|
|
میاں بیوی کے درمیان جب اختلافات اس حد پر پہنچ جائیں کہ
ساتھ رہنا محال ہوجائے تو اکثر طلاق ہی ایک راستہ سامنے رہ جاتا ہے۔۔۔ ایسی
صورت میں جو سب سے مشکل کام ہوتا ہے وہ بچوں کو یہ بات سمجھانا ہوتا ہے کہ
ہم ماں باپ کیوں الگ ہو رہے ہیں۔۔۔ زیادہ تر دس سال سے کم عمر بچے ماں کے
ساتھ ہی رہتے ہیں جبکہ اس سے بڑے بچوں میں ان کی رائے جانی جاتی ہے کہ وہ
کس کے ساتھ رہنا پسند کریں گے۔۔۔بچے کسی کے ساتھ بھی رہیں لیکن انہیں اس
بات سے آگاہ کرنا ضروری ہے کہ یہ علیحدگی صرف والدین کے درمیان ہے۔۔۔اس کا
بچوں سے کوئی تعلق نہیں۔۔اور بچوں کے لئے دونوں برابر ہی رہیں گے۔۔۔ انہیں
سمجھانے کے کچھ اصول ہیں جنہیں دماغ میں رکھنا ضروری ہے۔۔ |
|
اپنے بچے کے دل سے خوف
دور کریں |
عموماً بچے اس بات سے گھبرا جاتے ہیں کہ والدین کا الگ
ہوجانا ان کی زندگی کو اب خراب کردے گا۔۔۔ اس کے لئے سب سے ضروری ہے کہ
اپنے دماغ سے اپنے پارٹنر کے لئے ساری نفرتیں ایک سائیڈ پر رکھیں اور بچے
کو کھلے الفاظ میں بتائیں کہ یہ ساتھ کیوں مشکل ہوگیا تھا۔۔۔ اس میں کسی
بھی طرح اپنے پارٹنر کی برائی نہیں کیجئے گا۔۔۔بچے کے دل سے یہ خوف نکالئے
گا کہ یہ علیحدگی اس کی وجہ سے ہوئی ہے۔۔۔کیونکہ اکثر بچے یہ سوچتے ہیں کہ
شاید وہ اس طلاق کی وجہ ہے۔۔۔ بچے کے سارے سوالات کے جواب بہت اطمینان اور
محبت سے دیں۔۔۔کیونکہ جتنا مشکل وقت آپ کے لئے ہے اس سے دو گنا زیادہ مشکل
اس کے لئے ہے۔۔۔اپنے پارٹنر سے بچے کے حوالے سے بات کرنا نہیں چھوڑیں تاکہ
بچے کو یہ احساس نا ہو کہ اس کے پاس والدین میں کسی ایک کی کمی ہے۔ |
|
|
رشتوں سے پیار کرنا
سکھائیں |
عموما جن بچوں کی زندگی میں ایسی کوئی سچویشن آتی ہے تو
وہ رشتوں سے گھبرانے لگتے ہیں۔۔۔ اگر ماں کے ساتھ رہتے ہوں تو باپ یا مردوں
کی صنف سے نفرت ہوتی ہے یا اگر باپ کے ساتھ ہوں تو عورتیں بری لگنے لگتی
ہیں یا ایک خوف بیٹھ جاتا ہے۔۔۔بچوں کو ہر رشتے کا احترام اور اہمیت
سمجھائیں۔۔۔ گھر میں مثبت ماحول بنائیں جہاں زیادہ سے زیادہ گھر، خاندان
اور رشتوں کے درمیان پیار محبت کی بات ہو۔۔۔ کچھ ایسی کتابیں لائیں یا
ڈاکیومینٹریز دیکھیں مل کر جہاں رشتوں سے محبت اور پیار کرنا بتایا
جائے۔اپنے بچے سے اس کے باپ یا ماں کے حوالے سے بات کرنے پر چڑنا نہیں
ہے۔۔بلکہ خوش دلی اور جوش سے اس کی بات کو سننا ہے اور پارٹیسیپیٹ کرنا ہے۔ |
|
|
ترس نا کھائیں |
یہ سوچ کر کہ اب آپ کا بچہ سنگل پیرنٹ کے ساتھ ہے نا تو
اسے بیچارہ بنائیں نا خود پر ترس کھائیں۔۔۔یہ احساس بچے میں احساس کمتری کو
پیدا کرے گا اور اسے آگے بڑھنے سے روکے گا۔۔۔ بچے کو بارہا یہ بتائیں کہ وہ
مضبوط ہے، وہ ذمہ دار شہری ہے ، وہ ایک نارمل زندگی گزار رہا ہے۔۔۔ اس کے
لئے گھر کے بنائے گئے اصولوں میں نرمی نا برتیں۔۔۔ پڑھائی، کھیل اور اسکرین
ٹائم میں توازن رکھیں اور بے جا لاڈ نا کریں۔ |
|