مہنگائی کا عفریت
(Prof Abdullah Bhatti, Lahore)
مفلوک الحال قاری صاحب کی حالت زار دیکھ کر میرا دل کر
چی کرچی ہو گیا تھا پھٹے پرانے میلے کچیلے کپڑے ‘الجھے ہوئے بالوں کے ساتھ
داڑھی بھی بغیرخضاب کے بے ترتیب سی چہرے پر زندگی کے بھرپور رنگوں کی جگہ
اداسی غم پریشانی نے لے لی تھی قاری صاحب جو بات بات پر قہقہے لگاتے تھے
قاری صاحب کی شگفتہ مزاجی حلقہ یاران میں مشہور تھی بات بات پر لطیفہ بازی
خاص طور پر دوسری شادی پر قاری صاحب کے چہرے پر قوس قز ح کے رنگ بکھر جاتے
تھے لیکن آج جب قاری صاحب ملنے آئے تو جیسے کسی کھلونے کے سیل نکال دئیے
گئے ہوں جیسے ٹی وی بلیک اینڈ وائٹ ہو گیا ہو۔ قہقہوں کی جگہ قاری صاحب
وقفے وقفے سے لمبے سانس اور آہیں بھرتے ۔میں نے قاری صاحب کو صاف ستھرے
استری شدہ کپڑوں میں ہمیشہ عطر چنبیلی یا عطر گلاب میں نہایا ہو اپایا تھا
صاف رومال شاندار رنگوں والی تسبیح پالش شدہ جوتے چمک دار گھڑی ہاتھوں میں
موٹے نگوں والی انگوٹھیاں لیکن آج جب قاری صاحب میرے سامنے آئے تو جیسے
کوئی شخص بہت بڑی شکست کھا کر آیاہوں قاری صاحب جو ہمیشہ شکر صبر کی تلقین
کرتے تھے جو بولنے پر آتے تو اِن کو چپ کرانا مشکل ہو جاتا تھا قاری صاحب
جوش خطابت میں گھنٹوں بولتے تھے لیکن آج جیسے ان کے الفاظ تقریر کی چاشنی
جوش جذبہ کوئی چرا کر لے گیا تھا بے جان لاش کی طرح میرے سامنے بیٹھے تھے
میں بار بار قاری صاحب کی پرانی باتیں لطیفہ بازی یاد کرا کر اُن کو شگفتہ
کر نے کی کو شش کر رہا تھا لیکن میرے الفاظ شاید قاری صاحب کی سماعت سے
ٹکرائے بغیر ہی ان کے سر کے اوپر سے گزر رہے تھے جب میں بہت ساری کوششوں کے
باوجود بھی قاری صاحب کا غم ہلکا نہ کر سکا تو اپنی نئی کتاب نکالی اور
قاری صاحب کو پیش کی اور کہا قاری صاحب یہ میری نئی کتاب آئی ہے آپ کے ذوق
کے عین مطابق ہے آپ یقینا بہت زیادہ انجوائے کریں گے قاری صاحب نے کتاب پکڑ
کر گود میں رکھ لی قاری صاحب کی یہ سرد مہری میر ے لیے مزید حیران کن تھی
کہ قاری صاحب چہرہ تو کتاب دیکھ کر کھل اٹھتا تھا لیکن یہ وار بھی خالی گیا
تو میں نے قاری صاحب کے ہاتھ پکڑ لیے شفقت پیار سے لبریز لہجے میں پوچھا
قاری صاحب خیر ہے ناں آپ بہت پریشان اور اداس ہیں کوئی حادثہ چوری ڈکیتی ہو
گئی ہے یا خدا نہ کرے کسی عزیز کی موت ہو گئی ہے تو قاری صاحب نے ڈبڈبائی
چھلکتی آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور کرب ناک لہجے میں بولے پروفیسر صاحب
میں کتاب لے کر کیا کروں گا میرے گھر میں تو تین ماہ سے بجلی ہی نہیں ہے
تین ماہ پہلے دو ماہ کا بل جب بیس ہزار آیا تو میں وقت پر بل ادا نہ کر سکا
جس کی وجہ سے میری تار کاٹ دی گئی اب ہم لوگ تین ماہ سے بغیر بجلی کے زندگی
گزار رہے ہیں میری تنخواہ بارہ ہزار روپے ہے چھ بچوں کی روٹی پوری نہیں
ہوتی تو بجلی کا بل کہاں سے کیسے ادا کروں اب یا تو بجلی چوری کروں یا پھر
کسی کے گھر ڈاکا ڈالوں کیونکہ بارہ ہزار تنخواہ پر بیس ہزار کا بل اوپر سے
آٹا گھی دالوں کے نرخ آسمانوں کو چھو رہے ہیں مہنگائی کا سونامی ہم جیسے
غریبوں کو تیزی سے نگلتا جا رہا ہے اب کسی کی موت ہوتی ہے تو چند سو روپے
مردے نہلوانے کے مل جاتے ہیں اب لوگوں کے مرنے کی دعا تو نہیں کر سکتا
موجودہ گورنمنٹ نے مہنگائی کے عفریت کو کھلا چھوڑ دیا ہے جو بے دردی سے
غریبوں کو نگل رہا ہے آپ لوگ تو کھانے پینے کے مسائل سے دوچار نہیں ہوئے ہم
غریبوں نے تو ایک وقت کا کھانا شروع کر دیا ہے شادی بیاہ کا کھانا مل جائے
تو پیٹ بھر کر کھاتے ہیں ریاست مدینہ کے دعوے دار وں کو کوئی کیسے بتائے کہ
ریاست مدینہ میں تو زکوۃ بانٹنے والے ہزاروں تھے لیکن زکوۃ لینے والا کوئی
نہ تھا اب میری بیوی سارے کام دن میں کر لیتی ہے کیونکہ رات کو چراغ لالٹین
جلانے کے لیے تیل کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی ہم انتہائی مجبوری میں جلاتے ہیں
ورنہ شام ہوتے ہی سونے کی کوشش کرتے ہیں ہمیں تو لگتا ہے ہم سینکڑوں سال
پیچھے چلے گئے ہیں جب بجلی وغیرہ نہیں تھی مرغی سبزی دالیں ہماری بساط سے
باہر ہو گئی ہیں اب تو محلے سے لسی مانگ کر یا اچار مانگ کر اُسی سے کھانا
کھاتے ہیں وہ بھی آدھا ۔میرے کپڑے آپ دیکھیں صابن مہنگا ہو گیا ہے بیوی
بیچاری بغیر صابن کے کپڑے دھوتی ہے غربت نے تو ہماری جان ہی نکال دی ہے
اوپر سے آخری ظلم جس کے لیے میں آپ کے پاس آیا ہوں میری بیوی حاملہ ہے بچہ
دنیا میں آنے والا ہے ڈاکٹر کے پاس تو میں جا نہیں سکتا اب گاؤں کی دائی سے
بات کی تو اُس نے بھی مختلف ٹیکوں اور اپنی فیس کی فرمائش کر دی جو میرے
پاس بلکل بھی نہیں تو میں آخری سہارے کے طور پر آپ کے پاس آیا ہوں اِس کے
ساتھ ہی قاری صاحب نے رونا شروع کر دیا جناب میں آپ کے پاس کبھی نہ آتا
لیکن مجھے ڈر ہے کہ دوران زچگی میری بیوی انتقال نہ کر جائے اِس لیے پیسے
لینے آپ کے پاس آگیا پھر قاری صاحب بلک بلک کر رونے لگے اور اپنی آنکھوں سے
بہتا ساون اپنے رومال میں جذب کر نے لگے قاری صاحب غربت سفید پوشی کی پل
صراط پر ٹکڑے ٹکڑے ہو کر میرے پاس آئے تھے قاری صاحب کی حالت زار دیکھ کر
میرا کلیجہ پھٹ رہا تھا اور معاشرے کے بانجھ پن پر دکھی ہو رہا تھا قاری
صاحب جو مذہبی تعلیم لوگوں میں بانٹتے ہیں وہ غربت کی چتا پر جھلس جھلس کر
تڑپ رہے ہیں لیکن کسی کو پتہ نہیں ہر انسان اپنے ہی حال میں مست اور حکومت
جو دنیا جہاں کے خواب دکھا کر اقتدار کے ایوانوں پر قابض ہوئی تھی اُس کے
کان پر جوں تک نہیں رینگتی کہ پاکستان کے چپے چپے پر قاری صاحب جیسے غربت
سفید پوش اِس عوام کش سسٹم میں موت کے غار میں خاموشی سے اُتر تے جارہے ہیں
غربت دیمک کی طرح غریبوں کو چاٹ رہی ہے جبکہ اہل اقتدار مزے سے تقریروں اور
مخالفین کو کرش کر نے میں لگے ہوئے ہیں حکومتی وزرا کا ایک ہی کام کہ وزیر
اعظم صاحب کی مدح سرائی میں ایک دوسرے کو نیچا دکھا نا کسی کو بلکل بھی خبر
نہیں کہ پاکستان کے گلی محلوں میں غربت خوفناک اژدھے کی طرح لوگوں کو ڈس
رہی ہے یہ سارے مجبور بے بس لوگ روز قیا مت اہل اقتدار کے گریبان کو ضرور
پکڑے گے لیکن روز قیامت سے پہلے قبر کی تاریکی اور زہریلے کیڑے اِن کا
سواگت کریں گے پھر اِن کے جسموں میں سڑکیں بنا کر رقص کریں گے پیٹ پھٹ
جائیں گے اِن کی نازک جسموں کے ریشے کیڑوں کے نظام ہضم سے گزار کر مٹی ہو
جائیں گے کاش کوئی غریبوں کا حال بھی پوچھے میں نے قاری صاحب کی مالی مدد
کے ساتھ ہر ماہ راشن بیگم کی زچگی میں مدد کا وعد ہ کیا تو قاری صاحب تو
مطمئن ہو کر چلے گئے لیکن پاکستان کے چپے چپے پر ایسے ہی انسان غربت کے
اندھے غار میں مر رہے ہیں اُن کو کون پوچھے گا پتہ نہیں کب اﷲ تعالی کو اہل
زمین پر ترس آئے گا اور کوئی نیک حکمران یہاں آئے گا ۔
|
|