انہوں نے قرآن کو چوما اور بچوں کو بغیر کچھ لیے واپس کردیا…متعدد آپریشنز کے باوجود کچے کے ڈاکو اپنی دہشت کیسے قائم رکھے ہوئے ہیں؟

image
 
رات کے پچھلے پہر کپکپاتے ہاتھوں میں قرآن اٹھائے سہمی ہوئی دو ادھیڑ عمر خواتین کچے کے پُرپیچ راستوں پر ڈگمگاتے قدموں ڈاکوؤں کی کمین گاہوں کی جانب گامزن تھیں۔ ایک ایسے علاقے میں جہاں دن کی روشنی میں بھی عام آدمی جاتے ہوئے کتراتے ہیں یہ خواتین قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مایوس ہو کر خود ہی اپنے اغوا شدہ بچوں کی زندگیاں بچانے نکلی تھیں۔
 
ان خواتین کے ساتھ دو ادھیڑ عمر مرد رشتہ دار اور ڈاکوؤں کا ایک سہولت کار بھی تھا جو انھیں ان بھول بھلیوں سے گزارتا لے جا رہا تھا۔
 
ان خواتین کے ذہن میں ایک طرف یہ سوال ہے کہ ان کے بچے کس حالت میں ہوں گے تو دوسری جانب اپنی جان کا بھی خدشہ کہ کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں کیونکہ ڈاکوؤں کی جانب سے تاوان کے مطالبے کے جواب میں ان کے ہاتھوں میں صرف اور صرف قرآن اور دلوں میں یہ امید تھی کہ شاید ان کی التجاؤں کے بدلے ڈاکو ان کے بچوں کو رہا کر دیں۔
 
ان میں سے ایک خاتون موراں بی بی (فرضی نام) نے اس صحافی کو بتایا کہ چند ماہ قبل ایک شام ان کے بچوں سولہ سالہ مصطفیٰ اور اٹھارہ سالہ اختر کو اس وقت تحصیل صادق آباد کے تھانہ بھونگ کی حدود سے اغوا کیا گیا جب وہ مزدوری کے بعد گھر لوٹ رہے تھے۔
 
پولیس کی ہیلپ لائن پر کال کی گئی لیکن پولیس کے پہنچنے سے پہلے ہی ڈاکو ان کی حدود سے دور ضلع راجن پور میں داخل ہو چکے تھے۔ موراں بی بی کے اہلخانہ نے دونوں اضلاع رحیم یار خان اور راجن پور کے پولیس افسران سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن موراں بی بی کے مطابق پولیس نے اُن کی داد رسی نہیں کی۔
 
موراں بی بی کے مطابق اپنے بچوں کی زندگیاں بچانے کے لیے انھوں نے ایف آئی آر کٹوانے کی بجائے ڈاکوؤں کے سہولت کاروں کے ذریعے اُن سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
 
اور اب کچھ ہی دیر میں اُن کا سامنا ان ڈاکوؤں سے ہونے والا تھا جنھوں نے ان کے بچوں کو اغوا کیا تھا۔
 
خدشات اور توقعات سے گھری دونوں خواتین گنے کی گھنی فصلوں، قدرتی طور پر اُگے جنگلات اور چھوٹے ندی نالوں سے گزرتی ہوئی ڈاکوؤں کی پناہ گاہ پر پہنچیں تو انھیں چارپائی پر بیٹھنے کو کہا گیا۔ اُسی وقت ایک ڈاکو کی گرجدار آواز نے انھیں جیسے خواب سے جگا دیا۔
 
’کتنی رقم لائے ہو؟‘ موراں بی بی سے سوال ہوا تو دونوں خواتین نے سہمے ہاتھوں دوپٹے میں لپٹے قرآن آگے کر دیے۔ ان کے مرد رشتہ دار بھی ڈاکو کے پیروں سے لپٹ گئے۔ موراں بی بی بتاتی ہیں کہ ہم نے اس موقع پر ڈاکوؤں کو بتایا کہ وہ غریب لوگ ہیں اور ان کے بچے مزدوری کرتے ہیں۔
 
موراں بی بی کا کہنا تھا کہ ہم نے روتے گڑگڑاتے ان کو قرآن کا واسطہ دیا کہ ان کے بچے جو ان کے گھر کا سہارا ہیں ان کو چھوڑ دیا جائے۔
 
ڈاکوؤں کے چہروں پر وڈیروں جیسی رعونت دیکھ کر چند لمحے کے لیے موراں کو خیال آیا کہ کہیں انھوں نے یہاں آ کر غلطی تو نہیں کی۔ اتنے میں ڈاکوؤں کے سرغنہ نے خواتین کے ساتھ آئے مردوں کو انھیں چپ کروانے کا کہا اور اپنے لوگوں کو حکم دیا کہ خواتین کے ہاتھوں سے قرآن پاک لے لیں۔
 
image
 
موراں بی بی کے مطابق جب انھوں نے ڈاکوؤں کو قرآن پاک کو چومتے دیکھا تو اُن کے دل میں امید کی کرن جاگی اور چند ہی لمحوں میں یہ امید ان خواتین کے بیٹوں کی شکل میں سامنے آگئی جن کی رہائی کا حکم جاری کر دیا گیا تھا۔
 
سولہ سالہ مصطفیٰ اور اٹھارہ سالہ اختر کو سامنے لایا گیا تو یہ بھی ایک دردناک منظر تھا۔ دونوں کے سر کے بال، داڑھی اور مونچھیں مونڈھے جا چکے تھے لیکن بچوں کو سامنے دیکھ کر مائیں دیوانہ وار ان کی جانب لپکیں اور انھیں لے کر کچے کے علاقے سے واپس آ گئیں۔
 
کچے کا علاقہ پولیس کی دسترس سے باہر کیوں ہے؟
دریائے سندھ جیسے جیسے جنوب کی جانب بڑھتا ہے اس کی موجوں کی روانی سست اور اس کی وسعت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ جنوبی پنجاب کے قریب اس کی وسعت اسے ایک بڑے دریا سے کئی ندی نالوں میں تبدیل کر دیتی ہے جن کے درمیان کئی چھوٹے چھوٹے جزیرے نمودار ہوتے ہیں جن تک رسائی ریتلی زمین اور سڑکوں کی عدم موجودگی میں مشکل ہوتی ہے۔
 
اسی مشکل کو ڈاکو اپنی آسانی میں بدل کر یہاں پناہ گاہیں بنا کر آس پاس کے علاقوں میں دہشت پھیلاتے ہیں اور پولیس کی دسترس سے دور یہاں پناہ بھی لیتے ہیں اور وقت پڑنے پر قانون نافذ کرنے والوں کا مقابلہ بھی کرتے ہیں۔
 
یہ ساحلی پٹی جنوبی پنجاب، بلوچستان، سندھ، خیبر پختونخوا اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کے سنگم پر واقع ہے اور نوآبادیاتی دور سے ڈاکوؤں اور آزادی کے لیے لڑنے والے جنگجوؤں کے لیے چھپنے کا ٹھکانہ رہا ہے۔ یہ علاقہ مختلف عملداریوں کے درمیان واقع ہے جس کی وجہ سے یہاں تک قانون کی رسائی مشکل ہو جاتی ہے۔
 
جس کچے علاقے کی ہم بات کر رہے ہیں وہ جنوبی پنجاب کے ضلع رحیم یار خان اور راجن پور کے درمیان کا علاقہ ہے۔
 
یہاں کے رہائشی زمیندار میرل خان بتاتے ہیں کہ کہنے کو تو یہ بمشکل بیس سے تیس کلومیٹر کا علاقہ ہے جہاں دریائے سندھ کا پانی سارا سال موجود رہتا ہے لیکن ندی نالوں کے درمیان جزیروں پر ڈاکووں کی پناہ گاہوں تک پلوں کی عدم موجودگی میں پہنچنا مشکل کام ہے۔
 
میرل خان کے مطابق اس علاقے کی ساخت ایسی ہے کہ کہیں جنگل ہے، کہیں پانی ہے اور کہیں خشکی۔ اسی لیے پولیس کے لیے یہاں کے ڈاکوؤں سے مقابلہ کرنا اور ان کا خاتمہ کرنا خطروں سے پُر ہوتا ہے اور عام طور پر پولیس کے لیے یہ 'نو گو ایریا' سمجھا جاتا ہے۔
 
image
 
جب اس بارے میں ڈی پی او راجن پور محمد افضل سے سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ پولیس کا کام عوام کی حفاظت ہے اور ڈاکو چاہے پہاڑوں پر ہوں یا کچے میں ان کو ضرور گرفت میں لایا جائے گا تاہم انھوں نے کہا راجن پور پولیس کا مسئلہ کچے کے علاقے تک رسائی کا ہے۔
 
ڈی پی او نے بتایا کہ اس علاقے تک رسائی کے لیے پولیس نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ اس علاقے میں تین پُل بنائے جائیں۔
 
رینجرز، فوجی آپریشنز کے باوجود ڈاکوؤں کی دہشت بدستور موجود
واضح رہے کہ اس کچے کے علاقے کے ڈاکوؤں کے خلاف ماضی میں کئی بار آپریشن ہو چکے ہیں جن میں پولیس کے علاوہ رینجرز اور فوج بھی شامل رہی ہے۔
 
اپریل 2016 میں کچے کے 'چھوٹو گینگ' نے 22 پولیس اہلکاروں کو اغوا کر لیا تھا۔ جوابی کارروائی کے دوران سات پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے فوج کی مدد مانگی اور یہاں آپریشن 'ضرب آہن' کیا گیا جس میں ڈاکوؤں کے سرغنہ غلام رسول عرف چھوٹو کے گینگ کے خلاف ہیلی کاپٹر بھی استعمال ہوئے، جس کے بعد چھوٹو گینگ نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیے۔
 
اس آپریشن اور چھوٹو گینگ کے سرغنہ کی گرفتاری کے بعد یہاں موجود ڈاکوؤں کی کمین گاہوں اور مورچوں کو تباہ کر دیا گیا تھا اور کچے میں ڈاکوؤں کی دہشت کا وقتی خاتمہ ہوا۔ لیکن یہ سکون عارضی ثابت ہوا کیونکہ ایک سال بعد ہی یہاں چھوٹو گینگ کی باقیات کے ساتھ ساتھ نئے ناموں سے مزید ڈکیت گینگ سامنے آئے جن میں عمرانی گینگ، لٹھانی گینگ، دشتی گینگ، سکھانی گینگ اور اندھڑ گینگ وغیرہ شامل تھے۔
 
ان گروہوں نے رحیم یار خان، کشمور، راجن پور اور صادق آباد میں دہشت پھیلا دی جہاں آئے روز اغوا اور قتل کی وارداتوں میں بے پناہ اضافے کے بعد پولیس نے ایک اور آپریشن کیا۔ دواگست 2017 میں ایسے ہی ایک مقابلے میں دو پولیس آفیسرز سمیت ایک کشتی ران کی ہلاکت ہوئی۔ اپریل 2019 میں لٹھانی، سکھانی اور لُنڈ گینگ کے خلاف آپریشن کیا گیا۔ مارچ 2021 میں رینجرز نے آپریشن 'ردالسارق' میں ڈاکوں کی کمین گاہیں تباہ کیں۔
 
لیکن ان تمام آپریشنز کے دوران ڈاکو باآسانی سندھ کی جانب فرار ہوگئے۔ جون 2021 میں کچے کے علاقے میں دو پولیس اہلکاروں کے اغوا نے ان دعوؤں پر سوالیہ نشان لگا دیا جن کے مطابق کچے سے ڈاکوؤں کا صفایا کیا جا چکا تھا۔
 
image
 
کچے کے علاقے کے ڈکیت کس طرح کارروائیاں کرتے ہیں اور ان کو کس کی مدد حاصل ہوتی ہے؟
اس سوال کا جواب کچے کے ایک ڈاکو گینگ کے سہولت کار نے مجھے یوں دیا کہ جن علاقوں میں پولیس عام آدمی کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے تو پھر ایسے لوگ ڈاکوؤں کی سہولت کاری کرتے ہیں اور اس طرح خود کو اُن سے محفوظ بناتے ہیں۔
 
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انھوں نے بتایا کہ ایسے علاقوں میں اکثر لوگ اپنی جان اور مال بچانے کے لیے سہولت کاری کا کام سرانجام دیتے ہیں اور ڈاکوؤں کو یہ بتاتے ہیں کہ فلاں آدمی کے پاس کتنی زمین، دولت اور کتنے جانور ہیں۔
 
اس سہولت کار نے دعویٰ کیا کہ یہی مقامی سہولت کار ڈاکوؤں کو نام، فون نمبر اور پتہ تک فراہم کر دیتے ہیں۔ اس سہولت کار کے مطابق موبائل فون کا بیلنس ڈلوانے سے لے کر پولیس اور مقامی سرداروں کے بارے میں اطلاعات پہنچانا بھی سہولت کاری کے دائرے میں آتا ہے جس کے عوض اپنی جان کی حفاظت کے ساتھ ساتھ کبھی کبھار مالی فائدہ بھی ہوتا ہے جب معلومات کے عوض انھیں ڈاکو کچھ رقم دے دیتے ہیں۔
 
'ڈاکو پیدا نہیں ہوتے بنائے جاتے ہیں'
ڈاڈو بنگیانی جو کہ خود ایک گینگ کے سربراہ ہیں کہتے ہیں کہ کوئی بھی پیدائشی ڈاکو نہیں ہوتا۔ وقت اور حالات فیصلہ کرتے ہیں کہ کون ڈاکو بنے گا۔
 
'مچھ کٹا' کی عرفیت سے مشہور ڈاڈو بنگیانی اس بات کی یوں وضاحت کرتے ہیں کہ کچے کے ڈکیت مقامی وڈیروں نے پولیس کی مدد سے بنائے ہیں کیونکہ کچے کے آّس پاس بسنے والے قبائل کے سربراہ ذاتی لڑائیوں کے لیے ان ڈاکوؤں کو استعمال کرتے ہیں۔
 
ڈاڈو مزید دعویٰ کرتے ہیں کہ پولیس بھی اُن کے خلاف ان وڈیروں سے ملی ہوتی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ واردات رحیم یار خان، کشمور، راجن پور کہیں بھی ہو، پولیس پرچے ہمارے خلاف کاٹ دیتی ہے۔
 
غلام رسول 'چھوٹو ڈکیت' کیسے بنا؟
کچے کے زمیندار میرل خان کے مطابق غلام رسول کچے کے ہی ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا تھا اور بعد میں صوبہ سندھ کے ضلع کشمور میں ایک ہوٹل پر ویٹر بن گیا۔ میرل کہتے ہیں کہ چودہ پندرہ سال کی عمر میں جب بچہ سکول جاتا ہے غلام رسول ہوٹل پر برتن دھوتا تھا۔
 
میرل خان کے مطابق ایک دن شام کو ہوٹل سے واپسی پر پولیس نے اسے چوری کے جھوٹے الزام میں گرفتار کر لیا، اسے تھانے میں مبینہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس سے اس کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی۔
 
میرل خان کہتے ہیں کہ یہاں سے حالات نے پلٹا کھایا اور پھر خوف خوف نہ رہا۔ برتن دھونے والا اور لوگوں کو چائے پلانے والا لڑکا لوگوں اور پولیس کے لیے خوف کی علامت بن گیا۔
 
ڈاڈو بتاتے ہیں 'کچے کے ہر ڈاکو کی کہانی چھوٹو سے ملتی جلتی ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ ہم اس زندگی سے تنگ ہیں، ہم ہتھیار پھینکنا چاہتے ہیں، ہماری زمین بنجر اور ویران پڑی ہے، ہم کھیتی باڑی کر کے ایک اچھی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔'
 
image
 
ڈاڈو بتاتے ہیں کہ ایک بار مقامی سردار اور پولیس کے کچھ لوگ ان کے پاس آئے تھے۔ 'ہم نے ان کو اپنی شرطیں بتائی تھیں جن کے بدلے ہم ہتھیار چھوڑنے کو تیار تھے۔ اس کے بعد وہ لوٹ کر نہیں آئے۔'
 
کچے کے ڈکیتوں اور پولیس کے درمیان روابط کے الزامات میں کتنی سچائی ہے؟
کچے کے متعدد مقامی رہائشیوں نے بتایا کہ ان کے نزدیک اس علاقے میں پولیس آپریشنز کے باوجود ڈاکووں کی کارروائیوں کی وجہ صرف یہ ہے کہ کچھ پولیس والے ان گینگز کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کرتے ہیں۔
 
سابق آئی جی پنجاب پولیس عارف نواز نے ان الزامات کی تحقیق اس وقت کی تھی جب وہ پنجاب کے ایڈیشنل آئی جی آپریشنز تھے۔ بی بی سی کو دستیاب سرکاری دستاویزات کے مطابق انھوں نے اپنی رپورٹ میں اس علاقے میں تعینات کئی پولیس انسپکٹرز کے ڈکیت گینگز خصوصاً چھوٹو گینگ کے ساتھ روابط کی تصدیق کی تھی۔
 
ان افسران میں ایک انسپکٹر بھی شامل تھے، جنھیں جنوری 2017 میں ملازمت سے ابتدائی طور پر معطل کر دیا گیا تھا۔ دستاویزات کے مطابق ان پر عائد الزامات میں ایک الزام یہ بھی تھا کہ انھوں نے 2015 میں پولیس آپریشن کے دوران چھوٹو گینگ کو فرار ہونے میں مدد دی تھی۔
 
سنہ 2017 میں ہونے والی ایک انکوائری میں انھیں نوکری سے برطرف کرتے ہوئے لکھا گیا کہ ان پر فرائض سے غفلت برتنے اور جرائم پیشہ افراد کی مدد کے الزامات ثابت ہوئے ہیں۔ اس انکوائری رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا کہ مذکورہ پولیس انسپکٹر پولیس ڈیپارٹمنٹ کے نام پر 'سیاہ دھبہ' ہیں۔
 
حیران کن طور پر یہ انسپکٹر کچھ ہی عرصے بعد نوکری پر بحال ہو گئے اور اس وقت ضلع رحیم یار خان میں تعینات ہیں۔ جب میں نے ان سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ نوکری سے برطرف ہونے کے بعد وہ پولیس میں واپس کیسے بحال ہوئے تو ان کا جواب تھا کہ انھیں سابق آئی جی عارف نواز نے خود بحال کیا تھا۔
 
انھوں نے تسلیم کیا کہ ان کے چھوٹو گینگ سے رابطے ضرور تھے لیکن ان کے مطابق 2015 میں انھوں نے آپریشن کے دوران چھوٹو کو فرار ہونے میں کوئی مدد نہیں دی تھی اور اس الزام میں کوئی حقیقت نہیں تھی۔
 
image
 
وہ کہتے ہیں کہ ان سمیت پولیس والے اس لیے ڈاکووں سے رابطے رکھتے ہیں تاکہ ان کی سرگرمیوں کا علم رکھا جا سکے۔ 'ڈاکوؤں سے رابطہ کر کے پولیس ان کو لالچ دیتی تاکہ ان کوگرفتار کیا جا سکے۔ انہی رابطوں کی بدولت پولیس کو کئی جرائم پیشہ افراد کے خاتمے میں مدد ملی۔'
 
اس معاملے پر آر پی او ڈی جی خان اور ایڈیشنل آئی جی آپریشنز پنجاب سے بھی رابطہ کیا گیا مگر انھوں نے کوئی جواب دینے سے گریز کیا۔
 
حال ہی میں اندھڑ گینگ کی کارروائیوں خصوصاً ضلع رحیم یار خان کی تحصیل صادق آباد کے علاقے ماہی پور میں ایک ہی خاندان کے نو افراد کے قتل کے بعد ایک بار پھر یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کچے کے ڈکیت گینگز کا مستقل حل کیا ہے کیونکہ کچے کے رہائشی بھی اب نقل مکانی کر رہے ہیں۔
 
'مٹھی بھر ڈاکو ریاست سے طاقتور نہیں ہو سکتے'
حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے ایم این اے سردار ریاض محمود مزاری نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ وہ اپنے علاقے میں امن و امان کی بحالی کے لیے کئی مرتبہ وزیراعظم عمران خان، سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹینینٹ جنرل فیض حمید، پنجاب کے آئی جیز اور محکمہ داخلہ پنجاب کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری سے مل چکے ہیں۔
 
ان کا کہنا ہے کہ 'جب بھی آپریشن ہوتا ہے گینگز فرار ہو جاتے ہیں اور جیسے ہی آپرشن ختم ہوتا ہے ڈاکو پھر واپس آ جاتے ہیں۔حکومت اس مسئلے کا کوئی مستقل حل کیوں نہیں نکالتی؟ مٹھی بھر ڈاکو ریاست سے طاقتور نہیں ہو سکتے۔'
 
سردار ریاض محمود مزاری کے مطابق 'دریائی علاقے میں جانے کے لیے جدید کشتیوں کی مدد لی جا سکتی ہے۔ ڈرون ٹیکنالوجی بھی پاکستان میں آ چکی ہے۔اب ڈاکوں کوپکڑنا آسان ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس ڈاکوؤں کے موبائل نمبرز، ان کی لوکیشن اور گھر کا نقشہ تک موجود ہے پھر بھی ڈاکو گرفتار نہیں ہوتے۔'
 
جماعت اسلامی رحیم یار خان کے رہنما عبدالکریم مزاری خود بھی کچے کی علاقے میں رہائش پزیر ہیں۔
 
وہ بتاتے ہیں کہ سنہ 2017 میں تحصیل روجھان میں ہونے والے گرینڈ امن جرگے میں ڈاکوؤں کے گینگز کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کی گئی۔ ان کے مطابق ایک امن کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس کی سربراہی وہ خود کر رہے تھے اور انھیں مزاری سرداروں اور ضلع رحیم یار خان اور راجن پور کے ڈی پی اوز نے یقین دلایا کہ اگر سارے گینگز ہتھار ڈالتے ہیں تو ان کے خلاف ناجائز مقدمات ختم کر دیے جائیں گے اور ان کے قبائلی جھگڑوں میں قتل کے مقدمات کی صلح میں مزاری سردار ان کی مدد کریں گے۔
 
عبدالکریم مزاری کے مطابق اس کمیٹی میں ہتھیار چھوڑنے پر ڈاکووں کے لیے دو سال تک ماہانہ مالی مدد اور کاشت کاری کے لیے مفت بیج دینے کی بھی تجویز تھی۔
 
عبدالکریم کہتے ہیں کہ ان تجاویز کے ساتھ وہ جرگے کے ہمراہ ڈاکوؤں سے ملے جنھوں نے ہتھیار ڈالنے پر رضامندی کا اظہار کیا لیکن سرداروں سے مدد اور ریاست سے مالی معاونت لینے کو وہ تیار نہیں تھے۔
 
ان کے مطابق ڈاکوؤں کی جانب سے صرف یہ شرط سامنے رکھی گئی تھی کہ ان کے خلاف تمام مقدمات ختم کیے جائیں لیکن یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا جس کے بعد مذاکرات کا راستہ بند ہو گیا۔
 
مقامی رہنما اور پیپلز پارٹی کے ایم پی اے ممتاز علی خان چانگ کہتے ہیں کہ اب مذاکرات کا ڈرامہ بند ہو جانا چاہیے۔ 'ریاست کو اپنی رٹ ہر حال میں قائم کرنی چاہیے۔ لوگ ڈاکوں کے ہاتھوں لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک گئے ہیں۔'
 
وہ کہتے ہیں کہ اندھڑ گینگ نے بھی پولیس والوں کو یہی یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اب اپنے علاقے میں رہیں گے اور کوئی مجرمانہ کارروائی نہیں کریں گے۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ اندھڑ گینگ کے جانو اندھڑ کی پناہ گاہ کا پولیس کو علم تھا لیکن پھر بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی جب کہ اس گینگ نے دن دیہاڑے نو آدمیوں کو بیدردی سے قتل کر دیا۔
 
ان کا کہنا ہے کہ ڈاکوؤں کے مستقل خاتمے کے لیے یہاں کراچی اور شمالی وزیرستان جیسے آپریشن کی ضرورت ہے۔
 
موجودہ ڈی پی او راجن پور محمد افضل کہتے ہیں کہ مذاکرات کے راستے کبھی بھی بند نہیں ہونے چاہییں۔ 'اگر کوئی سرنڈر کرتا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ پولیس ابھی بھی ڈاکوؤں کے ساتھ مذاکرات کے لیے رابطے میں ہے۔'
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: