شیشم کی لکڑی اور خالی گھر… کراچی کی قدیم پارسی کالونی جہاں ہر دوسرا گھر ویران ہے

image
 
یہ سات ماہ پہلے کی بات ہے جب میں کراچی میں ایک نجی ٹیکسی سروس کی گاڑی میں شہر کے علاقے گارڈن کی جانب گامزن تھی اور ایم اے جناح روڈ پر ٹریفک کے رش سے بچانے کے لیے ڈرائیور نے گاڑی ایم اے جناح روڈ سے متصل ایک سڑک کی جانب موڑ لی۔
 
گاڑی اس سڑک پر مڑنے کی دیر تھی کہ کراچی کی ہنگامہ خیز ٹریفک اور شہر کے شور کے بیچ اچانک مکمل خاموشی ہو گئی۔ یہ سڑک صاف ستھری تھی اور ایک لمحے کے لیے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے کراچی میں رہتے ہوئے میں کسی اور جگہ پہنچ گئی ہوں۔
 
اس علاقے میں موجود گھروں کی بیرونی دیواریں چھوٹی اور دروازے بے حد خوبصورت تھے اور پورے راستے میں سایہ دار تناور درخت موجود تھے۔
 
ڈرائیور نے اس جگہ کا نام ’پارسی کالونی‘ بتایا۔
 
عموماً کراچی کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے اب یہ احساس ہوتا ہے کہ شہر کا نقشہ پوری طرح سے تبدیل ہو چکا ہے۔ پرانے طرز کے مکانات کی جگہ اب بلند و بالا عمارتوں نے لے لی ہے اور یہ حال صرف سڑکوں تک محدود نہیں بلکہ اب گلی محلوں کے اطراف میں بھی اس کے اثرات خاصے واضح ہیں۔
 
وہیں اس شہر میں پارسی کالونی کا علاقہ بھی ہے جہاں پرانے طرز کے گھر اب بھی موجود ہیں، جو پرانے سادہ وقتوں کی یاد تو تازہ کرتے ہی ہیں لیکن ساتھ ہی یہ سوال بھی ذہن میں آتا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر گھر اب خالی کیوں ہیں؟ ان میں رہنے والے لوگ اب کہاں ہیں؟ اور کیا کچھ عرصے میں یہ گھر بھی کسی بلند عمارت میں تبدیل ہو جائیں گے؟
 
image
 
پارسی کالونی ایم اے جناح روڈ اور گارڈن کے بیچ میں دوگلیوں پر مشتمل علاقہ ہے۔ یہاں تعمیر کردہ مکان اُس زمانے کے ہیں جب ایک ہی محلے میں رہنے والے ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ مگر ان گلیوں میں پھیلی خاموشی اس بات کی علامت ہے کہ اب یہاں کوئی نہیں رہتا۔ اور جو گھرانے یہاں رہتے بھی ہیں وہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔
 
ایم اے جناح روڈ پر ہونے والے شور شرابے اور مذہبی ریلیوں کا بظاہر اس علاقے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ اِدھر رہنے والوں نے ماضی میں کئی بار اپنے تحفظ کے لیے پولیس اور رینجرز کی خدمات حاصل کی ہیں، تاکہ ادھر کوئی توڑ پھوڑ نہ کر سکے۔
 
مگر شاید توڑ پھوڑ سے زیادہ اب اس کالونی کی گمنامی اور گرائے جانے کا ڈر زیادہ ہے۔ اگر اس کالونی کے ارد گرد دیکھیں تو اس کے آس پاس بلند عمارتوں کا جُھرمٹ ہے جو آہستہ آہستہ تنگ ہوتا ہوا ان گلیوں کی طرف بڑھتا نظر آ رہا ہے۔
 
سہراب کیٹرک پارسی کالونی
 
image
 
پارسی کالونی کا پورا نام 'سُہراب کیٹرک پارسی کالونی' ہے جس کی بنیاد 21 مارچ 1923 میں جمشیدی نوروز کے دن اس وقت کے سندھ کے کمشنر جے ایل ریو نے رکھی تھی۔ اس جگہ پر مجموعی طور پر 58 پلاٹ ایک ہزار گز پر تعمیر کرائے گئے تھے۔
 
اگر اس علاقے کی تاریخ کو دیکھا جائے تو سنہ 1854 میں کراچی کی بندرگاہ بننے کے بعد یہاں پر پارسی اُمرا آباد ہونے لگے جنھوں نے میری ٹائم، سینیما اور بینکوں میں سرمایہ لگایا اور اس وقت کی برطانوی فوج کا بھرپور ساتھ دیا۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ ان کے کراچی آنے اور اسے گھر بنانے کی تاریخ اٹھارویں صدی ہی سے شروع ہو جاتی ہے۔
 
مصنف الیگزینڈر بیلی اپنی کتاب ’کراچی، پاسٹ، پریزنٹ اینڈ فیوچر‘ (کراچی ماضی، حال اور مستقبل) میں لکھتے ہیں کہ سنہ 1881 کی مردم شماری کے دوران کراچی میں پارسی کمیونٹی کی کُل آبادی فقط 937 افراد پر مشتمل تھی۔
 
لیکن پارسیوں کی آبادی شروع سے اُتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہے۔
 
image
 
جہاں 1950 اور 1960 کی دہائی میں یہ تعداد پانچ ہزار تک پہنچ گئی تھی وہیں اس تعداد میں 1980 کے بعد ایک بار پھر گراؤٹ دیکھنے میں آئی۔ یہ وہ دور تھا جب کراچی میں بسنے والے بہت سے پارسی خاندان پاکستان سے بیرونِ ملک نقل مکانی کر گئے۔
 
پارسی برادری کی ویب سائیٹ ’کراچی زرتشتی بنُو منڈل‘ کے مطابق اپریل 1995 میں ہونے والی زرتشتی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں 2831 پارسی آباد تھے اور گذشتہ دس برسوں میں مزید پارسی خاندان یہاں سے بیرونِ ملک جا چکے ہیں جس کے بعد یہ تعداد مزید کم ہو چکی ہے۔
 
اگر پرانے کراچی کی بات کریں تو اس وقت زیادہ تر کالونی یا پاڑے (جیسے کہ ہندو یا کرسچن پاڑے) برادری کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے بنائے جاتے تھے۔ اسی طرح پارسی کالونی کے نزدیک پارسی برادری کا فائر ٹیمپل (عبادت گاہ)، سکول، اور کام کی جگہیں موجود تھیں اسی لیے یہ جگہ یہاں رہنے والوں کے لیے اچھی تھی۔
 
سیاسی چپقلش اور جلوس
 
image
 
یہاں ہر گھر کے سامنے اُدھر رہنے والوں کے نام کی تختی لگی ہوئی ہے۔ اور ان گھروں کی تعمیر یورپی طرز کی لگتی ہے۔
 
پارسی کالونی کے بالکل سامنے فرامجی منوالا کی نانی کا گھر ہوا کرتا تھا۔ 1970 کی دہائی میں فرامجی نے اپنا زیادہ تر بچپن وہیں گزارا تھا۔ لیکن اُس وقت بھی پارک میں جانے کا اتفاق بہت کم ہوتا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ 'کیونکہ ہم لوگ آدھے سے زیادہ وقت گھر کے اردگرد بھاگنے اور کھیلنے میں گزار لیتے تھے۔'
 
ان تمام یادوں میں سے ایک واقعہ ایسا ہے جو فرامجی کو کبھی نہیں بھولتے۔
 
فرامجی اور ان کے گھر والے معمول کے مطابق جمعہ کے روز اپنی نانی کے گھر تھے۔ اس گھر سے پارسی کالونی اور ایم اے جناح روڈ صاف نظر آتے تھے۔
 
یہ سنہ 1976 کے آخر کی بات ہے۔ جمعے کی نماز کے بعد اسی پرامن علاقے کے پاس سے ایک جلوس اس وقت کے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف نکالا جا رہا تھا۔
 
’مجھے یہ یاد ہے کہ ہم سب چھت پر چڑھ کر احتجاج کرنے والوں کو دیکھ رہے تھے۔ یہ لوگ بینر اٹھائے ایم اے جناح روڈ سے قائدِ اعظم کے مزار کی طرف بڑھ رہے تھے۔ اسی وقت چند پولیس والے ان احتجاج کرنے والوں کے درمیان گھسے اور فائرنگ شروع کر دی۔ کچھ لوگ جان بچاتے ہوئے پارسی کالونی اور میری نانی کے گھر کی گلی میں گھس آئے۔ جن پر پولیس والوں نے فائرنگ کی۔ ان میں سے دو میری نانی کے گھر اور پارسی کالونی کے بیچ میں بھاگتے ہوئے مارے گئے۔ اور کئی گھنٹوں تک ان کی لاش وہیں پڑی رہیں۔‘
 
image
 
فرامجی نے کہا کہ ’میں یہ نہیں کہوں گا کہ اس واقعے کے بعد ہماری سوسائٹی کو کسی قسم کا خطرہ تھا۔ لیکن یہ ضرور تھا کہ ایک پریشانی ہر وقت ذہن پر سوار رہتی تھی کہ کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ میں اور میرا خاندان ایسا سوچتا تھا کہ اب یہ جگہ بدل رہی تھی۔‘
 
سابق صدر اور فوجی آمر ضیا الحق کے دور کے شروع کے سال تو بہتر رہے لیکن بعد میں ریلیاں اور جلوسوں کی تعداد مزید بڑھ گئی۔ ’ہم نے اسی ایم اے جناح روڈ سے جمہوریت کے حق میں ریلیاں جاتی دیکھیں، ان پر حملے ہوتے دیکھے۔ پھر وہ دور بھی دیکھا جب سڑکیں بند ہونا شروع ہوگئیں۔ کنٹینر رکھے گئے۔‘
 
 
جب ملک کی سیاسی صورتحال مزید خراب ہوئی، اور اس کا براہِ راست اثر ایم اے جناح روڈ کی سڑکوں پر نظر آنے لگا، تو فرامجی کی نانی نے 1980 کی دہائی کے اوائل میں اپنا گھر فروخت کر دیا۔ ’نانی کے گھر کے عین برابر میرے نانا کے بھائی کا گھر ہوتا تھا جو انڈیا میں تھے۔ تو ان کا گھر بھی بیچنا پڑا۔ بعد میں یہ دونوں گھر بِکنے کے بعد توڑ دیے گئے تھے۔‘
 
فرامجی وقت ملنے پر اب بھی پارسی کالونی کا ایک چکّر ضرور لگا لیتے ہیں۔ ’دراصل میری بہت اچھی دوست اب بھی وہاں رہتی ہیں۔ اس کا کافی بڑا گھر ہے وہاں۔ لیکن میں جب بھی جاتا ہوں تو کنٹینر کے گِرد راستہ ڈھونڈنے میں گُم ہو جاتا ہوں۔ تو میری طرح جو پارسی وہاں سے نکل گئے ہیں، وہ اب بہت کم ادھر جاتے ہیں۔ میری امّی 1990 میں آخری بار وہاں گئی تھیں۔‘
 
شیشم کی لکڑی اور خالی گھر
 
image
 
یہاں پہنچتے ہی سب سے پہلے نگاہ ان مکانات کے سامنے بنی بالکونیوں پر پڑتی ہے۔ اب بالکونی کو دیکھ کر دھیان اس پر لگی گرِل پر گیا۔ کہا جاتا ہے کہ کراچی میں جب بھی کوئی پرانا گھر اور خاص طور سے کسی پارسی کا گھر بِکتا یا گِرتا ہے، تو سب سے پہلے یہاں مِڈل مین یعنی ایجنٹ پہنچ جاتے ہیں۔ جوگرِل سے لے کر کُرسی، میز اور دیگر اشیا کا سودا کر لیتے ہیں۔
 
لکڑی کے فرنیچر کا سودا کرنے کے پیچھے یہ وجہ ہے کہ پارسی افراد اپنے گھروں میں شیشم کی لکڑی کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ اور اس کی قیمت گھر بِکتے ہی مارکیٹ میں طے کر لی جاتی ہے۔ اور اس سے پہلے کہ خاندان کے دیگر افراد کو پتا چلے، یہ ہاتھوں ہاتھوں بِک جاتی ہے۔
 
دوسرا طریقہ گھر کا ڈھانچہ ویسے ہی کھڑا رہنے دے کر اسے اندر سے خالی کرنے پر مشتمل ہے۔ اور ایسے گھروں کی تعداد اس کالونی میں بڑھ رہی ہے۔
 
بلڈروں اور قبضہ گروہوں سے بچانے کے لیے اس کالونی کو سندھ کلچرل ہیریٹج پریزرویشن ایکٹ 1994 کے تحت سنہ 2000 کی دہائی میں ایسی جگہوں کی فہرست میں ڈال دیا گیا تھا جن کوگرایا نہیں جا سکتا۔ لیکن اس کے باوجود یہ جگہیں مشکل میں ہیں۔ اور یہاں رہنے والوں میں خوف پایا جاتا ہے۔
 
ماہرِ تعمیرات ماروی مظہر نے بتایا کہ ’پریسرویشن ایکٹ برائے نام ہے کیونکہ زیادہ تر خستہ حال عمارتوں کی بحالی کا کوئی کام نہیں ہو رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں بلڈروں کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ ورثے کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔‘
 
image
 
اب یہاں زیادہ تر گھر خالی ہیں۔ اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پارسی افراد کسی بھی پارسی کے بیرونِ ملک جانے کے بعد ان کا گھر نہیں خریدنا چاہتے۔ فرامجی نے بتایا کہ ’اسی کالونی میں کئی لوگ ایسے بھی تھے جنھوں نے اپنا گھر غیر پارسیوں یعنی ہندو، عیسائی اور مسلمانوں کو بیچ دیا۔ ان تمام لوگوں کے خلاف پارسی کالونی کی انتظامیہ نے قانونی کارروائی کی اور گھروں کی ملکیت چھڑوائی۔‘
 
فرامجی کا کہنا ہے کہ اگلے 30 سالوں میں ان مکانات کا فیصلہ شہر کی انتظامیہ (سٹی گورنمنٹ) کرے گی کیونکہ اگلے تیس سالوں میں یہاں پر پارسی آبادی نہ ہونے کے برابر ہوجائے گی۔ جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا فائدہ ان بلڈرز کو ہوگا جو پہلے سے اس علاقے کے خالی ہونے اور اس کی جگہ عمارتیں کھڑی کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔
 
پارسی کالونی میں ہر دوسرا گھر مکینوں سے خالی ہے اور اس بات کا اندازہ ایسے خالی گھروں کی مخدوش حالت دیکھ کر ہو جاتا ہے۔ انھیں دو گلیوں کے بیچ میں سہراب کیٹرک پارک ہے جو زیادہ تر بند رہتا ہے اور صرف واک کے لیے یا پھر کسی تہوار کے دوران کھولا جاتا ہے۔
 
یہاں کے رہائیشیوں نے ہمیں اپنے گھروں کے اندر داخل ہونے سے تو منع کر دیا لیکن گھر کو باہر سے فلمانے پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔ تو فلم کرتے ہوئے جب پارک کے اندر جانے کا اتفاق ہوا تو بتایا گیا کہ اب اس پارک میں اتنے لوگ نہیں آتے کیونکہ علاقے میں اب زیادہ گھر آباد نہیں ہیں اور اسی طرح کسی تہوار کے دوران اسی پارک میں بنا کمیونٹی سینٹر آباد ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ بیشتر اوقات خالی رہتا ہے۔
 
ان گھروں میں اب ایک ایک دو دو کر کے لوگ رہتے ہیں۔ لیکن کہا جا رہا ہے کہ کچھ عرصے میں یہ بھی یہاں سے چلے جائیں گے۔ یا پھر اپنے گھر بچانے کی تگ و دو میں لگے رہیں گے۔
 
اٹھارویں صدی کے شروع میں ہزار کے قریب پارسی کراچی آئے تھے اور اب ایک بار پھر ان کی تعداد وہیں جا پہنچی ہے۔
 
ان گھروں کا طرزِ تعمیر بھی سب کے سامنے ہے اور ان کی خستہ حالی بھی، یہاں کے لوگ جہاں محتاط انداز میں زندگی گزار رہے ہیں ہے وہیں ان کی کوشش ہے کہ یہاں بنے مکانات کو بلڈروں کی نظروں سے بچایا جا سکے۔
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: