|
|
پاکستان کی معیشت میں صنعتی میدان خاصہ نظر انداز ہوا،
اس حوالے سے جو اقدامات پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں اٹھائے گئے تھے، 70
کی دہائی میں ان کا رخ بالکل تبدیل کردیا گیا- انڈسٹریلائزیشن کو
نیشنلائزیشن کا انجکشن کیا لگا، ملک کی سمت ہی الٹی ہوگئی- |
|
یہ سفر آج تک انگریزی کے Suffer کے ساتھ جاری ہے، صنعتیں
لگنے سے ایک جانب ملک کا ذر مبادلہ بچایا جاسکتا ہے، دوسری جانب بے روزگاری
کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔لیکن معیشت میں ایک اور عنصر نہایت اہمیت کا حامل
اس کو افرادی قوت کہا جاتا ہے- افرادی قوت کی ضرورت ان ملکوں میں ہوتی ہے
جہاں آبادی کم ہو، وسائل زیادہ ہوں، ان حالت میں جب ملک میں سرمایہ کاری کی
کمی ہورہی ہو، آبادی کو بہتر مواقع مہیا کرنے کے لئے ضروری ہے، کہ ملک میں
اسکلڈ یعنی ایسی افرادی قوت پیدا کی جائے جو کام میں مہارت رکھتے ہوں- |
|
اس وقت پاکستان میں افرادی قوت کو ٹریننگ دینے کے ادارے
ضرورت کے مقابلے میں کم ہیں، جو ہیں ان کا معیار بھی بہتر بنانے کی ضرورت
ہے- اس حوالے سے ان ممالک سے مدد لی جاسکتی ہے جو صنعتی میدان میں آگے ہوں،
پھر جہاں کسی مخصوص کام کی کھپت ہو- مثلاً مڈل ایسٹ پاکستانیوں کے ساتھ
ساتھ دیگر ایشین ممالک کو مناسب روزگار مہیا کر سکتا ہے- |
|
|
|
تربیت یافتہ اسکلڈ لیبر ایک تو جہاں سے بھی روزگار حاصل
کرتے ہیں ان کی آمدنی غیر تربیت یافتہ لیبر سے زیادہ ہوتی ہے، جس سے نہ صرف
پاکستان میں موجود ان کے خاندان والوں کا معیار زندگی بہتر ہوجاتا ہے، وہ
ملک کے لئے زرمبادلہ کا ذریعہ بھی بن جاتے ہیں۔ |
|
پھر ایک اور پہلو یہ بھی ہے جس ملک میں کسی اور ملک کے
باشندے کافی تعداد میں کام کر رہے ہوتے ہیں، وہ وہاں کی معاشرت پر ضرور اثر
ڈالتے ہیں، اس حوالے سے کسی اور بلاگ میں ضرور بات کریں گے، اب پاکستانی
اسکلڈ لیبر کی بات کرتے ہیں- |
|
اسکلڈ لیبر کا صنعت کے ساتھ تعلق جوڑنے کی شدید ضرورت ہے،
جو نصاب پاکستانی پولی ٹیکنیکل اسکولز میں پڑھایا جارہا ہے، ایک تو اس کو
اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے، پھر اسکو صنعت ، زراعت سے منسلک کرنے کی ضرورت ہے۔ |
|
اسی سال پاکستان نے بھارت اور بنگلا دیش جیسے ملکوں کو
مین پاور ایکسپورٹ کی فیلڈ میں پیچھے چھوڑا،( بحوالہ ایکسپریس ٹریبیون اور
ڈان ، تاریخ15 جون2021 ) نے جو خبریں لگائیں وہ اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ
ابھی پاکستان کا پوٹیشل زیادہ، جب اتنے برے حالات میں پاکستان ریجن کے
ممالک میں سب سے آگے آگیا، وہ بھی کرونا کے بعد کھلنے والی عالمی منڈی میں
تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اور ایسے ادارے آگے آئیں، اس سے ملک کی
افرادی قوت ایک تو زیادہ ٹرینڈ ہو جائے گی- |
|
|
|
دوسرا اس کی ایکسپورٹ یعنی بر آمد کرنے سے ملک میں بے
روزگاری کے خاتمے کا امکان ہو جائے گا- دوسری جانب زر مباددلہ جو اس وقت
وطن عزیز کی شدید ضرورت ہے اس میں بھی خاطر خواہ اضافہ ممکن ہوگا، لیکن شرط
اسکلڈ لیبر کی ہی رہے گی،بحوالہ ڈان 2019 میں پاکستانیوں میں تقریباً 87
فیصد ورکرز عرب امارات اور سعودی عرب گئے- |
|
یہ ایک بہت بڑا فگر ہے،لیکن سوال یہ ہے کہ صرف مڈل
ایسٹ ہی کیوں یورپین مملک اور دیگر ترقی یافتہ ایشین ممالک بھی ہیں جو
معیاری اسکلڈ لیبر حاصل کرنا چاہتے ہیں- اس پر کام کیا گیا تو پاکستانی قوم
کی شناخت محنتی اور بہترین لوگوں میں ہوگی، جو ملک کے وقار میں اضافے کا
سبب بھی بنیں گے۔یورپین ممالک میں پاکستانی لیبر بالکل جاسکتی ہے، صرف دو
معاملات پر دھیان دینے کی ضرورت ہے- ایک تو یورپین مملک کی زبانیں مختلف
ہیں، دوسرا سفری معاملات مہنگے ہیں، اس حوالے سے بہتر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ |
|
سوئٹزلینڈ، سنگاپور، سوئیڈن، ڈنمارک، آسٹریلیا وہ ممالک
ہیں جہاں آبادی کم ہے اور بجائے وہاں پاکستانی جعلی اور غیر قانونی طریقوں
سے جائیں، وہیں بہتر طریقوں سے بھیجا جائے گا تو کوئی وجہ نہیں کہ محنتی
پاکستانی اپنا نام اونچا کر سکیں۔ یہ نا انصافی ہوگی اگر اس حوالے سے
موجودہ حکومت کے پروگرام کامیاب جوان پروگرام کا ذکر نہ کیا جائے، کم ترقی
یافتہ علاقوں کے لوگوں کو بہتر تربیت کے مواقع فراہم کرنے سے ان پسماندہ
علاقے کے لوگوں میں جہاں حالات سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگی ، وہیں
انکو بہتر موقع مہیا کرنے سے پسے ہوئے طبقات میں محرومی میں کمی آئیگی۔ |