میرپور ازاد کشمیر میں یتیموں کی کفالت کا مثالی ادارہ

قدرتی حادثات تو کسی بھی ملک میں رونما ہو سکتے ییں لیکن منظم اور دور اندیش اقوام ایسے حادثات سے پیدا شدہ صورت حال سے نبٹنے کے لیے تیار ہوتی ہیں جبکہ غافل اور بے پرواہ قومیں کوئی مصیبت جب سر پر آتی ہے تو پھر سوچتی ہیں کہ اب کیا کیا جائے ۔ ایسے حالات میں وہ اکثر وقتی طور ہر دوسروں کے ہی آگے ہاتھ پھیلاتی ہیں۔ یہی معاملہ آزاد کشمیر میں 8 اکتوبر 2005 کے قیامت خیز زلزلہ میں ہوا جہاں آزاد کشمیر کیا پاکستان سے آنے والی ریسکیو ٹیموں کے پاس معمولی اوزار بھی نہ تھے اور جنکے پاس تھے انکے پاس تسلی بخش تربیت نہ تھی۔ بیرون ملک سے کھانے پینے ور رہائش کاجو ساز و سامان آیا اس میں سے بہت سارا سامان پریس کی خبروں کے مطابق حکومتی وزراء اپنے گھر لے گے۔ ایرا سیرا پر بھی کافی تنقید ہوتی رہی مگر سیاسی رویوں میں کوئی تبدیلی نظر نہ آئی کیونکہ یہاں خدا خوفی ہے نہ احتساب کا موثر سرکاری نظام برحال زلزلہ 2005 کے وقت جہاں حکومتی کارندوں کے ظالمانہ رویے دیکھنے میں آئے وہاں انسانیت کا حقیقی دکھ اور درد رکھنے والی ایسی شخصیات بھی سامنے آئیں جنہوں نے ثابت کیا کہ انسانیت کی کوئی سر حد نہیں ہوتی۔ انکی اس سوچ و فکر نے انہیں ایک فرد سے ادارہ بنا دیا۔ ایسی ہی ایک شخصیت جناب چوہدری محمد اختر ہیں جن کا تعلق برطانیہ سے ہے لیکن مظفرآباد، باغ ، راولاکوٹ اور مانسرہ میں رونما ہونے والے زلزلہ سے پیدا ہونے والی تبائی نے انہیں ایک ایسے راستے پر ڈال دیا جسکی حتمی منزل کا شاید انہیں بھی اندازہ نہ تھا۔ برطانیہ اپنے گھر بیٹھے ٹی ڈی کی سکرین پر نظر آنے والی لاشوں نے انکا دل پسیج دیا۔ وہ قریبی دوستوں اور رشتہ داروں کی مدد سے ایک لاکھ 18 ہزار پونڈ کا فنڈ لے کر آزاد کشمیر پہنچے جو 2005 میں ایک بڑی رقم تھی۔ اور بھی بے شمار افراد اور ادارے امداد لے کر آئے مگر اکثر وقتی مدد کے بعد واپس چلے گے جن چند شخصیات نے یہاں رہ کر مستقل امدادی ادارے قائم کرنے کی کوشش کی ان میں چوہدری اختر سر فہرست ہیں۔ وہ دن انکی زندگی میں ایک اہم موڑ لایا جب انہوں نے دیکھا کہ وہ سکول کے سینکڑوں بچے جو صبح والدیں کو خدا حافظ کہہ کر سکول گے تھے انکے گھر اور والدین زلزلے کا شکار ہو چکے تھے۔ ان بچوں کے اب گھر تھے نہ والدین۔ گائوں میں بچ نکلنے والے بے بس لوگوں نے ان بچوں کو شہر کا رخ کرنے کا مشورہ دیا جہاں بھیگ مانگ کر گزارہ کرنے کے علاؤہ کوئی چارہ نہ تھا۔ اتنے میں انسانوں کی شکل میں خدا کی طرف سے غیبی مدد ائی۔ ان مدد گاروں میں ایک چوہدری محمد اختر صاحب تھے جنہوں نے اپنے وقتی تعاون کو لانگ ٹرم مشن میں تبدیل کرنے کا تہیہ کیا ۔ یہ مشن ایک ایسے ادارے کا قیام تھا جس میں صرف زلزلہ زدگان کے بچے ہی نہیں بلکہ ہر یتیم بچے کی تعلیم و تربیت اور رہائش صحت اور زندگی کی وہ تمام ضروریات شامل تھیں جو ان بچوں کو خود کفیل ہونے تک درکار تھیں۔ یتیم بچوں اور بچیوں کی تعلیم تربیت اور کفالت کا مشن لے کر چوہدری محمد اختر صاحب نے کورٹ کے نام سے جڑی کس میرپور میں ایک ادارہ قائم کیا جسکی بنیاد 19 اگست 2008 میں رکھی گئی۔ کورٹ کشمیر ارفن ریلیف ٹرسٹ کا مخفف یے۔ اس گائوں کو اب اختر آباد کے نام سے موسوم کر دیا گیا ہے۔ سردار محمد عتیق خان نے بطور وزیر اعظم اپنی نوعیت کے پہلے مثالی ادارہ کے لیے سرکاری زمین الاٹ کی جبکہ تعمیر اور ادارہ کی فنکشنگ کی تمام تر زمہ داری چوہدری محمد اختر صاحب اور انکی ٹیم نے اپنے سر لے لی۔ اس ادارے میں اب طلباء اور طالبات کے لیے ایف ایس سی تک مفت تعلیم ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان یتیم بچے اور بچیوں کی تعلیم کے بعد انکے روزگار اور شادی بیاہ اور باعزت طور پر ازدواجی زندگی گزارنے کے انتظامات میں بھی مدد کی جاتی یے۔ بچوں اور بچیوں کے زیادہ تر سپانسرز برطانیہ سے ہوتے ہیں جو باقاعدہ ایک معاہدہ کی شکل میں کیے جاتے ہیں۔ صحت کے حوالے سے بھی اس ادارہ کے بے شمار منصوبے زیر غور ہیں جسکی تفصیل میرے حالیہ دورہ کے دوران کورٹ کے نمائندے عتیق الرحمن صاحب نے بتائی۔ اس کی تفصیل کسی اور کالم میں دی جائے گی۔ ادارہ کے اندر ہاسٹل کھیل کود اور فرسٹ ایڈ کی سہولیات بھی موجود ہیں۔ مسجد بھی ہے اور سٹاف کے لیے پک اینڈ ڈراپ کی سہولت بھی۔ یہ امر باعث افسوس ہے کہ حکومت نے اتنے بڑے کامیاب ادارہ کی ضروری تشہیر کر کے اسکی اہمیت وافادیت کو اجا گر نہیں کیا جس کی وجہ سے مجھ جیسا آدمی جو دن رات سرکاری و غیر سرکاری اداروں کی اصلاحات کے لیے مصروف رہتا ہے وہ بھی دو ہفتے قبل تک اس مثالی ادارہ کے نام سے بے خبر تھا۔ یہ حسن اتفاق تھا کہ میں کوٹلی ڈپٹی کمشنر امجد علی مغل صاحب کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایڈیشنل ڈی سی راجہ فاروق اکرم صاحب نے مجھے کورٹ کا دورہ کرنے کا مشورہ دیا۔ یہ مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے مجھے اس قابل کیوں سمجھا۔ وجہ پوچھنے پر انہوں نے اتنا کہا کہ آپ وہاں جائیں آپکو معلوم ہو جائے گا آپکا وہاں دورہ کیوں ضروری تھا۔ وہاں گیٹ پر پہنچتے ہی ہمیں یوں لگا جیسے ہم کسی ترقی یافتہ ملک کی حدود میں داخل ہو رہے ہیں۔ گیٹ پر چاک و چوبند اور انتہائی مہزب رویے کے مالک سٹاف نے ہمیں وزٹ گائیڈ کے حوالے کیا جو ہمیں وزٹ روم میں لے گیا جہاں عتیق الرحمان صاحب نے بتایا کہ چوہدری محمد اختر اور ادارہ کے مینجر جناب ساجد صاحب پاکستان گے ہوئے تھے جسکا مجھے ساجد صاحب نے پہلے ہی بتایا ہوا تھا لیکن میں اگر اتوار 31 اکتوبر کو کورٹ کا دورہ نہ کرتا تو پھر شاید کئی ہفتوں تک ایسا نہ کر پاتا۔ یہ ادارہ اتنا بڑا اور اس کی کامیابیوں کی تفصیل اتنی وسیع ہے کہ ایک دورے سے قلمی انصاف مشکل یے۔ باقی تفصیل انشاللہ اگلے دورے کے بعد پیش کی جائے گی۔
 

Qayuum Raja
About the Author: Qayuum Raja Read More Articles by Qayuum Raja: 55 Articles with 41288 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.