ افراد تھے اور جنسی
استحصال کے تمام واقعات کو رپورٹ بھی نہیں کیا گیا۔تفتیش کاروں نے اپنی
رپورٹ میں بیان کیا کہ مذہبی تنظیموں سے وابستہ افراد کی یہ استحصالی
سرگرمیاں یقینی طور پر طاقت و اختیار کا غلط استعمال تھا۔ ایسے افراد کو
مذہبی اکابرین کی سرپرستی اور کسی حد تک حمایت بھی حاصل تھی۔
نوبل امن انعام یافتہ کیلاش ستیارتھی کی ' کیلاش ستیارتھی چلڈرن فاؤنڈیشن‘
(کے ایس سی ایف) کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پولیس ہر سال بچوں کے خلاف
جنسی استحصال کے درج تین ہزار شکایات کے بارے میں کوئی ثبوت اکٹھا کرنے میں
ناکام رہتی ہے اور یہ معاملات عدالت پہنچنے سے پہلے ہی بند کر دیے جاتے
ہیں۔یہ تحقیقاتی رپورٹ بھارتی حکومت کے جرائم کا اعدادوشمار رکھنے والے
ادارے نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو(این سی آر بی) کی طرف سے 2017 سے 2019 کے
درمیان حاصل کردہ ڈیٹا پر مبنی ہے۔ بھارت میں پربھوداسی نامی مبینہ روایت
ساتویں صدی کے درمیان پروان چڑھی۔ مذہب کے نام غریب اور معصوم بچیوں کا
بدترین جنسی استحصال کرنا شروع کیا جاتا ہے۔ انڈین نیشنل ہیومن رائٹس آف
کمیشن کے مطابق 2013 میں دیو داسیوں کی تعداد 4 لاکھ 50 ہزار تھی جو 2017
میں پچاس فیصد بڑھی۔ زیادہ تر پربھوداسیاں آندھراپردیش، کرناٹکا اور
مہاراشٹر میں ہیں، ان دیوداسیوں کی عمر 11 سے 15 برس کے درمیان ہوتی ہے۔
خیال رہے بھارت اور اریکہ کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں خواتین، بچیوں
اور لڑکیوں کے ساتھ سب سے زیادہ جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔
سال 2020 میں پاکستان کے چاروں صوبوں، اسلام آباد، آزاد کشمیر اور گلگت
بلتستان میں بچوں پر جنسی تشدد کے مجموعی طور 2960 واقعات رپورٹ ہوئے۔یر
سرکاری تنظیم ساحل کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق پچھلے سال کی نسبت اس
سال ان واقعات میں 4 فیصد اضافہ ہوا۔ساحل کی رپورٹ کے مطابق ان واقعات سے
یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس سال روزانہ 8 سے زائد بچے جنسی تشدد کا شکار ہوئے۔
اس سال بھی پچھلے سال کی طرح لڑکیوں کے ساتھ جنسی تشدد کی شرح لڑکوں کی
نسبت زیادہ رہی-جاری اعدادو شمار کے مطابق سال 2020 میں 1510 لڑکیاں اور
1450 لڑکوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق
مذہبی اسکولوں اور مدرسوں مں بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کا رجحان انتہائی
حد تک بڑھا ہوا ہے۔ تاہم اس طرح کے زیادہ تر واقعات منظر عام پر نہیں آتے۔
اے پی کے مطابق اس کی دو بڑی وجوہات میں ایک تو یہ کہ پاکستان جیسے ملک میں
مذہبی مبلغ یا مدرسے کے اساتذہ بہت زیادہ با اثر ہیں اور دوسرا یہ کہ جنسی
استحصال یا زیادتی کے معاملے پر بات کرنے کو شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی
وجہ سے نہ تو معاشرے میں ان موضوعات پر زیادہ تر بات کی جاتی ہے اور نہ ہی
عوام سطح پر اسے تسلیم کیا جاتا ہے۔
جنسی استحصال و کم عمر بچوں، بچیوں سے لے کر لڑکیوں اورخواتین کے ساتھ
زیادتی کے واقعات کا اباافراط ہونا ایک انسانی المیہ ہے۔ مذہب کی آڑ میں
ایسے شرم ناک جرائم کرنے والے اپنی جنسی خواہشات کے غلام تو قرار دیئے
جاسکتے ہیں لیکن انہیں کسی بھی مذہبی اقدار سے نہیں جوڑا جانا چاہے۔ کوئی
بھی مذہب اس قسم کے غلیظ و شرم ناک حرکات کی اجازت نہیں دیتا لیکن جنسی
مریض جو کسی بھی لبادے میں ہوں، وہ جنسی استحصال میں مذہب، رشتہ اور انسانی
و اخلاقی اقدار کو روند ڈالنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس مرحلے پر سب اہم و
قابل توجہ ذمے داری والدین پر عائد ہوتی ہے کہ اپنے بچوں اور بچیوں کے تحفظ
کے لئے اُ ن اقدامات پر توجہ مبذول کریں اور احتیاطی تدابیر اختیار کریں جو
وقتاََ فوقتاََ سماجی مسائل کے حل سے منسلک تنظیمیں، ادارے یا حکومت جاری
کرتے رہتے ہیں،انہیں جنسی استحصال کے سدباب کے لئے اُن اسباب کی حوصلہ شکنی
کرنا ہوگی جس کے سبب مذہبی و انسانی اقداروں کو برباد کردیا جاتا ہے۔ بالا
سطور میں درج اعداد و شمار اُن کمیشن کی رپورٹ سے اخذ کئے گئے جنہوں نے
جنسی استحصال کے بڑھتے واقعات پر ذمے داروں کا تعین کیا۔ جنسی استحصال اور
زیادتی کے واقعات سے بچاؤ کے لئے ہر سطح پر آگاہی، دنیا کے تمام ممالک کو
یکساں دعوت فکر دیتی ہے کہ وہ ایسا مربوط نظام اپنائیں جس میں سنگین جرائم
کا ارتکاب کم سے کم ہو۔ |