|
|
انسانی فطرت میں لالچ کا عنصر اس کو ہمیشہ مسائل کا شکار
کرتا ہے۔ مگر اس کے باوجود دوسروں کے تجربات سے سبق سیکھنے کے بجائے ہمیشہ
اپنی لالچ کے ہاتھوں نقصان اٹھاتا ہے اور چالاک اور ہوشیار لوگ اس کی سادہ
لوحی کا استعمال کر کے امیر سے امیر تر ہوجاتے ہیں- |
|
ایسا ہی ایک فرد ڈبل شاہ بھی تھا جس کا اصل نام سید سبط
الحسین شاہ تھا اس کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا اور وہ پنجاب کے علاقے
وزیر آباد کا رہائشی تھا- مگر اپنے بل بوتے پر اس نے بی ایس سی تک تعلیم
حاصل کی اور بی ایڈ کرنے کے بعد سرکاری اسکول کے ٹیچر کے طور پر کام کرنا
شروع کر دیا- |
|
مگر اپنی حالت سے غیر مطمئین سبط الحسین کو دولت کی چاہ
تھی جو کہ ایک ٹیچر کی نوکری سے پوری نہ ہو سکتی تھی۔ جس پر اس نے بیرون
ملک نوکری کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ یہاں تک کہ اس کو دبئی کے ایک اسکول
میں حساب کے ٹیچر کے طور پر نوکری مل گئی اور وہ سرکاری نوکری میں چھٹی کی
درخواست بھر کر دبئی روانہ ہو گیا- |
|
|
|
وہاں پر اس کی ملاقات ایک دوست سے ہوئی جس نے اس کو پیسے
ڈبل کرنے کا آسان ترین طریقہ بتایا ۔ جس کو سیکھ کر سبط الحسین کچھ ہی
مہینوں میں واپس پاکستان آگیا اور اس نے اپنے پڑوسی سے کہا کہ اگر اس کو
اپنے پیسے پندرہ دن میں ڈبل کروانے ہوں تو وہ اس کو بیس ہزار دے۔ پڑوسی نے
اعتبار کر کے اس کو وہ پیسے دے دیے جو اس نے پندرہ دن میں ڈبل کر کے واپس
کر دیے- |
|
جس سے اس کی شہرت دوسرے لوگوں تک بھی پہنچی اور اس طرح
سے لوگ 2007 تا جوق در جوق لاکھوں کروڑوں روپے ڈبل شاہ کو دینے لگے جو ان
کے پیسے شروع میں صرف پندرہ دنوں میں اور بعد میں نوے دن میں ڈبل کر کے
واپس کرنے لگا- |
|
اس سارے معاملے کا حیرت انگیز پہلو یہ تھا کہ ڈبل شاہ
نامی اس فرد سے کسی کو کوئی شکایت نہ تھی وہ لوگوں سے پیسے لیتا اور ان ہی
کے لیے پیسے دوسرے لوگوں سے پیسے ڈبل کر کے واپس کر دیتا جس سے سب ہی خوش
اور مطمئین تھے اور اس طرح صرف چھ سے سات مہینوں میں اس نے لوگوں سے سات
ارب روپے تک جمع کر لیے- |
|
اس کے اس فراڈ کی قلعی اسی کے دیے ہوئے ایک
اشتہار سے کھلی جس میں اس نے ایک دن اعلان کیا کہ وہ اپنے پیر کے محلے کے
اوپر ایک دن ہیلی کاپٹر کے ذریعے نوٹ نچھاور کرے گا- یہ خبر جب نیب والوں
تک پہنچی تو انہوں نے اس کے خلاف تحقیقات کا اعلان کر دیا اور یہ جاننے کی
کوشش شروع کر دی کہ وہ لوگوں کے پیسے ڈبل کر کے کس طریقہ کار کے تحت دے رہا
ہے- |
|
|
|
ڈان اخبار میں چھپنے والی اس خبر پر تحقیقات کی
ذمہ داری اس وقت کے ڈپٹی ڈائیریکٹر سید حسنین علی شاہ کو سونپی گئی- جن کا
کہنا تھا کہ ڈبل شاہ کے اس فراڈ کی تحقیقات کرنے کے بعد اس کو گرفتار کرنا
ان کے لیے بہت دشوار ثابت ہوا کیونکہ وہ نہ صرف تیزی سے جگہ تبدیل کرتا تھا
بلکہ تبدیلی کے وقت صرف سم نہیں بدلتا تھا بلکہ پورا موبائل فون ہی پھینک
دیتا تھا تاکہ اس کو پکڑا نہ جاسکے- |
|
لوگوں کے پیسے ڈبل کر کے واپس کرنے والے اس فرد
پر لوگوں کے اعتبار کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے گھر کے زیورات بیچ کر زمینیں
بیچ کر پیسے ڈبل شاہ کو دیتے اور وہ اس کو ڈبل کر کے واپس کر دیتا تھا- |
|
نیب نے 13 اپریل 2007 میں جب اس کو گرفتار کیا
تو لوگ اس کی حمایت میں سڑکوں پر آگئے مگر جب تحقیق کی گئی تو اس کا جرم
ثابت ہو گیا اور جنوری 2012 میں اس کو دھوکہ دہی کے جرم میں چودہ سال قید
بامشقت کی سزا سنا دی گئی- |
|
مگر اپنی سزا کی مدت پوری ہونے سے قبل ہی 2015
میں جیل میں دل کا دورہ پڑنے سے اس کا انتقال ہو گیا- اس کے مرنے کے بعد
بھی آج بھی لوگ اس کو ڈبل شاہ کے طور پر یاد رکھتے ہیں ان میں وہ لوگ بھی
شامل ہیں جنہوں نے اس سے فائدہ اٹھایا اور وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے
اپنی لالچ کے سبب اپنی ساری زندگی کی جمع پونجی ڈبل شاہ کے حوالے کر کے لٹا
دی- |