بجلی ہے نہ پانی کا نلکا اور نہ ہی موبائل سگنل...40 سال سے تنہا جنگل میں رہنے والا شخص

image
 
کین سمِتھ لگ بھگ گذشتہ چالیس سال سے سکاٹ لینڈ کے پہاڑوں میں ایک جھیل کے کنارے بنے ہوئے کیبن میں رہ رہے ہیں جس میں نہ بجلی ہے اور نہ ہی پانی کا نلکا۔ یہ کیبن انھوں نے خود درخت کاٹ کر اس کی لکڑی سے بنایا ہے۔
 
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ زندگی اچھی ہے۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ وہ بھی ایسا کرے، مگر کرتا نہیں۔‘
 
مچھلی پکڑنے، جڑی بوٹیاں جمع کرنے اور جلانے کے لیے لکڑی اکٹھی کرنے والی اس تنہا اور لوگوں سے الگ تھلگ زندگی سے سب ہی لوگ اتفاق نہیں کریں گے۔ خاص طور پر جب ایسی زندگی گزارنے والے کی عمر بھی 74 سال ہو۔
 
ان کا کیبن قریب ترین سڑک سے دو گھنٹے کی پیدل مسافت پر ہے۔
 
وہ کہتے ہیں ’اس جگہ کو تنہا جھیل کہتے ہیں۔ یہاں سڑک نہیں ہے مگر ڈیم بنائے جانے سے پہلے یہاں لوگ رہتے تھے۔‘
 
فلم میکر لیزی میکنزی نے نو سال پہلے کین سمتھ سے رابطہ کیا اور گذشتہ دو برس سے وہ بی بی سی سکاٹ لینڈ کی ایک دستاویزی فلم ’دا ہرمِٹ آف ٹریگ‘ کے لیے انھیں فلم بند کر رہی ہیں۔
 
کین کا تعلق ڈربی شائر سے ہے۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے 15 برس کی عمر میں کام کرنا شروع کیا تھا اور وہ فائر سٹیشن بناتے تھے۔
 
مگر 26 برس کی عمر میں ان کی زندگی اس وقت ہمیشہ کے لیے بدل گئی جب ایک رات ٹھگوں کے ایک گینگ نے انھیں بُری طرح سے مارا پیٹا۔
 
ان کے سر میں چوٹ آئی اور وہ 23 روز تک بے ہوش رہے۔
 
image
 
کین نے بتایا ’انھوں (ڈاکٹروں) نے کہا میں کبھی تندرست نہیں ہو پاؤں گا۔ انھوں نے کہا میں کبھی بھی بول نہیں سکوں گا۔‘
 
’انھوں نے کہا میں کبھی چل نہیں پاؤں گا، مگر میں چلا۔‘
 
’تب میں نے فیصلہ کیا کہ میں کسی اور کے کہنے کے مطابق زندہ نہیں گزاروں گا بلکہ اپنی شرائط پر جیوں گا۔‘
 
کین نے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنا شروع کر دیا اور جنگلوں اور بیابانوں میں دلچسپی لینے لگے۔
 
ایک مرتبہ وہ امریکی ریاست الاسکا اور کینیڈا کے علاقے یوکون کی سرحد پر کھڑے تھے کہ انھیں خیال آیا کہ اگر وہ سڑک سے اتر کر ویرانے میں چلنا شروع کر دیں تو کیا ہو گا۔
 
انھوں نے بتایا کہ انھوں نے ایسا ہی کیا اور جب گھر واپس آئے تو 22 ہزار میل کا سفر کر چکے تھے۔
 
اس دوران ان کے والدین انتقال کر گئے تھے مگر کین کو گھر واپس آنے سے پہلے اس کی خبر نہ ہوئی۔
 
وہ بتاتے ہیں کہ ’مجھے کچھ محسوس نہیں ہوا۔ غم طاری ہونے میں ایک عرصہ لگا۔‘
 
image
 
کین نے اپنا سفر جاری رکھا اور جب وہ سکاٹ لینڈ کے پہاڑوں میں تھے تو ایک دم سے انھیں اپنے والدین کا خیال آیا اور انھوں نے رونا شروع کر دیا۔
 
وہ کہتے ہیں، ’میں راستے بھر روتا رہا۔ میں نے سوچا کہ برطانیہ میں سب سے الگ تھگ جگہ کون سی ہو گی۔ میں چلتا رہا اور ایسی جگہ ڈھونڈتا رہا جہاں پر کوئی بھی نہ ہو۔ جہاں میلوں تک کچھ نہ ہو۔ میں نے جھیل کے پار دیکھا تو یہ جنگل نظر آیا۔‘
 
اور اس طرح کین کو اپنی پسند کا ٹھکانہ مل چکا تھا۔
 
کین بتاتے ہیں یہ وہ مقام تھا جب انھوں نے رونا اور آوارہ گردی کرنا بند کر دی۔
 
انھوں نے پہلے چھوٹی چھوٹی لکڑیوں سے کیبن یا جھگی کا ایک ماڈل تیار کیا اور پھر درخت کاٹ کر ان کے تنوں سے کیبن بنایا۔
 
image
 
چار دہائیوں بعد بھی کیبن میں بھڑکتی آگ تو ہے مگر نہ بجلی ہے اور نہ پانی کا نلکا، اور موبائل فون کا سگنل تو بالکل نہیں ہے۔
 
جلانے کے لیے لکڑی جنگل سے کاٹ کر لائی جاتی ہے۔
 
وہ کچھ سبزیاں اگاتے ہیں اور جنگلی پھل اور جڑی بوٹیاں بھی جمع کرتے ہیں لیکن ان کی خوراک کا بڑا حصہ جھیل سے آتا ہے۔
 
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ کسی سہارے کے بغیر جینا چاہتے ہو تو ایک کام سیکھنا ہو گا اور وہ ہے مچھلی پکڑنے کا طریقہ۔‘
 
فروری 2019 میں ان کی تنہا زندگی کے خطرات نے حقیقی روپ دھار لیا۔ کین باہر برف پر چل رہے تھے جب ان پر فالج کا حملہ ہوا۔
 
چند دن پہلے ہی انھیں ایک جی پی ایس لوکیٹر دیا گیا تھا جس کے ذریعے ہنگامی بنیادوں پر مدد طلب کی جا سکتی تھی۔ اس کا کنیکشن امریکی ریاست ٹیکساس کے ایک مرکز سے تھا۔
 
اس مرکز نے فوراً ہی برطانوی کوسٹ گارڈز کو خبردار کیا جنھوں نے ہیلی کاپٹر کی مدد سے کین کو وہاں سے نکال کر ہسپتال پہنچا دیا۔ کین نے ہسپتال میں سات ہفتے گزارے۔
 
عملے نے ان کی خوب تیمارداری کی تاکہ وہ اپنی خود مختار زندگی پھر سے گزارنے کے قابل ہو جائیں۔ ڈاکٹروں نے انھیں شہر لوٹنے پر قائل کرنے کی کوشش کی جہاں وہ ایک فلیٹ میں رہ سکتے تھے اور دیکھ بھال کرنے کے لیے عملہ بھی ہوتا۔ مگر کین نے اپنے کیبن میں واپس جانے کو ترجیح دی۔
 
image
 
تاہم فالج کی وجہ سے ان کی بینائی اور یادداشت متاثر ہو گئی تھی اس لیے انھیں دوسروں کی مدد کو قبول کرنا پڑا۔
 
جنگل کی رکھوالی کرنے والا ایک شخص انھیں ہر دو ہفتے بعد اپنی جیب سے خوراک خرید کر پہنچا دیتا ہے۔
 
کین کہتے ہیں ’آج کل لوگ مجھ پر بہت مہربان ہیں۔‘
 
اور پھر ایک سال بعد انھیں پھر ہسپتال لے جانا پڑا کیونکہ لکڑیاں گرنے سے وہ زخمی ہو گئے تھے۔
 
مگر ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند نہیں ہیں۔ کین کہتے ہیں ’ہمیں زمین پر ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں بھیجا گیا ہے۔ میں یقیناً اس وقت تک یہاں پر رہوں گا جب تک میرا آخری وقت نہیں آ جاتا۔ میرے ساتھ کئی واقعات پیش آئے ہیں پھر بھی میں زندہ ہوں۔‘
 
وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے ایک بار پھر بیمار پڑنا ہے۔ ایک دن میرے ساتھ کچھ ایسا ہو گا جو مجھے ساتھ لے جائے گا جیسا کہ دوسروں کے ساتھ ہوتا ہے۔ مگر مجھے 102 برس تک جینے کی امید ہے۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: