#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالاَحزاب ، اٰیت 16 تا 20
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
قل
لن ینفعکم
الفرار ان فررتم
من الموت اوالقتل واذا
لاتمتعون الّا قلیلا 16 قل من
ذالذی یعصمکم من اللہ ان ارادبکم
سوء اواراد بکم رحمة ولایجدون لھم من دون
اللہ ولیا ولانصیرا 17 قد یعلم اللہ المعوقین منکم و
القائلین لاخوانھم ھلم الینا ولایاتون الباس الّا قلیلا 18 اشحة
علیکم فاذاجاءالخوف رایتھم ینظرون الیک تدور اعینھم کالذی یغشٰی
علیه من الموت فاذا ذھب الخوف سلقوکم بالسنة حداد اشحة علی الخیر
اولٰئک لم یؤمنوا فاحبط اللہ اعمالھم وکان ذٰلک علی الیسیرا 19 یحسبون
الاحزاب
لم یذھبوا وان یات الاحزاب یودوا لوانھم بادون فی الاعراب یسئلون عن
انبائکم ولوکانوا
فیکم ماقٰتلواالّا قلیلا 20
اے ھمارے رسُول ! آپ اپنے باشندگانِ ریاست سے کہہ دیں کہ تُم میں سے جو شخص
موت سے بھاگنا چاہتا ھے وہ ضرور بھاگے لیکن تُم میں سے کسی کا موت سے
بھاگنا اپنی موت کو نہیں ٹال سکتا کیونکہ موت سے بھاگنے کے بعد بھی تُم کو
زندگی کی اِن لذت آفرینیوں سے فائدہ اُٹھانے کا کُچھ زیادہ موقع نہیں ملے
گا کیونکہ جو لوگ موت سے ڈرتے ہیں موت اُن کے تعاقب میں رہتی ھے اور لَمحہِ
موت آتے ہی اُن کو دبوچ لیتی ھے ، جہاں تک ایک زندہ انسان کو ملنے والے نفع
و ضرر کا تعلق ھے تو اگر اللہ تمہیں کوئی نقصان پُہنچانا چاھے تو اُس نقصان
سے تمہیں کوئی بھی نہیں بچاسکتا اور اگر اللہ تُم کو کوئی نفع دینا چاھے تو
اُس کی اِس رحمت کو بھی تُم تک آنے سے کوئی نہیں روک سکتا کیونکہ اللہ کے
مقابلے میں تُمہارا کوئی بھی مؤثر حمایت کار اور مددگار نہیں ھے ، اللہ تُم
میں سے ہر اُس شخص کو جانتا ھے جو اِس سلامی ریاست کے دفاع میں رکاوٹیں
ڈالتا ھے اور جو اپنے قبیلے کے اَفراد سے کہتا ھے کہ محاذِ جنگ پر آگے نہ
جاؤ بلکہ پہلی صفوں میں جانے کے بجاۓ پچھلی صفوں میں ھمارے آس پاس رہ کر
خطراتِ جنگ سے بچے رہو اور اِن میں سے جو لوگ اِس جنگ میں شامل ہونا چاہتے
ہیں تو وہ بھی صرف اپنا نام لکھوانا چاہتے ہیں ورنہ تُمہارا ساتھ دینے میں
تو یہ سدا کے بخیل ہیں ، اِن لوگوں کا قلبی و عملی اَحوال یہ ھے کہ جب تُم
خطرات میں گھرے ہوتے ہو تو یہ اپنے دیدے گھما گھما کر تمہیں اُس قریب المرگ
انسان کی طرح دیکھ رھے ہوتے ہیں جس پر موت کی غشی طاری ہوتی ھے لیکن جب تُم
خطرے سے نکل آتے ہو تو یہ حریص لوگ اپنی زبانی ہمدردیوں کے ساتھ تمہیں داد
و تحسین دینے کے لیۓ بھی پُنہچ جاتے ہیں اِس لیۓ کہ یہ لوگ قُرآن پر کبھی
ایمان ہی نہیں لاۓ تھے ، اسی لیۓ اللہ نے اِن کے وہ دکھاوے کے اعمال بھی
فورا رَد کر دیۓ ہیں جو انہوں نے جنگ میں اپنی حاضری دکھانے کے لیۓ دکھاۓ
تھے اور یہ لوگ تو ابھی تک اِس غلط فہمی میں مُبتلا ہیں کہ مُسلم ریاست پر
حملے کے لیۓ آنے والے کافر ابھی تک یہیں کہیں پر موجُود ہوں گے اور یہ اُن
کے دوبارہ حملہ آور ہونے کے خوف سے دل ہی دل میں خود سے یہ بھی کہتے ہیں
کاش کہ وہ اِس جنگ میں گھرنے والے شہر کے شہری نہ ہوتے بلکہ کسی صحرا کے
صحرائی باشندے ہوتے اور وہ وہیں پر رہ کر تُمہارے بارے میں جاننے کے لیۓ
آنے جانے والوں سے یہ پوچھتے کہ اُس محصور شہر کے محصور شہریوں پر کیا گزری
جن کو فنا کے گھاٹ اُتارنے کے لیۓ عرب کے بڑے قبائل نے اُن پر ایک اجتماعی
حملہ کیا تھا اور ان کے شہر کو اپنے محاصرے میں لے لیا تھا لیکن اگر یہ
ناکارہ لوگ ذہنی و جسمانی طور پر بھی تُمہارے درمیان موجُود بھی رہتے تو یہ
اِس عملی جنگ میں ایک براۓ نام کی شرکت کے سوا کُچھ بھی نہ کر پاتے اِس لیۓ
اِن لوگوں کا تُم سے دُور رہنا ہی تُمہارے لیۓ بہتر ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
جنگِ اَحزاب کے آغازِ کلام میں اللہ تعالٰی نے اہلِ ایمان سے یہ ارشاد
فرمایا تھا کہ تُم اللہ تعالٰی کی اِس حالیہ مہربانی کو ہمیشہ یاد رکھنا کہ
جب تُم پر کفر کے بہت سے لشکر چڑھ آۓ تھے تو ھم نے بہت تیزی کے ساتھ اُن پر
ایک تیز آندھی بھیج دی تھی اور اُن کے خوں آشام لشکروں پر بھی اپنے وہ
نادیدہ لشکر مُسلّط کر دیۓ تھے جو تُم کو نظر نہیں آتے تھے لیکن وہ پوشیدہ
لشکر پوشیدہ رہ کر وہ سارے کام کر رھے تھے جو ھم نے اُن کے سپرد کیۓ تھے ،
قُرآنِ کریم کا یہ اُسلوبِ کلام عالَم کے عالی اَدب کا وہی معروف اُسلوبِ
کلام ھے کہ جب ایک سُنانے والے کے پاس سُنانے کے لیۓ بہت سی خبریں جمع
ہوجاتی ہیں تو وہ سُننے والوں کو سب سے پہلے سب سے بڑی خبر سُناتا ھے اور
اُس خبر کے بعد اُن کو وہ دُوسری خبریں سُناتا ھے جن کا سُنانا مطلوب ہوتا
ھے ، قُرآنِ کریم کے اِس عالی اُسلوبِ کلام سے بہت سے اہلِ علم نے یہ سمجھا
ھے کہ مدینے پر جو حملہ آور حملہ آور ہوۓ تھے وہ شاید ایک ماہ تک شہر کے
باہر بنی ہوئی ایک خندق کے پار یوں ہی بیٹھے رھے تھے اور ایک ماہ کے بعد
اللہ تعالٰی نے اُن پر وہ آندھی بھیج دی تھی جس آندھی نے اُن کو تتر بتر کر
دیا تھا اور وہ تتر بتر ہو کر بھاگ گۓ تھے لیکن عملی جنگ کی عملی صورتِ حال
انسان کے اِس خیالی نقشے سے بالکُل مُختلف ہوتی ھے اور جو اِس طرح ہوتی ھے
کہ جنگ کے اِس پُورے عرصے میں جنگ کا اَقدام کرنے والے اور اُن کے جنگی
اَقدام کا دفاع کرنے والے دونوں لشکر وقت کے ہر آتے جاتے لَمحے میں ایک
دُوسرے کے خلاف کُچھ نہ کُچھ کرتے رہتے ہیں اور جنگِ اَحزاب میں بھی ایک
ماہ کے محاصرے کے دوران یہی کُچھ ہوا تھا جو ہر ایک پیش قدمی اور دفاع کی
جنگ میں ہمیشہ ہی ہوتا رہتا ھے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ھے کہ کفر کے اُن
لشکروں کے آنے کے بعد اور کفر کے اُن لشکروں پر آندھی آنے سے پہلے جو جنگ
ہوئی تھی وہ کوئی بھر پُور جنگ نہیں تھی بلکہ وہ جنگ کی ایک اُڑتی ہوئی
چنگاری تھی جو کبھی ایک سمت میں آتی تھی اور کبھی دُوسری سمت میں چلی جاتی
تھی اِس لیۓ اِس جنگ کا جو حقیقی اور خوفناک منظر تھا وہ شہر سے باہر بنی
اُس خندق کے باہر نہیں تھا بلکہ اُس خندق سے بہت دُور شہر کے اندر تھا اور
جنگ کے اُس محاذ پر منافقین کے وہ اَحزاب تھے جن کے سامنے سیدنا محمد علیہ
السلام اللہ تعالٰی کی اُس یاد گار وحی کی مدد سے تَنِ تنہا لڑ رھے تھے جس
یاد گار وحی کا اٰیات بالا میں ذکر ہوا ھے ، اِن اٰیات سے پہلی اٰیات میں
قُرآنِ کریم کا وہ بیان گزر چکا ھے کہ مدینةالنبی کے محاصرے کے دوران
مدینةالنبی میں منافقین کی ایک جماعت وہ تھی جو اہلِ ایمان کے درمیان بد
دلی پھیلانے کے لیۓ کُھلم کُھلا یہ کہتی پھر رہی تھی کہ اللہ تعالٰی اور
اُس کے رسول نے فتح و نصرت کے ھم سے جو وعدے کیۓ تھے اُن وعدوں کی حقیقت
ایک فریب اور سراب سے زیادہ کُچھ بھی نہیں تھی ، اِس منافق جماعت کی یہ
باتیں سُن کر ایک دُوسری منافق جماعت نے اپنی جماعت میں یہ اعلان کر دیا
تھا کہ یہ ایک ایسی بے حاصل جنگ ھے جو ھماری جان تو لے سکتی ھے لیکن ہمیں
کوئی نفع ہر گز نہیں دے سکتی اِس لیۓ ھم اِس جنگ سے الگ ہو چکے ہیں اور
اپنے جوانوں کو بھی اِس جنگ سے الگ کر رھے ہیں ، ایک تیسری جماعت اپنے اِس
مطالبے کے ساتھ نبی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوگئی تھی کہ شہر و نواح
شہر میں بیرونی دشمنوں کی اِس یلغار سے ھمارے گھر غیر محفوظ ہو چکے ہیں اِس
لیۓ ہمیں اجازت دی جاۓ کہ ھم میدانِ جنگ چھوڑ کر اپنے گھروں کو جائیں اور
اپنے اہلِ خانہ کی جانیں بچائیں حالانکہ اُن کے گھر بالکُم محفوظ تھے اور
اُن سابقہ اٰیات کے بعد اِن اٰیات میں اُس چوتھی منافق جماعت کا ذکر کیا
گیا ھے جو بظاہر تو اہلِ اسلام کے ساتھ تھی لیکن وہ محاذِ جنگ پر آگے بڑھ
کر کھڑی ہو نے کے بجاۓ محاذِ جنگ سے پیچھے ہٹ کر کھڑی تھی اور اپنے قبیلے
کے جوانوں کو بھی آواز دے کر اپنے آس پاس آنے اور اپنے آس پاس رہنے کی
تاکید کر رہی تھی اور اٰیاتِ بالا میں اُس منافق جماعت کا جو منافقانہ
اَحوال بیان کیا گیا ھے اُس سے اندازہ ہوتا ھے کہ منافقین کی یہ جماعت سب
سے زیادہ خطرناک جماعت تھی اور یہ اپنے اِس خیال اور اپنی اِس خواہش کے تحت
یہاں پر رُکی ہوئی تھی کہ شاید منافقینِ یہود کے دُوسرے چھوٹے بڑے قبائل کو
جمع کر کے اور اُن کو ایک بڑی مسلّح قوت بنا کر مسلمانوں کے مقابلے میں لا
سکے اور وہ اِس مسلّح بغاوت کے زور سے مسلمانوں کو مدینے سے نکال باہر کریں
، غور کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ قُرآن کی اِس قُرآنی حکومت کے ساتھ
لڑنے والے جتنے اَحزاب شہر کے باہر تھے کم و بیش اتنے ہی اَحزاب شہر کے
اندر بھی موجُود تھے ، اِن اَحزاب میں جو جوہری فرق تھا تو صرف یہ تھا کہ
شہر کے باہر اہلِ کفر کے جو اَحزاب کھڑے تھے اُن کے سامنے ایک خندق تھی جو
اُن کو روکے ہوۓ تھی اور خندق کے بعد تین ہزار اَفراد کا وہ لشکر بھی تھا
جو کسی خاص طریقے سے خندق عبور کرنے والوں کو اپنے خاص طریقے کے ساتھ جہنم
رسید کر سکتا تھا لیکن شہر کے اندر اہلِ نفاق کے جو منافق اَحزاب سرگرمِ
عمل تھے اُن کے خلاف اُس محاذ پر سیدنا محمد علیہ السلام کی اپنی ذات تھی
اور آپ نے تَنِ تنہا ہی اللہ تعالٰی کی مدد سے قبائل کے وفاق میں چُھپے ہوۓ
اِن اہلِ نفاق کے سارے لشکروں کو شکست دی تھی !!
|