معذور کھلاڑی

پاکستان کے سلیم کریم نے دونوں ٹانگوں سے معذوری کے بعد معذور افراد کی کرکٹ ٹیم بنائی، فرحان سعیدبیساکھی کے سہارے دوڑتے ہوئے فاسٹ بالنگ کراتے ہیں، پیرالمکپس سمیت دیگر ٹورنامنٹس میں 17تمغے حاصل کرنے والی امریکی ایتھلیٹ تاتیانہ کا نچلا دھڑ مفلوج ہے

پاکستان کے سلیم کریم نے دونوں ٹانگوں سے معذوری کے بعد معذور افراد کی کرکٹ ٹیم بنائی، فرحان سعیدبیساکھی کے سہارے دوڑتے ہوئے فاسٹ بالنگ کراتے ہیں، پیرالمکپس سمیت دیگر ٹورنامنٹس میں 17تمغے حاصل کرنے والی امریکی ایتھلیٹ تاتیانہ کا نچلا دھڑ مفلوج ہے

عام کھلاڑیوں کے کارنامے تو روزانہ ہی ہماری نظروں سے گزرتے ہیں لیکن دنیا میں ایسے بھی ایتھلیٹس موجود ہیں جنہیں ’’خصوصی افراد‘‘ میں شمار کیا جاتا ہے۔ان خصوصی افراد نے اپنی جسمانی معذوری پر دل گرفتہ ہونے کی بجائے نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ زندگی گزارنے کا سلیقہ سیکھا۔ ان میں سے کئی افراد نے مختلف کھیلوں میں حصہ لے کر کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں۔ معذور کھلاڑیوں کی فہرست خاصی طویل ہے لیکن ذیل میں چند کھلاڑی کا تذکرہ نذر قارئین ہے جن میں تین پاکستانی کھلاڑی بھی شامل ہیں۔

سلیم کریم
1965میں کراچی میں جنم لینے والے کرکٹر، سلیم کریم کا تعلق تاجر گھرانے سے اور وہ خود بھی ایک کاروباری شخصیت ہیں۔ ان کی دائیں ٹانگ پیدائشی طور پر پولیو کی وجہ سے مفلوج تھی۔ انہیں بچپن سے ہی کرکٹ کھیلنے کا شوق تھا اور انہوں نے اپنی جسمانی معذوری کو اپنے شوق کی راہ میںآڑےنہیں آنے دیا اور مصنوعی ٹانگ کی مدد سے کرکٹ میچوں میں حصہ لیتے رہے۔جب وہ بڑے ہوئے تو موٹر سائیکل کے حادثے میں بائیں ٹانگ سے بھی معذور ہوگئے۔ دوسری ٹانگ سےمحرومی کے بعد بھی ان کے دل سے کرکٹ کھیلنے کی لگن ماند نہیں پڑی بلکہ اس کے بعد ان کے ذہن میں ایک نئے تخیل نے جنم لیا۔ سلیم کریم نے اپنے دیرینہ ساتھی، فرسٹ کلاس کرکٹر اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے میچ آفیشل ، امیر الدین انصاری کے ساتھ مل کر ایک ایسی کرکٹ ٹیم کے قیام کے لیے غور و خوض شروع کیا جو صرف جسمانی معذوری کے شکار کھلاڑیوں پر مشتمل ہو۔ کچھ عرصے بعد پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ کے ایک اہم کھلاڑی،محمد نظام بھی ان کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس مشن میں شامل ہوگئے ۔ سلیم کریم نےٹیم کے قیام کے لیے حکومتی اداروں سے مدد کی درخواست کرنے کی بجائے اپنےوسائلپر انحصار کرتے ہوئے اس مقصد کے لیے خود ہی قدم اٹھایا۔ 2006ء میں ’’پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۔ ٹیم کے لیے سب سے بڑا مسئلہ معذور کرکٹرز کی تلاش تھی۔ اس مقصد کے لیے تینوںشخصیات نے گھر گھر جانے کا فیصلہ کیا۔ماس کے لیے انہوں نے ملک بھر کے دورے کیے اور انہیں جہاں بھی معذور افراد کے بارے میںمعلوم ہوا، انہوں نے اس سے ملاقات کرکے کرکٹ کھیلنے کیتحریک پیدا کی۔خواش مند افراد کو کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میںٹرائل میں شرکت کی دعوت دی گئی، اس سلسلے میں تمام اخراجات ، سلیم کریم نے خود برداشت کیے۔ ٹرائل والے روز سلیم کریم،امیرالدین انصاری ، نظام الدین اور ایک اور ساتھی کرکٹر ، اکبرعالم دوپہر تک ٹرائل میں شریک ہونے والے کھلاڑیوں کا انتظار کرتے رہے۔ اس روز ضص معذور لڑکے ٹرائل میں شریک ہوئے، جنہیں ڈس ایبل کرکٹ ٹیم میں شامل کرلیا گیا۔ ان کھلاڑیوں میں وکٹ کیپر، فاسٹ بالر اور اسپن بالراورفیلڈرشامل تھے ۔ سلیم کریم نے اپنی ٹیم کے ساتھ پاکستان کے مختلف علاقوں کے دورے کیے اور صحت مند افراد کی ٹیموں کے خلاف میچز کھیلے۔ اس کے بعد پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ایسوسی ایشنقائم کی گئی جس میں سلیم کریم صدر، امیرالدین انصاری اعزازی سکریٹری اور محمد نظام جوائنٹ سکریٹری مقرر ہوئے۔ اگلے مرحلے میں پورے ملک میں کوآرڈی نیٹرز کا تقرر کیا گیاجنہوں نے اپنے اپنے علاقوں میں معذور کرکٹرز کے ٹرائل لے کر ٹیمیں تشکیل دیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے تسلیم کیے جانے کے بعد2010ء میں پہلی ڈس ایبلڈ قومی کرکٹ چیمپئن شپ کا انعقاد کراچی میں ہواجس میں ملک بھر سے معذور کرکٹر کی 12ٹیموں نے شرکت کی۔ 2010ء سے اب تک باقاعدگی سے قومی چیمپئن شپ کا انعقاد کیا جاتا ہے، جس میں 600سے 700کھلاڑی حصہ لیتے ہیں۔مذکورہ ٹیم نے 2010میں ملائشیااور سنگاپور کا دورہ کیا۔ 2012ء میں متحدہ عراب امارات کے وینیو پر انگلینڈ کے خلاف ایک روزہ اور ٹی ٹونٹی میچوں کی ہوم سیریز کھیلی جس میں مہمان ٹیم کو وائٹ واش شکست دی۔ 2014ء میںبرطانیہ کے ساتھ ہی دوسری مرتبہ سیریز کھیلی گئی اور پاکستانی ٹیم اس بار بھی فتح یاب رہی۔ 2015ء میں افغانستان کی ڈس ایبل کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر کراچی پہنچی، قومی ڈس ایل ٹیم نے اس بھی ایک روزہ اور ٹی ٹونٹی سیریز میں شکست سے دوچار کیا۔ 2015ء میں پانچ ملکی آئی آر سی انٹرنیشنل کرکٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد بنگلہ دیش میں ہوا جس میں پاکستان نے برطانوی ٹیم کو ہرا کر ٹرافی جیتی۔2016ء میں پاکستان ڈس ایبل ٹیم نے آئی سی سی ورلڈ کپ جیتا۔رواں سال جولائی میں برطانیہ میں پاکستان، بنگلہ دیش اور میزبان ملک انگلینڈ کے درمیان ، سہ ملکی کرکٹ ٹرافی ہوا جس میں پاکستانی ٹیم نے دونوں ممالک کو شکست دے کر ٹرافی جیت لی۔سلیم کریم کا لگایا ہوا پودا اب تناور درخت بن چکا ہے اور ڈس ایبل کرکٹ ٹیم دنیا کی ٹیموں کے سامنے ہر مقابلے میں فاتح رہی ہے۔

زہرا نعمتی
زہریٰ نعمتی، ایران کی معذور کھلاڑی ہیں، جنہوں نے اپنی جسمانی معذوری کو خاطر میں لائے بغیر کھیل کے شعبے میںاپنے ملک وقوم کا نام روشن کیا۔ زہریٰ، 30اپریل 1985ء کو ایران کے شہر کرمان میں پیدا ہوئیں۔ جب وہ بڑی ہوئیں تو ان کے والدین تہران منتقل ہوگئے۔ زہریٰ کو مارشل آرٹ کا جنون کی حد تک شوق تھا اورانہوں نے تائی کوانڈومیں ’’بلیک بیلٹ‘‘ حاصلکرنے کے بعد ایران کی قومی ٹیم میں جگہ بنالی تھی اور ان کی نگاہیں اولمکپس گیمز پر مرکوز تھی جس میں وہ گولڈ میڈل جیتنا چاہتی تھیںلیکن 2003ء میں جب وہ 18سال کی ہوئیں تو کار کے ایک حادثےمیں ان کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئیں۔ان کا مارشل آرٹس میں اولمپکس چیمپئن بننے کا خواب ادھورا رہ گیا لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری ۔ حاد ثے سے صحت یابی کے تین سال بعد انہوں نے تیراندازی کو بہ طور کھیل اپنایا اور اسے سیکھنا شروع کیا۔ صرف چھ ماہ کی محنت کے بعد انہوں نے تیراندازی کی قومی چیمپئن شپ میں وہیل چیئر پر بیٹھ کرحصہ لیا اور تیسری پوزیشن جیتی۔ 2013ء میں انہیں بنکاک میں منعقد ہونے والی ’’ورلڈآرچری چیمپئن شپ ‘‘ کےمابلوں میں حصہ لینے والی ایرانی ٹیم میں شامل کیا۔ زہریٰ نے اس ٹورنامنٹ کے انفرادی میچ میں طلائی جب کہ ٹیم کے ساتھ اجتماعی مقابلے میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ 2014ء میں انچیون ایشین گیمز میں بھی انہوں نے پہلی پوزیشن حاصل کی۔ 2015ء میں تیر اندازی کی ایشین چیمپئن شپ میں زہری نے نہ صرف طلائی تمغہ جیتا بلکہ پیرالمپکس گیمز کے لیے بھی کوالیفائی کرلیاے 2016ء میں برازیل کے شہر ریوڈی جنیرو میں منعقد ہونے والے اولمکپس گیمز میں اپنے ملک کے لیے دوسرا طلائی تمغہ جیتا۔

بکسٹر ہمبی
’’ون آرم بینڈٹ‘‘ کی عرفیت سے معروف کینڈین کک باکسر، بکسٹر ہمبی1972ء میںپیدا ہوئے۔دوران پیدائش ، بعض طبی نقائض کی وجہ سے ان کے دائیں ہاتھ کی نسیں مردہ ہوگئیں جس کی وجہ سے اسے کہنی تک کاٹنا پڑا۔ایک ہاتھ سے محرومی کے باوجود بکسٹر بچپن سے ہی مختلف کھیلوں میں حصہ لیتا رہے۔ 11سال کی عمر میں انہوں نے مارشل آرٹ سیکھنا شروع کیا اور کچھ ہی عرصے کے اندر اس میں مہارت حاصل کرلی۔17سال کی عمر میں انہوں نے ڈومیسٹک مقابلوں میں حصہ لیا ۔ 1992 اور 1994میں کینیڈین پیرالمپک نیشنل ٹریک ٹیم کے مقابلوں میں شرکت کی۔ دو سال بعدکینیڈین سپر ویلٹر ویٹ کک باکسنگ چیمپئن شپ جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔2010ء میں کیلی فورنیا میں منعقد ہونے والی آئی کے کے سی ، یو ایس اے کک باکسنگ چیمپئن شپ جیتی۔ اس وقت وہ ورلڈ سپر والٹرویٹ چیمپئن ہیں۔ بکسٹر دنیا کے پہلے ایتھلیٹ ہیں جنہوں نے صرف ایک ہاتھ کی مدد سے متعدد ملکی و بین الاقوامی اعزازات حاصل کیے۔

چیلیسا میک کلیمر
چیلیسا میک کلیمر پیدائشی طور سے معذور نہیں تھیں بلکہ وہ 6سال کی عمرتک بالکل تندرست تھیں۔ 6برس کی عمر میں چیلیسا کارکی ٹکر سے زخمی ہوگئیں۔ حادثے میں ان کی ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوئی جس کی وجہ سے ان کا نچلا دھڑ مفلوج ہوگیا لیکن معذوری کو انہوں نے اپنی شخصیت پر حاوی نہیں ہونے دیا ۔ وہ وہیل چیئر پر ٹینس،اور باسکٹ بال اور ٹریک ریسنگ کے کھیل میں حصہ لیتی رہیں۔ 2008ء میں وہ سب سے کم عمر ایتھلیٹ کے طور پر یوایس پیرالمپکس ٹیم کا حصہ بنیں اور 14 سال کی عمر میں بیجنگ اولمپکس مقابلوں میں شرکت کرکے اولمپک گیمز کی سب سے کم عمر ایتھلیٹ کا اعزاز حاصل کیا۔۔ 2008ء اور 2016میں پیرالمپکس چیمپئن رہیں۔ انہوں نے مختلف مقابلوں میں تین میڈلز جیتے جن میں سے دو نقرئی اور ایک کانسی کا تمغہ تھا۔ 2011ء میں وہ آئ پی سی ایتھلیٹک ورلڈ چیمپئن شپس کی رکن رہیں جب کہ 2012ء میں انہیں دنیا کی بہترین معذور خاتون ایتھلیٹ کے خطاب سے نوازا گیا۔

ملیسا اسٹاک ویل
1980ء میں مشی گن میں جنم لینے والی امریکا کی سابق فوجی آفیسر اور دو مرتبہ کی پیرالمپئن اور عالمی چیمپئن، میلیسا اسٹاک ویل، پیدائش معذور نہیں ہیں۔ انہیں بچپن سے ہی پیراکی کا شوق تھا اور زمانہ طالب علمی میں بھی وہ اس کھیل میں حصہ لیتی تھیں۔ 2001ء میں نائن الیون کے سانحے کے وقت وہ کولوریڈو یونیورسٹی میں فائنل ایئر کی طالبہ تھیں۔ امتحان پاس کرنے کے بعد انہوں نے فوج میں ملازمت کرلی اور ورجینیا میں آرمی کورپس میں ٹرانپورٹیشن آفیسر تعینات ہوئیں۔ 2004ء میں انہیں فرسٹ لیفٹننٹکے عہدے پر ترقی دے کر عراق بھیج دیا گیا۔ ایک فوجی قافلے کے ساتھ گشت کے دوران بغداد کی ایک سڑک کے کنارے نصب بم عین اس وقت پھٹا ، جب وہ اس کے قریب سے گزر رہی تھیں۔ اس دھماکے میں ان کی بائیں ٹانگ گھٹنے کے اوپر سے اڑ گئی۔ کئی ماہ تک وہ عراقی اسپتال میں زیر علاج رہیں۔ انہیں فوجی ملازمت سے سبک دوش کردیا گیا۔ انہوں نے عراق میں مستقل رہائش اختیار کرلی اور جنگ میں زخمی ہونے والے افراد کو علاج معالجہ فراہم کرنے والے ایک ادارے کی ڈائریکٹر بن گئیں۔ نئی ملازمت کے ساتھ انہوں نے دوبارہ پیراکی کے کھیل پر توجہ مرکوز کردی۔ 2008ء میں بیجنگ میں منعقد ہونے والے سمراولمپکس گیز میں انہوں نے عراقی دستے کے ساتھ مصنوعی ٹانگ کے ساتھ شرکت کی۔ پیراکی کے تین مختلف مقابلوں میں انہوں نے بالتریب چوتھی، پانچویڈں اور چھٹی پوزیشن حاصل کی۔ بیجنگ اولمپکس کی اختتامی تقریب میں انہوں نے اپنے آبائی وطن ، امریکا کا پرچم اٹھا کر شرکت کی۔ بیجنگ سے واپسی کے بعد انہیں 2010ء میںپڈاپسٹ میں ہونے والی آئی ٹی یو پیراٹرائی تھلون ورلڈ چیمپئن شپ کےلیے امریکی دستے میں شامل کیا گیا۔ انہوں نے مذکورہ چیمپئن شپ جیت لی۔ 2011 اور 2012ء میں ملیسا نے پیرامکی کی ورلڈ چیمپئن شپ جیتی۔2016ء میں ریڈی جنیرو کے پیرالمکپس گیمز میں انہوں نے پیراکی کے مقابلوں میں کانسی کا تمغہ جیتا۔عراق میں فوجی خدمات پر انہیں امرکا کے اعلیٰ ترین اعزازات ’’برونزے اسٹار‘‘ اور ’’پرپل ہرٹ‘‘ سے نوازا گیا۔

تاتیانہ میک فیڈن
پیرالمپکس گیمز میں 17تمغے جیتنے والی تاتیانہ میک فیڈن1989میں سوویت یونین کے شہر لینن گراڈ میں پیدا ہوئی۔ اسے پیدائش کے وقت سے ہی ’’اسپائنا بیفیڈا‘‘ نامی بیماری لاحق تھی ۔ مہروں کی خرابی کی وجہ سےکمر سےنیچے کا دھڑ ناکارہ ہوگیا تھا۔ڈاکٹر نومولود بچی کی زندگی کی جانب سے بہت مایوس تھے انہوں نے تاتیانہ کی ماںکو بتایا کہ اس کی بیماری ناقابل علاج ہے جس کی وجہ سے وہ صرف چند روز ہی زندہ رہ سکے گی اور اگر بچ بھی گئی تو صرف وہیل چیئیر و نقل و حرکت کرسکے گی۔ اس کی ماں ایک غریب خاتون تھیں، وہ اپنی بیٹی کا علاج ممعالجہ کرانے اور وہیل چیئر خریدنے سے قاصر تھیں، انہوں نےانتہائی دل گرفتگی کے ساتھ اسے ایک یتیم خانے کے سپرد کردیا۔ وہاں مناسب دیکھ بھال اور علاج کی وجہ سے وہ صحت یاب ہوگئی لیکن اس کی وہ ٹانگوں سے قطعی معذورتھیں جس کی وجہ سے وہ ہاتھوں کے بل چلتی تھی۔ ایک مرتبہ امریکا کے محکمہ صحت کے ادارہ برائے جسمانی معذورین کی سربراہ ڈیبور ا میک فیڈن اور ان کے شریک کار’’ بریجٹ اوشانیسی‘‘ روس کے دورے پر آئے ۔ انہوں نے مذکورہ یتیم خانےکا بھی معائنہ کیا ۔ یہاں ان کی نظر تاتیانہ پر پڑی جو ہاتھوں کے بل چلتی ہوئی ایک گیند پکڑنے کی کوشش کررہی تھی۔ڈیبورانے یتیم خانے کے منتظمین سے گفتگو کرکے اس بچی کو گود لے لیاحالاں کہ ان کی ایک بیٹی ’’ہناّمیک فیڈن‘‘ پہلے سے موجود تھی جو جسمانی طور سے معذور تھی۔ وہ تاتیانہ کو لے کر امریکا کے شہر بالٹی مور آگئیں۔ ڈیبورا نے اس کی ایک ماں کی طرح رورش کی اور اس کا نام ؟؟تاتیانہ میک فیڈن‘‘ رکھا۔ نہوں نے تاتیانہ کے علاج کے ساتھ ساتھ اس کے اعصاب اورعضلات کو مضبوط بنانے کے لیے اسے مختلف کھیلوں کی جانب مائل کیا۔ تاتیانہ، اپنی بہن ہناّ کے ساتھ پیراکی ، جمناسٹک، وہیل چیئر باسکٹ بال کھیلا کرتی تھی جب کہ دونوں بہنیں وہیل چیئر پر بیٹھ کر ایک دوسرے سے ریس بھی لگایا کرتی تھیں۔8سال کی عمر میں تاتیانہ نے وہیل چیئر دوڑ کے مقابلوں میں حصہ لینا شروع کیا۔ جب وہ بڑی ہوئی تو تاتیانہ کو علم حاصل کرنے کا بھی شوق تھا اور اس نے شکاگو کی الی نوائس یونیورسٹی سے ہیومن ڈیولپمنٹ اور فیملی اسٹڈیز میں گریجویشن کیا۔ دورا ن تعلیم ، وہ یونیورسٹی کی وہیل چیئر باسکٹ بال ٹیم میں بھی شامل رہیں۔ میک یونیورسٹی کے ایک استاد ، ایڈم بلیکنی جو خود بھی معذور تھے، وہیل چیئر دوڑ کے ماہر تھے، انہوں نے تاتیانہ کی وہیل چیئر دوڑ میں کوچنگ کے فرائض انجام دیئے۔2004ء میں صرف14سال کی عمرمیں انہیںایتھنز میں منعقد ہونے والےسمر پیرالمپکس گیمزمیں شرکت کرنے والے امریکی کھلاڑیوں کے دستے میں شامل کیا گیا۔ ایتھنزپیرالمکپس گیمز میںتاتانیہ نے یفقید المثال کارکرگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے100میٹر کی دوڑ میں نقرئی جب کہ 200مٹر کے مقابلے میں کانسی کا تمغہ جیتا۔ اس ایونٹ میں اس نے 400میٹر کی دوڑ میں پانچویں پوزیشن حاصل کی۔ 2008کے بیجنگ پیرالمپکس گیمز میں تاتیانہ نےمعذور خواتین کی 200اور 400اور 800میٹر کی دوڑ میں تین سلور میڈل حاصل کیے جب کہ 100میٹر کی دوڑ میں وہ چھٹی پوزیشن پر رہیں۔2009 میں تاتیانہ نے اپنی توجہ صرف مختصر فاصلے کی دوڑ پر مرکوز کردی اور اسی سال انہوں نے شکاگو میراتھن میں حصہ لیا اور فاتح رہیں۔ 2010ء میں نیویارک سٹی، 2011میں شکاگو ، لندن ، بوسٹن اور 2015ء میں نیویارک میں وہیل چیئر دوڑ کے مقابلوں میں فاتح رہیں۔2012ء میں لندن میں منعقد ہونے والے پیرالمپکس گیمز میں تاتیانہ نے اپنی بہن، ’’ہناّ میک فیڈن‘‘ کے ساتھ100میٹردوڑ کے مقابلوں میں حصہ لیا۔ 2013ء میں تاتیانہ نے فرانس میں منعقد ہونے والی آئی پی سی ایتھلیٹک کی عالمی چیمپئن شپ میں 100میٹر کی دوڑ کے مقابلوں میں 6طلائی تمغے جیتے۔ اسی سال انہوں نے بوسٹن، شکاگو، ، لندن اور نیویارک میں منعقد ہونے والی میراتھن ریس میں سبقت حاصلکرکے ایک ہی سال میں 4میراتھن مقابلے جیتنے کا عالمی ریکاڈ قائم کیا۔2014ء میں تاتیانہ نےاپنے آبائی وطن، روس کے شہر سوچی میں منعقد ہونے والے سرمائی پیرالمپکس گیمز میں شرکت کی۔ انہوں نےسوچی اولمپکس کے ایک کلومیٹر دوڑ کے مقابلے میں چاندی کا تمغہ جیتا جب کہ 12کلومیٹر دوڑ کے مقابلے میں وہ 5ویں پوزیشن پر رہیں۔ان گیمز کی خاص بات یہ تھی کہ ان مقابلوں کو تاتیانہ کی حقیقی ماں نے بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ اسٹیڈیم میں بیٹھ کر دیکھااور انعام ملنے کے بعد اپنی بیٹی سے ملاقات کی۔سوچی گیمز کے ایک ماہ بعدانہوں نے لندن میں میراتھن دوڑ میں شرکت کرکے نہ صرف اقنے اعزاز کا دفاع کیا بلکہ کم وقت میں فاصلہ طے کرنے کا نیا ریکارڈ قائم کیا۔2015میں تاتیانہ نے نیویارک میراتھن، اکتوبر 2017ء میں شکاگو میراتھن اور 2018ء میں بوسٹن میراتھن میںطلائی تمغے جیتے۔

شیر علی آفریدی
صوبہ خیبر پختون خوا کی خیبر ایجنسی کے علاقے باڑہ سے تعلق رکھنے والے شیر علی آفریدیپاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بالر ہیں۔وہ اپنی مصنوعی ٹانگ پر دوڑتے ہوئے تیز ترین گیند کراتے ہیں۔ شیر علی آفریدی کی بالنگ کی خاص بات یہ ہے کہ وہ بہت سے نارمل بالرز کی بہ نسبت تیز گیندیں کراتے ہیں۔1995ء میں پیدا ہونے والے،شیر علی کو یہ معذوری پیدائشی نہیں ملی بلکہ جب وہ دو سال کے تھے تو طوفانیجھکڑوں کی زد میں آکر ان کے مکان کے اس کمرے کی چھت گر گئی جس میں شیر علی اور ان کی ننھی کزن سو رہے تھے، دونوں بچےملبے تلے دب گئے ۔لوگوں نے آکر بچوں کوملبے کے نیچے سے نکالا، لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ ان کی کزن اس حادثے میں ہلاک ہوچکی تھیں جب کہ ان کی ٹانگ کی ہڈی ران کے پاس سے مکمل طور پر ٹوٹ چکی تھی ۔اس دور میں صوبہ سرحد میںطبی سہولتوں کا حصول بے انتہا دشوار تھا۔زخمی آفریدی کو حادثہ کے کئی گھنٹے بعدپشاور میں واقع اسپتال پہنچایا گیا۔وہاں مختلف تشخیصی ٹیسٹس اورایکسرے کے بعد ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کے پیر کے زخم اس حد تک خراب ہوچکے ہیں کہ ان کی زندگی بچانے کے لئے ٹانگ کا ٹنا ہوگی ۔والدین کی اجازت کے بعد ان کی ٹانگ گھٹنے کے اوپرسے کاٹ دی گئی اور انہیں مکمل طور سے صحت یاب ہونے میں تقریباً تین سال لگے۔شیر علی کے والد نے ان کے لیےمصنوعی ٹانگ بنوا دی جس کی مدد سے وہ چلنے پھرنے لگے۔ ابتدا میں انہیں دشواری پیش آئی لیکن کچھ عرصے بعد وہ اس ٹانگ کے عادی ہوگئے۔لیکن ہر دو سال بعد نئی مصنوعی ٹانگ بنوانے کی ضرورت پیش آتی تھیکیوں کہ بدن کی بڑھوتری کے ساتھ پہلی والی ٹانگ چھوٹی پڑ جاتی تھی۔پانچ سال کی عمر میں انہیں اسکول میںداخل کرایا گیا، ان کے جسمانی نقص کی وجہ سے ان کے ہم جماعت ، ان کا مذاق اُڑاتے اور تنگ کرتے تھے ۔وہ اس بات کا تذکرہ جب اپنے والدین سے کرتے تو وہ ان کا حوصلہ بڑھایا کرتے تھے، جس کی وجہ سےشیر علی نے اپنی پڑھائی جاری رکھی۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھانہیں کھیلوں سے بھی دل چسپی تھی اور اسکول میں صرف دو کھیل کرکٹ اور والی بال کھیلے جاتے تھے۔انہوں نےاپنی مصنوعی ٹانگ کے سہارے،ان دونوں کھیلوں میں بھر پور حصہ لیا۔ کرکٹ کھیلنے کا انہیں جنون کی حد تک شوق تھا ۔میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد،وہ جیم خانہ گراؤنڈ گئے اور کرکٹ کلب میں داخلہ لے لیا ۔داخلے کے وقت کلب کے کوچ نے ان سے کہا کہ آپ تو معذور ہیں، کرکٹ کیسے کھیلیں گے؟انہوں نے جواب دیا کہ آپ مجھے چانس تو دیں ، میں اپنی اہیت سے خود کو کلب کا بہترین کھلاڑی ثابت کرنے کی کوشش کروںگا۔ جب انہوں نے کلب کی سطح سے کھیل کا آغاز کیا تو ان کی پرفارمنس سے کلب کے آفیشلز بہت متاثر ہوئے۔کچھ عرصے بعدانہیں ایک دوست کے توسط سے، پشاور کے قیوم اسٹیڈیم میں ڈس ایبل کرکٹ ٹیم ٹرائل کی اطلاع ملی۔ انہوں نے بھی پشاور پہنچ کر بالر کے لیے ٹرائل دیا۔ انہیں فاسٹ بالر کی حیثیت سے ٹیم می منتخب کرلیا گیا۔ اس کے بعد آل پاکستان ڈس ایبل کرکٹ کا ٹورنامنٹ ہوا جس میں شیر علی کی کارکر دگی متاثر کن رہیجس کے بعد وہ قومی سطح پر مشہور ہوگئے۔ اس کے بعد انہوں نے قومی ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم میں شمولیت کے لیے ٹرائل دیا جس میں انہیںمنتخب کر لیا گیا۔

2012 میں پاکستان ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم نے بھارت کا دورہ کرکے T20 میچوں کی سیریز کھیلی۔ ان کی تیز گیندوں نے بھارتی کھلاڑیوں کو بہت پریشان کیا۔ پاکستانی ٹیم نے میزبان ملک کو وائٹ واش شکست دی۔ افغانستان کی ٹیم کے دورہ پاکستان کے دوران بھی ان کی بالنگ کی وجہ سے پاکستانی ٹیم فاتح رہی۔2014 میں پاکستان ڈس ایبلڈ ٹیم نےسوئٹزر لینڈ اور فرانس کا دورہ کیا اور ان ممالک کی کلب ٹیموں کے خلاف میچ کھیلے ۔ پاکستان کی معذور کھلاڑیوں کی ٹیم نے یورپی کلبس کے نارمل کرکٹرز کا مقابلہ کیا۔ ان میچوں میںشیر علی نے بہترین بالنگ اسپیڈ کا مظاہرہ کیا اور ان کی بالنگ میں شعیب اختر کی گیندوں کی جھلگ نظر آئی۔ ان میچوں میں انہوں نے 132 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بالنگ کرائی۔شیر علی کو سوئٹزر لینڈ کرکٹ بورڈ کی طرف سے ’’اسپرنٹر بالرز‘‘ کا ایوارڈدیا گیا۔

فرحان سعید
1986ء میں کراچی کے نواحی علاقے، کورنگی میں جنم لینے والے فرحان سعیدقومی ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم کےمنٹرد فاسٹ بالر ہیںاجو بیساکھی کے سہارے دوڑتےہوئے تیز گیندیں کراتے ہیں۔ فرحان سعید جب دو سال کے تھے تو انہیں بخار ہوا جس کے بعد پولیو کی بیماری میں مبتلا ہو گئے جس کے نتیجہ میں اان کی بائیں ٹانگ مفلوج ہو گئی۔اپنی معذوری اور گھریلو تنگ دستی کی وجہ سے وہ صرف ابتدائی تعلیم حاصل کرسکے اور ہ 15برس کی عمر میںانہیں چوڑیوں کے کارخانے میں ملازمت کرنا پڑی۔وہ اپنی معذوری کی وجہ سے بہت دل گرفتہ رہتے تھے۔ایک روز وہ گھر کے باہر بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے گلی کے چند لڑکوں کو ٹینس بال کی مدد سے کرکٹ کھیلتے دیکھا۔ وہ ان کے پاس گئے اور ان کے ساتھ کھیل میں شریک ہوگئے۔ انہوں نے بیساکھی کے سہارے دوڑتے ہوئے بالنگ کرائی۔ اس تجربے نے انہیں حوصلہ دیااور وہ ایک نئے عزم اور ولولے کے ساتھ محلے کی سطح پر منعقد ہونے والے میچوں میں حصہ لینے لگے۔ انہیں کھیلتا دیکھ کر لوگوں نے ان کی حوصلہ افزائی کی۔ 2007ء میں فرحان کے چنددوستوں نے انہیں اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر دکھائی جس میں ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم کے لیے کھلاڑیوں کے ٹرائلز کا اعلان شائع ہوا تھا۔ فرحان نے اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا اور مذکورہ دن نیشنل اسٹیڈیم پہنچ گئے، وہاں ان کی طرح جسمانی معذوری کا شکار 12کھلاڑی پہلے سے موجود تھے۔ ڈس ایبلڈ کرکٹ ٹیم کے روح رواں، سلیم کریم نے ہر کھلاڑی سے ملاقات کی اورٹرائلز لینے کے بعددو سے تین پریکٹس سیشنز منعقد ہوئے جس کے بعد تمام کھلاڑیوں کو قومی ٹیم کے لیے منتخب کرلیا گیا۔ٹیم کی تشکل کے بعد،پاکستان کرکٹ اکیڈمی کے ساتھ پہلا میچ منعقد ہوا ، جس میں فرحان سعید نے پہلی وکٹ حاصل کی۔اس کے بعد علاقائی سطح پر میچ کھیلے جاتے رہے۔ 2010ء میںپہلی ڈس ایبلڈقومی کرکٹ چیمپئن شپ کا انعقاد کراچی میں ہوا ۔ افتتاحی میچ میں دنیائے کرکٹ کی اہم شخصیات نے شرکت کی جن میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے چیئرمین ہارون لورگاٹ اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین سمیت بعض نام ور کرکٹرز بھیاسٹیڈیم میں موجود تھیں۔میچ شروع ہونے کے بعد جب فرحان سعید بیساکھی کے سہارے دوڑتے ہوئے اوور کی پہلی گیند کرانے آئے تو اس وقت ہر آنکھ اشک بار ہوگئی اور تماشائیوں نے کھڑے ہوکر تالیاں بجاتے ہوئے فرحان سعید کو داد دی۔2012 میں فرحانسعید کو متحدہ عرب امارات میں انگلینڈ کی ٹیم کے خلاف کھیلنے والی ٹیم اسکواڈمیں شامل کیا گیا۔۔2015 میں ٹیم نے بنگلہ دیش، افغانستان، انڈیا اور انگلینڈ کے خلاف میچ کی سیریز کھیلی۔ اور شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ان تمام میچوں میں بہترین باؤلر کی ٹرافی فرحان کو ملی۔
 

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 213 Articles with 222918 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.