زندگی جینے کے ڈھنگ نرالے ہیں کسی کو کہیں کہ آ لوٹ چلیں
تو کہتے کہ بیٹھ جاؤ اتنی بھی کیا جلدی کچھ دیر تو ٹھہرو۔ اگر بیٹھ جائیں
تو کہتے کہ جانے کا وقت نہیں ہوا ، وقت بھی کبھی کسی کا ہوا ہے۔ جو پوچھ لے
اسے پتہ چل جاتا ہے جو نہ سمجھے تو گزر جاتا ہے۔قلب بس سے باہر ، دل میں
ایک پیاس جو بہاؤ کی طالب ہے۔ایک جنگ میں مبتلا ہیں جہاں دشمن کوئی نہیں ۔
بس روح کے لئے بدن تنگ ہوجاتا ہے۔ جیسے بچہ بڑا ہوتا ہے تو پرانے کپڑے اسے
تنگ ہوتے جاتے ہیں۔ بڑھتے جسم نئے کپڑے میں سماتے ہیں۔ جسم کپڑوں کی مانند
چھوٹا ہو جاتا ہے، روح پھیل جاتی ہے۔ قلب اسمیں ایک ایسے پمپ کا کام کر
تاہے جو پریشر بڑھاتا ہے۔خود تو ایڈجسٹ کر تا ہے مگر بدن کو سہولت دینے پر
راضی نہیں ہوتا۔ اس جنگ کا انجام کیا ہوتا ہے،نہیں جانتے لیکن اتنا ضرور
جانتے ہیں کہ اس میں جسم ہارے گا،روح جیتے گی۔جسم ازل سے ہارتا آرہا ہے ابد
تک ہارتا رہے گا۔ بہت سالوں تک جنگ لڑتے ہیں رشتوں کی قلبی یا ازلی۔ بہت
انتظار کرتے ہیں کہ سفر لمبا ہے مسافت ہمسفروں کی ہمرکابی میں آسانی سے طے
ہو گی لیکن آخر اس مقام تک آ پہنچتے ہیں کہ اکیلے چلنے کا وقت ہونے کا
احساس پروان چڑھتا جا تا ہے۔ ذات کی نفی کا عمل شروع ہو چکا ہوتومیَں نظر
نہیں آتی، انا شکست خوردہ ہو جاتی ہے۔بدن بنجر ایسا ہوتا ہے کہ سمندر بھی
ایک بدن کی تشنگی ختم کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ قرآن بلا تا ہے تو اللہ اپنی
محبت کو سمو دیتاہے۔ ایک ایک آیت اپنی طرف کھینچتی ہے۔ دنیا مجذوب مانگتی
ہے ،اللہ مومن چاہتا ہے جو اس کےکلام کو جزب کر کے پھول کی طرح کھل کر ایک
وقت کے لئے ہر سو پھیل جائے۔ زندگی سے محبت میں کمی پر شک میں نہیں پڑنا
چاہیئے۔اپنی ذات میں جب نہ ہونے کا احساس بڑھ جائے تو ہونے سے کیا تعلق
باقی رہ جاتا ہے۔زندگی پانے اور کھونے کے درمیان معلق رہتی ہے۔ خالی غبارے
زمین پر پڑے پڑےبے کار ربڑ کی صورت رہتے ہیں۔اگر ان میں ہوا بھرتے جائیں تو
وہ اپنے ہم جولیوں میں ایک معمولی اشارے پر اچھلتے کودتے پائے جاتے
ہیں۔خالی اور ہوا بھرے غبارے میں صرف ایک ہی فرق ہے۔ خالی غبارے دھول میں
ایسے رہتے ہیں کہ پاؤں سے مسلے جاتے ہیں اور پھونکوں سے اپنی جگہ سے ہلتے
بھی نہیں ۔ اس کے مقابلے میں ہوا بھرے غبارے اپنی ہمجولی ہوا کے اشارے پر
بھاگتے ناچتے نظر آتے ہیں۔بعض روحوں کے لئے وجود بس ایک غبارے کی مانند ہے،
اس میں اتنی توانائی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ ایک معمولی اشارے پر اپنی منزل
کی طرف محو پرواز ہو جاتی ہے۔جب دنیا کی محبت کے غبارے بڑے ہو جاتے ہیں تو
روح میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ اس میں اتنی ہوا بھر سکے کہ وہ وجود ایک
ہلکے اشارے یا حرکت سے روحوں کے اس گھیراؤ میں بلند ہونے لگے۔ غباروں سے
آزادی کی جنگ میں روح ہوا کی مانند اتنی ہوا اپنے اندر بھر لیتی ہے ایمان
کے پریشر سے کہ وہ اپنے اردگرد اپنے سے زیادہ طاقتور اور بڑی قوت کے مقابلے
میں پرواز کر جاتی ہے۔ جو بچھڑ جاتے ہیں انہیں رک کر تلاش نہیں کیا جاتا
اور نہ ہی انہیں ساتھ چلنے کا کہا جاتا ہے کیونکہ سورج کا کام ہے روشنی
دینا ، فیصلہ زمین نے کرنا ہوتا ہے کہ کس کو کتنی روشنی درکار ہے اور کس کو
اندھیرا۔انسان کتابوں سے گائیڈ لائن لینے کے پابند ہیں لیکن جنہوں نے جنگ
سے زندگی کا آغاز کیا ہو وہ حرب و ضرب کے قائل ہوتے ہیں کتب کے نہیں۔جب
جانے کا وقت ہوتا ہے تو نقارے پر بلاوہ نہیں آتا،پیغام رساں نہیں آتے،احساس
آتے ہیں خیال آتے ہیں۔درخت جب پھیلنے پر آتا ہے تو اسے گھاس سے اجازت کی
ضرورت نہیں ہوتی۔کیونکہ اس نے پھیلنے پر انہیں سایہ دینا ہوتا ہے جو باہر
کی دنیا کی تپش برداشت نہیں کر سکتے۔ قریب رہنے والے دور کب ہوتے ہیں، بس
اس درخت کے سائے سے زرا پرے ہٹ جاتے ہیں۔ کیونکہ انہیں روشنی اپنے قریب ہی
رکھتی ہے ۔ مغز بھری عقل جب اپنی مرضی کر لیتی ہےتو اس کی چلنے کی معیاد
پوری ہو جاتی ہے۔اس کے ہتھیار پھینکنے کا وقت ہو چکا ہو توسوچ فیصلہ کرنے
کا اختیار کھو دیتی ہے۔ یہ چاہت میں کھونے پانے کی جنگ نہیں۔ جینا ہے تو جی
جان سے جینا ہو گا۔پلٹنے، لوٹنے ، سوچنے اور سمجھنے کا پل نہیں جو کسی
مشورے کا پابند ہو گا۔ پابندی نہیں رضامندی ہے جو رضا سے ہے ۔ کوئی پیر
نہیں جو ہدایت کا مرشد ہو، کوئی مرید نہیں جو آستانہ کا مجاور ہو۔یہ عشق کی
جنگ ہے جو قرآن کے لفظوں سے شروع ہوتی ہے اور اس کے مفہوم پر ختم ہوتی
ہے۔جو قیام سے شروع ہو کر قیامت پر ختم ہو گی۔اب فیصلے کا اختیار کسی کے
پاس نہیں۔ جس کو جانتے ہو وہ تمہیں جانتا ہے۔ جس کو پڑھتے ہو وہ تمہیں
پڑھاتا ہے،سمجھنا چاہتے ہو تو سمجھاتا ہے۔ لفظ نہیں تلوار کی دھار ہیں،عرض
نہیں حکم ہے۔کچھ دیکھ چکے باقی دیکھ لیا جائے گا۔ وہ دل نہیں جو خواب سجاتے
رہے۔ ترازو ہاتھ میں دیا تو وزن پورا کرنے کے لئے۔حروف تول کر ملے تاکہ وہ
گندم کے دانوں کی طرح چکی میں برابر پس سکیں۔ چکی کے دو پانسوں میں رکھنے
کو نہیں تھا وہ دانے بن کر رہیں۔پسنے کا وقت دور نہیں ۔ دنیا کے لئے فقط
لفظ ہیں جو سیاہی بن کر کاغذ پر چپک جاتے ہیں۔ لیکن لفظ بونے ، اُگانے ،
کاٹنے اورسنبھالنے تک دانے ہیں لیکن چکی میں گزر کر اپنااصل ظاہر کرتے ہیں۔
دیکھنے والی اور پڑھنے والی آنکھیں الگ الگ ہوتی ہیں۔ پڑھنے والی آنکھیں
خود ہی آ جاتی ہیں اور دیکھنے والی آنکھیں ایک طرف سے نظر ہٹنے پر کسی اور
طرف متوجہ ہو جاتی ہیں۔بتانے اور سمجھانے کی منزلیں تمام ہو جائیں توجسم کا
روح کے سامنےسرنڈر کرنے کا منظر طلوع آفتاب جیسا ہوتاہے ۔ دن کی روشنی
پھیلنے کا آغاز ، جس کی شام نہیں ہوتی۔وجود کہنے سننے کی مشقت سے آزاد ہو
چکا ہو تونعمتیں لذت پر انحصار نہیں رکھتیں۔ مسافر منزل نہیں دیکھتے اور نہ
سفر کی صعوبت، بس ارادہ کرتے ہیں قوت ارادی وہاں تک خود ہی چھوڑ آتے ہیں۔
بہت ایسے جو افسوس میں ہاتھ ملتے رہ گئے۔ کچھ ایسے جو سمجھنے سے قاصر
رہے۔کئی ایسے جو راستوں میں انتظار کے دیپ جلائے بیٹھے رہے۔ہارن بجا بجا کر
متوجہ کرنے کا سفر نہیں کہ مسافر سر پر بار اٹھائے کھڑے ہوں گے۔ خالی ہاتھ
آئے ہیں تو خالی ہاتھ ہی جانا ہے۔ پھرسفر نعمت ہے لذت نہیں۔ کھلے سمندر میں
تیراکی سیکھنے کے لئے نہیں اترا جاتا بلکہ تیراک بن کر اترا جاتا ہے۔جس کے
لئے جو حکم ہے اسے پورا کرنا ہے۔نہ مرضی ہے اور نہ ہی اختیار کہ انکار
ہو۔انکار صرف ان کا جن کی ڈور ڈھیلی ہو۔ جن کی ڈور پہلے سے کھینچی ہوئی
ہوان کا بس ان کے بس میں نہیں،ان میں میَں نہیں۔ ضد انا کے دریا کی کشتی
ہے، جسے ڈوبنا ہوتاہے۔سہارے چپوؤں کی آس پر نہیں رکھے جا سکتے۔ لہریں
بادبانوں کو ہوا ؤں کی سمت سمجھاتی ہیں۔جلد سمجھ جائیں تو جنگ کا فیصلہ
فوری ہو جاتا ہے اگر نہ سمجھیں تو لہریں کشتی کو اپنی مرضی نہیں کرنے
دیتیں۔ کسی نے عقیدت میں آنا ہوتاہے اور کسی نے چاہت میں، کسی نے پانے کی
لگن میں توکسی نے منزل کی تلاش میں، کسی نے حق کو پانے میں توکسی نے راز کو
جاننے میں،کسی نے خوشبو پانے میں تو کسی نے مہکانے میں ،کسی نے دل کے
اطمینان میں تو کسی نے سوچ کے غبار میں ۔ زندگی بھی امانت ہے ، بنانے میں
نبھانے میں سمجھانے میں ، بس ایک خامی بے اختیاری کے ساتھ۔ یہ کوئی بارات
نہیں جو دلہن لینے جائے ڈھول کی تھاپ پہ، یہ فوج ہے جو فتح کے لئے نکلتی
ہے۔
|