کیا یہاں غریب بچوں کے لئے سکول ہے؟

السلام و علیکم !

سر فضل ایک ٹیچر اور راقم الحروف ایک کمرے کے سکول میں بچوں کو لے کر پڑھارہے تھے کہ اچانک ایک دروازے پر گول مٹول، سرخ گالوں اور چمکتی آنکھوں اور چوڑے شانوں والے بچے نےبا آواز بلند کہا
سر فضل نے کہا: ہاں جی
اس بچے نے سنتے ہی اپنے اوزار دروازے کی سائیڈز پر رکھے اور جوتے اتار کر اندر داخل ہو گیا۔
حلیے سے لگ رہا تھا کہ کہیں مزدوری کر کہ آیا۔
دو منٹ کی خاموشی کے بعد سر کو کہنے لگا!! سر میں نے بھی پڑھنا ہے (آوازولہجہ سے پٹھان لگ رہا تھا)
میرا نام لکھ لیں۔
سر: آپ کا نام کیا ہے۔
بچہ: افضل خان سر
سر: آپ کے ابو کیا کرتے
بچہ: نہایت پریشان ہوا اور پھر ہمت جمع کر کہ با اعتماد ہو کر کہا میرا والد فوت ہو چکا ہے۔
سر: اور آپ کی امی
بچہ: وہ گھروں میں کام کرتی ہے۔ اور میں صبح مالی کا کام کرتا ہوں شام کو ردی اکھٹا کرتا ہوں اور بیچ دیتا ہوں۔ ماں کو کینسر ہوگیا ہے اس کا علاج بھی کرانا ہے۔
سر: تو آپ سکول کیسے آؤ گے؟ سر نے استفسارکیا۔
افضل: سر دوپہر 11 بجے سے 3 بجے تک کا ٹائم نہیں ہے آپکا؟
سر: جی
افضل: بس اس وقت میں ٹائم نکال لونگا۔ آپ مجھے پڑھالیں مجھے بہت شوق ہے پڑھنے لکھنے کا۔
(10 گیارہ سال کے بچے کا علمی ذوق اور تعلیم کے شوق کو دیکھ کر سب دنگ رہ گئے۔ )
یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ سرکاری سکولوں کے باوجود 3کروڑ بچے تعلیم سے دور اور چائلڈ لیبر کا شکار ہیں۔ ہر دوکان، ہوٹل اور ٹھیلے پر ملنے والے چھوٹے استاد اصل میں گھر والوں کے بڑے ہوتے ہیں۔ جو اپنے نحیف و نازک کندھوں پر پورے کنبے کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف ارباب اختیار نیب NAB, ایف آئی اے اپوزیشن کے چکروں سے نکلتے ہی نہیں کہ اس پر کام کر سکیں۔ جس طرح خوابوں کی روشنی افضل کے آنکھوں میں چمک رہی تھی ۔ خدانخواستہ اگر یہ آنکھیں نا امید ٹوٹی اور گردش ایام میں خواب دیکھنا بھول گئ تو یاد رکھیے ہمارا مستقبل بہت تاریک ہے۔
اوپر مزکور سکول اصل میں "نور سکول" ہیں جو نوجوان طلبہ و طالبات کی اپنی سی کوشش Qalam movement کا حصہ ہے۔ جس کا مقصد بچوں کے ہاتھوں سے جھاڑو چھین کر قلم تھمانہ ہے۔ اور اس صدقہ جاریہ کاانعقاد نائلہ خان مروت نے اپنے بھائی سر فضل کے ساتھ مل کر کیا۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے لوگ ملتے رہے اور کارواں بنتا گیا۔ آج اسلام آباد کے چھ کچی بستیوں میں Noor school شروع کیا جا چکا ہے۔ راقم الحروف بھی اسلامی یونیورسٹی سے اس کارہائے نمایاں کے لئے ایمبیسیڈر رہی ہے۔
میری دعا ہے کہ اس ملک کا ہر بچہ تعلیم حاصل کرے۔ اس لئے حکومت کو چاہئے میٹرک تک تعلیم مفت توکی ہے مگر شام کی شفٹ لگا کر ایسے سکول شروع کیے جائیں جہاں افضل جیسے چھوٹے استاد جو صبح نہیں پڑھ سکتے شام میں پڑھ لکھ کر بڑے استاد بن سکیں۔
دیگر تعلیمی اخراجات،ٹرانسپورٹ کو بھی مفت کیا جائے اور تعلیمی بجٹ کو مزید بڑھایا جائے۔ ارباب اختیار اس معاملے میں بھرپور کام کرے جس طرز پر لنگر خانے بنائے ہیں ہر کچی بستی کے ساتھ ایک سکول بنایا جائے اور یونیورسٹی کے طلبہ و طاپبات خصوصاً ایجوکیشن کے بچوں کو یہاں عارضی انٹرنشپ ٹیچر بھرتی کیا جائے۔ اور اسے ڈگری لینے کے لیے لازمی قرار دیا جائے ۔
یاد رکھیں اس قوم کو لنگر سے زیآدہ علم کی ضرورت ہے
سبق پھر پھڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا۔


حفصہ اکبر saqi
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی
آسلام آباد

 

Hafsa Saqi
About the Author: Hafsa Saqi Read More Articles by Hafsa Saqi: 49 Articles with 49500 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.