#العلمAlilm علمُ الکتابسُورَةُالاَحزاب ، اٰیت 9 تا 15
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یٰایھا
الذین اٰمنوا
اذکروانعمة اللہ
علیکم اذاجائتکم
جنود فارسلنا علیھم
ریحا وجنودا لم تروھا و
کان اللہ بما تعملون بصیرا
9 اذجاءوکم من فوقکم ومن
اسفل منکم واذ زاغت الابصار
وبلغت القلوب الحناجیر وتظنون
باللہ الظنونا 10 ھنالک ابتلی المؤمنون
وزلزلوازلزالا شدیدا 11 واذیقول المنٰفقون
والذین فی قلوبھم مرض ماوعدنااللہ ورسولهٗ
الّا غرورا 12 واذقالت طائفة من ھم یٰاھل یثرب لا
مقام لکم فارجعوا ویستاذن فریق منہم النبی یقولون
ان بیوتنا عورة وماھی بعورة ان یریدون الّا فرارا 13 ولو
دخلت علیھم من اقطارھا ثم سئلواالفتنة لاٰتوھا وما تلبثوابھا
الّا یسیرا 14 ولقد کانوا عاھدوااللہ من قبل لایولون الادبار وکان
عھداللہ مسئولا 15
اے ایمان دار لوگو ! تُم اللہ کی اِس حالیہ مہربانی کو بھی بہر حال یاد
رکھنا کہ جب تُم پر بہت سے لَشکر چڑھائی کر کے آۓ تھے تو ھم نے تیزی کے
ساتھ اُن پر ایک تیز آندھی بھیج دی تھی اور اُن کے اُن خوں آشام لَشکروں پر
اپنے وہ نادیدہ لَشکر مسلّط کر دیۓ تھے جو تُم کو نظر نہیں آتے تھے ، یہ
وہی وقت تھا کہ جب خیبر و نجد سے آنے والے قُرآن دُشمن لشکر نواحِ مدینہ کے
فوقانی راستوں سے مدینے کے تحتانی حصے کی طرف اور مکے سے آنے والے مُشرک
لشکر مدینے کے تحتانی راستوں سے مدینے کے فوقانی راستوں پر چلتے ہوۓ چلے
آرھے تھے اور اللہ دیکھ رہا تھا کہ اُس وقت تُم شہرِ مدینہ کو بچانے کے لیۓ
جو کُچھ کرنا چاہ رھے تھے وہ کسی طرح پر بھی نہیں کر پا رھے تھے کیونکہ اُس
وقت تُمہارے خوف کا یہ عالم تھا کہ تُمہاری آنکھیں ایک سمت پر دیکھتے
دیکھتے پَتھرا گئی تھیں اور آلاتِ جنگ کی جھنکار سُنتے سُنتے تُمہارے دل
تُمہارے پہلو سے اُچھل کر تُمہارے حلق میں آگۓ تھے اور تمہیں کچھ اِس طرح
سے جنجھوڑ دیا گیا تھا کہ تُم اپنی آس اور یاس کی اِس غیر یقینی کیفیت کے
دوران اللہ کے بارے میں بھی طرح طرح کی باتیں کرنے لگے تھے یہاں تک کہ شہر
کے منافق شہری اور بیمار دل لوگ تو کُھلے کُھلے لفظوں میں یہ کہنے لگے تھے
کہ اللہ اور رسُول نے ھم سے فتح و نصرت کے جو وعدے کیۓ تھے وہ سب وعدے ایک
فریب اور ایک سراب ہی تھے ، اسی دوران اہلِ یثرب کی ایک جماعت نے اپنے
لوگوں سے کہا تھا کہ تُم سب یہاں سے واپس چلنے کی تیاری کرو کیونکہ اَب
یہاں پر ھماری جان و مال اور ھماری ہر محفوظ چیز غیر محفوظ ہوچکی ھے ، پھر
اسی وقت ان کی اُن ہی جماعتوں میں سے ایک دُوسری جماعت نبی علیہ السلام سے
یہ کہہ کر گھر جانے کی اجازت چاہ رہی تھی کہ ھمارے گھر خطرے میں ہیں
حالانکہ اُن کے گھروں کو کوئی بھی خطرہ نہیں تھا وہ تو بَس خطرے کا بہانہ
بنا کر صرف اُس متوقع جنگ سے بھاگنا چاہتے تھے جو جنگ اُن کے خیال کے مطابق
کسی بھی آنے والے لَمحے میں اُن پر مسلط ہونے والی تھی ، اگر اُس وقت واقعی
دُشمن شہر میں گُھسے ہوۓ ہوتے تو یہ لوگ اُس وقت وہاں موجُود ہونے کے بجاۓ
اُس دشمن کے ساتھ ہوتے اور اگر وہ دشمن اُن کو اپنے ہی شہر کے اپنے ہی
شہریوں کے خلاف لڑنے پر اُکساتا تو یہ بہت مُشکل سے اُس کا حُکم ٹالتے اور
بہت آسانی سے اپنے شہریوں کے ساتھ لڑنے پر آمادہ ہوجاتے حالانکہ جنگ سے
پہلے یہ ڈٹ کر میدانِ جنگ میں کھڑے ہونے اور جَم کر دشمن سے مقابلہ کرنے کا
اللہ سے وعدہ کر چکے تھے اور اَب جب وہ اُس وعدے سے مُنحرف ہو رھے تھے تو
اُن سے کُچھ نہ کُچھ پُوچھ تاچھ تو ہونی ہی ہونی تھی !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم کی اٰیاتِ بالا میں اللہ تعالٰی نے اُس جنگِ اَحزاب کا ایک
قولی منظر پیش کیا ھے جس جنگِ اَحزاب کی دُور رَس اہمیت کی بنا پر اللہ
تعالٰی نے اِس سُورت کا نام سُورَةُالاَحزاب رکھا ھے اور قُرآنِ کریم کے
پیش کیۓ ہوۓ اِس سَچے قولی منظر سے اِس بات کا بھی بخوبی اندازہ لگایا
جاسکتا ھے کہ اُس جنگ کا عملی منظر کیا ہو گا کہ جس جنگ میں عرب و نواحِ
عرب کے سارے جنگ جُو قبائل نے مل کر ایک چھوٹی سی بستی کی اُس چھوٹی سی
حکومت پر اِس عزم کے ساتھ حملہ کردیا تھا کہ وہ اُس وقت تک اپنے گھروں کو
لوٹ کر نہیں جائیں گے جب تک وہ اِس بستی کو صفحہِ ہستی سے نہیں مٹا دیں گے
کیونکہ اُن کی نظر میں اُس بستی کا واحد "جُرم" یہ تھا کہ اُس بستی میں
قائم ہونے والی وہ چھوٹی سی حکومت قُرآن کے نام پر قائم ہوئی تھی اور کفر
کی اُس ملّتِ واحدہ نے یہُود کی مدد سے یہ بات اُسی دن طے کرلی تھی کہ سب
سے پہلے تو اُس نے قُرآن کے نام پر بننے والی یہ قُرآنی حکومت ختم کرنی ھے
جو مدینے میں قائم ہو چکی ھے اور اُس کے بعد زمین پر جب کبھی بھی اور جہاں
کہیں بھی قُرآن کے نام پر کوئی جماعت قُرآنی حکومت قائم کرنے کی کوشش کرے
گی تو اُن اَقوام کے سارے قبائل مُتحد ہو کر اپنے سارے عالمی و علاقائی
وسائل کے ساتھ اُس جماعت کے خلاف اِس طرح صف آرا ہوجائیں گے کہ اُن کی اِس
سیاسی و حربی اور معاشی معاشرتی مزاحمت کے باعث قُرآن کی وہ مجوزہ حکومت
اپنے قیام سے پہلے ہی اپنے اَنجام کو پُہنچ جاۓ گی تاہَم ہجرتِ مکہ کے بعد
مدینے میں قُرآن کی حکمرانی قائم کرنے کے لیۓ سیدنا محمد علیہ السلام نے جو
حکومت قائم کی تھی وہ حکومت آنے والے پانچ سو برس تک اہلِ کفر و نفاق کی ہر
مزاحمت کے باوجُود بھی علم و عمل کے ہر میدان میں مُسلسل ترقی کرتی رہی
لیکن جب اُس حکومت کے سیاسی و عسکری شُعبے میں صوفی و مُلا کو شامل کیا گیا
تو حکومت کے عملی امور اہلِ علم و عمل کے بجاۓ صوفیوں اور ملنگوں کی جھاڑ
پھونک ، ورد و ظیفے اور تعویذ دھا گے سے ہونے لگے تو قُرآن کی وہ حکومت اِس
طرح ختم ہوگئی کہ اُس وقت سے لے کر اِس وقت تک کبھی بھی اپنی اُس شان کے
ساتھ قائم نہیں ہوسکی ، جہاں تک اُس جنگ کا تعلق ھے تو اُس جنگ کا حربی
نقشہ یہ تھا کہ اُس وقت مدینے کی قُرآنی حکومت کے پاس عملی جنگ کا سامنا
کرنے والے صرف تین ہزار جنگ جُو اَفراد موجُود تھے اور جو لشکر بزعمِ خود
اِن تین ہزار اَفراد کو فنا کے گھاٹ اُتارنے کے لیۓ آۓ تھے اُن کا ایک لشکر
قبائل بنی نضیر و بنی قنقاع کے ساتھ مدینے کے شمال میں پُہنچا ہوا تھا ،
مدینے کے جنوب میں قریشِ مکہ اپنے حلیفوں کے ہمراہ برجمان تھے ، مدینے کے
مشرق میں قبائلِ عطفان و بنی سلیم ، بنی اشجع و بنی فزارہ اور بنی سعد و
بنی اسد تھے وغیرہ تھے جن کی فکری رہنمائی خیبر کے وہ یہودی قبائل عطفان و
ہذیل اور قریشِ مکہ کر رھے تھے جو اپنے عسکری ماہرین کے ہمراہ اِن قبائل کے
ساتھ موجُود تھے جن کی مجموعی تعداد بارہ ہزار کے لگ بھگ تھی اور یہ وہ
تعداد تھی جو تعداد اِس سے پہلے عربوں کی کسی اور جنگ میں کبھی جمع نہیں
ہوئی تھی ، اگر مدینے پر اُن کا حملہ حکومتِ مدینہ کی بیخبری میں ہوجاتا تو
ایک بہت بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا لیکن نبی اکرم کو چونکہ اِس حملے
کی اور اِس حملے کے شرکاۓ حملہ کی نقل و حرکت کی ساری اطلاعات اِن کے آنے
سے پہلے ہی مل چکی تھیں اِس لیۓ جب آپ نے جنگی نقطہ نظر سے اپنے شہری و
ریاستی دفاع کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ مدینے کے جنوب میں گھنے باغات کی
اتنی کثرت ھے کہ کوئی فوج ان باغات کی قدرتی رکاوٹوں کو عبور کر کے مدینے
پر حملہ آور نہیں ہو سکتی ، مدینے کے مشرق میں لاوے سے بنی ہوئی وہ خطرناک
چٹانیں کھڑی ہیں جن سے گزر کر مدینے تک پُہنچنا کفر کے اُن لشکروں کے بس سے
باہر ھے اور اہلِ کفر کے اُن لشکروں کے لیۓ یہی مُشکل صورتِ حال مدینے کے
جنوبی گوشے میں بھی موجُود ھے اور اِس صورتِ حال کے مطابق مدینے پر جو حملہ
ہو سکتا تھا وہ صرف مدینے کی مشرقی یا مغربی سمت سے ہی ہو سکتا تھا اِس لیۓ
سیدنا محمد علیہ السلام کی دفاعی حکمتِ عملی کے تحت اِس سمت میں اہلِ شہر
نے ایک خندق کھود کر حملہ آوروں کو شہر سے باہر رُکنے پر مجبور کردیا تھا ،
کفار کا یہ بارہ ہزاری لشکر تو اِس منصوبے کے ساتھ یہاں آیا تھا کہ وہ چند
دنوں میں ہی شہرِ مدینہ کو تاخت و تاراج کرکے خوشی کے شادیانے بجاتا ہوا
واپس چلا جاۓ گا لیکن اُس کو یہاں پُہنچ کر اندازہ ہوا کہ یہ کام اتنا آسان
ہر گز نہیں ھے جتنا کہ انہوں نے سمجھ لیا ھے اِس لیۓ چار و ناچار اُن کو
شدید سردی کے موسم میں شہر کا محاصرہ کر کے وہاں بیٹھنا پڑا ، اِس وقت اُن
کا آخری سہارا مدینے میں آباد وہ متمول یہودی تھے جو مدینے کے شہریوں میں
خوف و ہراس پھیلا کر اُن کو دفاعی جنگ سے دُور کر سکتے تھے یا خوراک کے
ذخیرے روک کر اہلِ شہر کو فاقہ زدگی پر مجبور کر سکتے تھے اور ایک ماہ کے
محاصرے کے دوران شہر کے اِن منافقینِ شہر نے شہر میں جو کُچھ کیا تھا اُس
کی ساری تفصیل اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا میں موجُود ھے اور اِس تفصیل کے
مطابق اللہ تعالٰی نے جب اہلِ اسلام کو پُوری طرح جھنجھوڑ دیا اور شہر کے
سارے اہلِ ایمان نے منافقینِ شہر کو پُوری طرح جان پہچان بھی لیا تو اُن کی
اِس ذہنی و فکری بیداری کے بعد للہ تعالٰی نے اُن کی اِس طرح مدد کی کہ
مدینے پر جو اَحزاب حملے کے لیۓ آۓ تھے اُن اَحزاب پر ایک ایسی طوفانی
آندھی چلا دی کہ جس نے اُن کے خیموں کو اُکھاڑ دیا ، اُن کی ہانڈیا اُلٹ
دیں ، اُن کے جانور رسیاں توڑ کر بھاگ نکلے اور اُن بھاگتے ہوۓ جانوروں کے
ساتھ مُتکبرین کے وہ بھاگوان لشکر اور بھاگوان لشکری بھی میدان چھوڑ کر
بھاگ گۓ !!
|