حال ہی میں اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس
گلاسگو میں ایک دن کی توسیع کے بعد اختتام پذیر ہوئی۔ اس دوران شرکاء نے
موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ایک نئے عالمی معاہدے پر اتفاق کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئتریس نے کانفرنس کے اختتام پر ایک
ویڈیو بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ تمام فریقین نے اہم اقدامات تو اٹھائے
ہیں لیکن وہ "ناکافی " ہیں۔ انہوں نے ترقی یافتہ ممالک پر زور دیا کہ وہ
سالانہ 100 بلین ڈالر فراہم کرنے کے اپنے وعدے کو پورا کریں تاکہ ترقی پذیر
ممالک کو موسمیاتی چیلنجوں سے نمٹنے میں مدد ملے۔ دنیا بھر میں اکثر حلقے
گلاسگو میں اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس کے حوالے سے مایوسی کا
شکار ہیں کیونکہ اُن کے نزدیک عالمی رہنما بالخصوص ترقی یافتہ دنیا اب بھی
موسمیاتی چیلنج کی سنجیدگی کو سمجھنے میں ناکام ہیں۔ اگرچہ ایسے ممالک کی
جانب سے تقاریر میں موسمیاتی تبدیلی کی سنگینی تسلیم کی جاتی ہے لیکن عملی
طور پر وہ قلیل مدتی قومی مفادات کی پیروی کرتے ہیں اور بنا کسی عمل اور
اقدامات کے "زیرو کاربن" اخراج کے وعدے کر رہے ہیں۔مثلاً امریکہ کی ہی مثال
لی جائے جو دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے اور عالمی و علاقائی امور کا اہم
ترین کھلاڑی ہے مگر موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے کو امریکہ نے اُس قدر سنجیدگی
سے نہیں لیا ہے جس کا یہ متقاضی ہے۔امریکہ کا شمار کاربن اخراج کے حوالے سے
بڑے ترین ممالک میں کیا جاتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق 1850 کے بعد سے، جب سے
صنعت کاری نے ماحولیات کو کاربن اخراج سے متاثر کرنا شروع کیا ،اُس وقت سے
امریکہ 509 گیگاٹن کاربن کا اخراج کر چکا ہے جو عالمی سطح پر مجموعی مقدار
کا پانچواں حصہ بنتا ہے۔
گلاسگو میں متعدد امیر ممالک کے رہنماؤں کے بیانات بھی موسمیاتی تبدیلی کے
حوالے سے ان کی حکمت عملیوں اور دیگر ترجیحات سے متصادم ہیں۔ایک جانب اکثر
ترقی یافتہ ممالک کے رہنما مستقبل میں سبز ترقی کے دعویدار ہیں ، دوسری
جانب وہ رکازی ایندھن سے متعلق مزید سرمایہ کاری کی اجازت دینے اور اسے
فعال کرنے میں مصروف ہیں جو گرین ہاؤس گیسز کے مزید اخراج کو جنم دے گی۔یہ
بات ٹھیک ہے کہ گلاسگو موسمیاتی کانفرنس کے دوران کئی امور پر اتفاق رائے
توقع سے کہیں بہتر تھا جن میں میتھین، جنگلات کی کٹائی، تخفیف کوئلہ سمیت
دیگر امور پر پیش رفت شامل ہے ۔عالمی رہنماوں نے 2030 تک توانائی کے قابل
تجدید ذرائع کے استعمال کو وسعت دینے کا عہد کیا۔ جغرافیائی سیاسی اختلافات
کے باوجود چین اور امریکہ جیسے بڑے ممالک نے پیرس معاہدے کے نفاذ سے متعلق
تعاون پر زور دیتے ہوئے ایک مشترکہ اعلامیہ کے ساتھ دنیا کو حیران کیا ہے۔
امریکہ اور چین کے درمیان موسمیاتی تبدیلی سے متعلق یہ سمجھوتہ ، بجا طور
پر ایک اہم پیش رفت ضرور ہے لیکن فی الحال اسے ایک بہت چھوٹا قدم قرار دیا
جا سکتا ہے۔ یہ اُن مخصوص اہداف سے عاری ہے جو 2014 کے معاہدے میں شامل تھے
اور جس پر اوباما انتظامیہ نے پیرس معاہدے سے قبل بات چیت کی تھی۔البتہ اس
نے دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج سے متعلق دو
بڑے فریقوں کے درمیان سنجیدہ بات چیت کی بحالی کی راہ ضرور ہموار کی ہے۔
دنیا کے نزدیک اس نے موسمیاتی تبدیلی کے اقدام کو نئی توانائی فراہم کی ہے۔
اس سے امریکی خارجہ پالیسی کا ایک اہم نکتہ اجاگر ہوتا ہے کہ آیا اسے دنیا
کو درپیش پیچیدہ اور بڑے عالمی مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے یا
چین کے ساتھ محاز آرائی پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ ویسے بھی مبصرین آئندہ
کے جدید مسائل جیسا کہ موسمیات، وبائی امراض، سائبر وارفیئر اور سائبر
سیکیورٹی ، کو دیکھتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ اور چین کے درمیان
تعاون ناگزیر ہے۔
چین نے موسمیاتی کانفرنس کے دوران واضح کیا کہ پیرس معاہدے پر عمل درآمد سے
متعلق اتفاق رائے ، کثیرالجہتی کو برقرار رکھنے اور پیرس معاہدے کے جامع
نفاذ کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔اس سے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ایک
نیا عالمی ردعمل سامنے آئے گا۔ تاہم ترقی پزیر ممالک کو مالیات اور تکنیکی
امداد کے حوالے سے تشویش لاحق ہے ۔ اس ضمن میں ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے
100 بلین ڈالر سالانہ امداد کا وعدہ کیا گیا تھا جسے ابھی تک پورا نہیں کیا
گیا ہے جس پر ترقی پزیر ممالک نےشدید مایوسی کا اظہار کیا ہے۔چین نے عزم
ظاہر کیا کہ موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے متعلقہ فریقوں کے
ساتھ تعمیری انداز میں فعال بات چیت برقرار رکھی جائے گی جبکہ ایک بڑے ذمہ
دار ملک کے طور پر چین اپنی عالمی ذمہ داریاں بخوبی نبھائے گا۔اس کی حالیہ
مثالیں چین کے وہ عملی اقدامات ہیں جنہوں نے دنیا کو تحفظ ماحولیات کے
حوالے سے ایک نئی تحریک دی ہے۔چینی صدر شی جن پھنگ نے اعلان کیا کہ چین
آئندہ بیرونی ممالک میں کوئلے کی سرمایہ کاری نہیں کرے گا ،ساتھ ساتھ چین
نے 2030 تک کاربن پیک اور 2060 تک کاربن نیو ٹرل کے حصول کا اعلان کیا ہے۔
اس مقصد کی خاطر ملک میں صنعت ، ٹرانسپوٹ ، نقل وحمل اور شہری و دیہی تعمیر
سمیت مختلف شعبہ جات میں سائنس و ٹیکنالوجی کی مدد سے کاربن پیک اور کاربن
نیوٹرل کے عملی منصوبے ترتیب دیے جا چکے ہیں ، نظر ثانی کے بعد یہ منصوبے
نافذ العمل ہوں گے ۔ حال ہی میں چین کی اعلیٰ سیاسی قیادت نے اس حوالے سے
رہنما لائحہ عمل پیش کیا ہے جس نے چین بھر میں تمام شعبہ جات کے لیے کاربن
پیک اور کاربن نیوٹرل اہداف کی تکمیل کی سمت متعین کی ہے ۔ اس ضمن میں اہم
شعبوں میں توانائی کی بقا اور تخفیف کاربن پر زور دیا جائے گا، زیادہ
توانائی استعمال کرنے والے شعبوں کی ترتیب نو کی جائے گی۔ علاوہ ازیں
توانائی کی صلاحیت میں بہتری اور کاربن اخراج میں کمی پر زور دیا جائے گا
۔یوں چین نے دنیا میں فطرت اور مادی ترقی کے درمیان ہم آہنگی کا ایک عمدہ
ماڈل ترتیب دیا ہے جو نہ صرف قابل ستائش ہے بلکہ قابل تقلید بھی ہے۔
|