میں ناراض ہوں! میں کیا ہر وہ شخص ناراض ہے جو سرزمین
بلوچستان سے محبت و عقیدت رکھتا ہے۔
اور میں ناراض کیوں نہ ہوں جب میری سرزمین کا تعلیم یافتہ طبقہ سڑکوں پر ہو
اور غیر تعلیم یافتہ طبقہ اسمبلی میں بیٹھا ان کے لیئے قانون سازی کرتا ہو۔
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب ساٹھ (60) کروڑ کیوبک فٹ گیس دینے والی سوئی گیس
کے مالکوں کو بدلے میں ایک میڈیکل یونیورسٹی بھی نہ دی جا سکے۔
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب میرے بچوں کے تاریخ کے نصاب میں میرے بلوچستان کا
ذکر بھی نہ ہو۔
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب حق بولنے والے اور سچ کا ساتھ دینے والے پابند
سلاسل ہوں اور ظلم و جبر کی انتہا کرنے والے دندناتے پھر رہے ہو۔
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب میرے صوبے کی حکومت منشیات پہ پابندی سے زیادہ
ڈیزل کے فروخت پہ پابندی لگانے کو ترجیح دیتی ہو۔
میں ناراض کیوں نہ ہوں کہ ہمارے تعلیمی ادارے ہماری بہنوں کے لیئے محفوظ نہ
رہے ہوں اور ان کے محافظ ہی ان کی عصمتیں تار تار کرتے ہو۔
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب میری سرزمین کے کروڑوں روپے مالیت کے معدنیات کو
سیاست دان اپنے سیاسی مفاد کے لیئے کوڑیوں کے دام بیچ دیتے ہو۔
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب ہسپتالوں میں ادویات کی عدم دستیابی کے سبب معصوم
بچے ماں کی گود میں تڑپ تڑپ کر اپنی جان دیتے ہو۔
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب میرے صوبے میں تعلیم سے زیادہ سیاسی انتقام کو
اہمیت دی جاتی ہو۔
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب جغرافیائی اعتبار سے انتہائی اہمیت کے حامل صوبہ
کو اس برے طریقے سے نظر انداز کیا جاتا ہو۔
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب میری دھرتی ماں کی مائیں اور بہنیں اپنے پیاروں
کی تصویریں لیئے ان کی بازیابی کے لیئے در در کی ٹھوکریں کھاتی ہوں اور ان
کی داد رسی کرنے والا کوئی نہ ہو۔
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب تعلیمی اداروں کے ہاسٹلز سے میری بہنوں کو رات کے
اندھیرے میں باہر نکال دیا جاتا ہو۔
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب میرے صوبے کو ارباب اختیار کی ترجیحات صوبے میں
بنیادی سہولیات کی فراہمی کے بجائے مویشیوں کی نمائش ہو۔
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب سزا کا حقدار صرف غریب ہو جبکہ طاقتور شخص قانون
کو اپنے پیروں تلے روند دیتا ہو۔
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب اس صوبے کی اسی (%80) فیصد آبادی اسی سرزمین سے
نکلنے والی گیس سے محروم ہو اور کھانا پکانے کے لیئے لکڑیوں کا استعمال
کرتی ہو۔
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب وفاق میرے صوبے کے ساتھ سوتیلوں سا سلوک کرتا ہو
اور اسکے وسائل پر قابض ہو۔
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب سچ بولنے پر مجھے غدار کہا جاتا ہو اور میری زبان
بندی کی جاتی ہو۔
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب میرے بچے بھوکے سوتے ہوں اور میرے حکمران کروڑوں
روپے کی گاڑیوں میں گھومتے ہو۔
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب چھ ارب ٹن سونا دینے والی چاغی کے مالکان کو بدلے
میں ایک کینسر ہسپتال بھی نہ دیا جا سکے۔
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب میرے صوبے کی عوام نوکری نہ ملنے کی صورت میں
اپنی ڈگریاں جلا دیتے ہو۔
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب اپنے آپ روزگار بنانے والے ڈیزل ڈرائیوروں پہ
پابندی لگا کر ہزاروں لوگوں کو حکومت بے روزگار کر دیتی ہو۔
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب میرے صوبے میں صرف ایک لین کی واحد پختہ سڑک ہونے
کی وجہ سے لوگوں کی قدرتی اموات سے زیادہ حادثاتی اموات ہوتی ہو۔
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب میرے ملک کے لوگوں کو بلوچ اور بلوچی کے درمیان
فرق کا پتا ہی نہ ہو۔
|