باکسنگ

مائیک ٹائی سن نے صرف ایک آنکھ کے ساتھ باکسنگ مقابلوں میں حصہ لے کر عالمی چیمپئن شپ جیتی

مائیک ٹائی سن نے صرف ایک آنکھ کے ساتھ باکسنگ مقابلوں میں حصہ لے کر عالمی چیمپئن شپ جیتی

باکسنگ کا شمار جنگجویانہ کھیلوں میں ہوتا ہے جسے زمانہ قدیم میں رومی شہنشاہوں نے اپنی تفریح طبع کے ساتھ ساتھ جنگی فنون میں ماہر سپاہیوں کی بھرتی کے لیے فروغ دیا۔ اس کھیل میں دو افراد حفاظتی دستانے پہن کر باکسنگ رنگ میں ایک معینہ وقت کے متعدد راؤنڈز میں ایک دوسرے پر گھونسے برساتے ہیں۔ یہ کھیل بھی بین الاقوامی مقابلوں میں شامل ہے اور اولمپک اور دولت مشترکہ کے کھیلوں کے علاوہ باکسنگ کی عالمی تنظیموں کی طرف سے عالمی چیمپئن شپ کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس کھیل کی ابتدا میں باکسنگ کے کھیل کے لیے کوئی اصول و ضوابط اور قاعدے و قوانین نہیں بنائے گئے تھے۔ باکسر اپنی ہاتھوں میں ٹھوس چمڑے کے دستانے پہنتے تھے ، جو تسموں سے کلائی کے گرد کسے جاتے تھے، بعد میں ان دستانوں کے اندر دھات بھری جانے لگی جس کی وجہ سے یہ مہلک ہتھیار کی صورت اختیار کرگئے اور اس کھیل کا اختتام لڑنے والوں میں سے کسی ایک باکسر کی موت پر ہوتا تھا۔ رومی شہنشاہ اپنی وحشیانہ جبلت کی تسکین کے لیے ان مقابلوں کا انعقاد اپنے غلاموں کے درمیان کراتے تھے، اس کے لیے غلاموں کی خریداری ہوتی تھی، انہیں باکسنگ کے کھیل کی تربیت فراہم کی جاتی تھی۔ ابتدا میں یہ کھیل فرش پر کھیلا جاتا تھا،اکھاڑے کے گرد بادشاہ اور دیگر معززین بیٹھتے تھے، ان مقابلوں کی صورت میں باکسر نہ صرف ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے ، بلکہ ان کا اختتام کسی ایک کھلاڑی کی موت پر ہوتا تھا۔ 393ء میں اس کی ہیئت میں تبدیلی ہونے لگی اور اس کا انعقاد باقاعدہ طور سے باکسنگ رنگ میں ہونے لگالیکن ایک صدی بعد اس کھیل کے دوران ہونے والی اموات کی وجہ سے اس پر پابندی عائد کردی گئی۔ 17ویں صدی کے اواخر میں لندن میں اس کا دوبارہ آغاز کیا گیا، 1681ء سےوہاں باقاعدہ مقابلوں کا انعقاد ہونے لگااور 1681ء میں ’’البارمل‘‘ کے ڈیوک جو بعد میں جمیکا کے لیفٹننٹ گورنر مقرر کیے گئے، انہوں نے برطانیہ میں پہلی بار باکسنگ مقابلوں کا انعقاد کرایا۔ یہ مقابلہ ان کے باورچی اور قصاب کے درمیان ہوا جس میں ایک باکسر کی موت کے بعد جیتنے والے باکسر کو انعامات و اعزازات دیئے گئے۔ 1719ء میں برطانیہ میں پہلی باکسنگ چیمپئن شپ منعقدہوئی جسے’’ جیمز فگ‘‘نے جیتا ۔باکسروں کو رنگ کے اندر مرنے سے بچانے اور اس کھیل کو ’’خونی‘‘کی بجائے تفریحی مقاصد کی خاطر بنانے کے لیے1743ء میں باکسنگ چیمپئن، جیک براٹن نے قواعد و ضوابط بناکر انہیں قانونی شکل دی جسے ’’براٹن رولز‘‘ کا نام دیا گیا۔سخت چمڑے یا دھاتی دستانو ں کی جگہ نسبتاً نرم دستانوں نے لے لی۔ باکسروں کے مکوں کو طاقتور بنانے کے لیے انہیں کئی من ریت بھرے ہوئے تھیلے جنہیں باکسنگ پیڈ کہتے ہیں ، ان پر گھونسے بازی کی مشق کی جاتی ہے، جس میں پیروں اور جسمانی حرکات و سکنات کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس کی ایک شق کے مطابق اگر ایک باکسر لڑائی کے دران نیچے گر جائے اور تیس سیکنڈ گنتی گننے کے بعد بھی نہ اٹھ سکے تو مقابلہ ختم کردیا جاتا ا۔ 1867ء میں للی برج لندن میں ہونے والی ایمیچر چیمپئن شپ کے لیے ’’جان چیمبر‘‘ نے مارکوئیس آف کوئنزبری کے 12ضوابط وضع کیے۔ اس چیمپئن شپ میں پہلی مرتبہ لائٹ ویٹ، مڈل ویٹ اور ہیوی ویٹ چیمپئن شپ کا انعقاد کیا گیا۔باکسنگ کے موجودہ قوانین کے مطابق ہر مقابلہ 9سے 12راؤنڈز پر مبنی ہوتا ہے جس کا ہر راؤنڈ 3منٹ پر محیط ہوتا ہے۔ ہر راؤنڈ کے درمیان ایک منٹ کا وقفہ ہوتا ہے جس میں باکسر اپنی سانسیں درست کرتا ہے، اسٹاف کے اراکین اس کے جسم سے پسینہ صاف کرتے ہیں، طبی عملہ اسے طبی امداد فراہم کرتا ہے جب کہ اس کا کوچ اسے مقابلے کی نئی تیکنیکس بتاتا ہے۔ باکسنگ مقابلے کی نگرانی رنگ میں موجود ریفری کرتا ہے، جو مقابلے کے دوران باکسنگ قوانین اور ضوابط کے مطابق فاؤل دینے اور دیگر فیصلے کرنے کا مجاز ہوتا ہے جب کہ رنگ کے باہر بیٹھے ہوئے تین ججز مقابلے کے پوائنٹس لکھتے ہیں ۔ 19ویں صدی میں باکسنگ کا کھیل بھی ایمچر اور پروفیشنل بن گیا اور کھلاڑی اسے شوقیہ کے علاوہ پیسوں کے حصول کے لیے بھی کھیلنے لگے، جس کے بعد اس کھیل میں کئی شہرہ آفاق باکسروں نے جنم لیا جن میں سے چار کا تعلق پاکستان سے ہے۔باکسنگ کا کھیل پاکستان میں بھی خاصا مقبول ہے اور اس کے کئی علاقوں میں نامور باکسر پیدا ہوئے ہیں۔ پاکستان باکسنگ فیڈریشن کی جانب سے 2010اور 2011ء میں دو بڑے بین الاقومی ٹورنامنٹس کا انعقاد کیا گیا جن میں دنیا کے تیس ممالک نے حصہ لیا۔ کئی پاکستانی باکسرز نے اولمپکس اور کامن ویلتھ گیمز میں تمغے بھی جیتے ہیں۔
باکسنگ کی دنیا میں محمد علی کلے کا شمار عظیم باکسروں میں ہوتا ہے، سب سے پہلے ہم ان کا تذکرہ پیش کرتے ہیں۔

محمد علی کلے
دنیا کے عظیم باکسر اور تین مرتبہ باکسنگ کے ہیوی ویٹ عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کرنے والے کیسئس مارسیلس کلے جو اسلام قبول کرنے کے بعد محمد علی کلے کے تام سے مشہور ہوئے ، 17 جنوری 1942ءمیں امریکی ریاست کینٹکی کے شہر لوئسویل میں پیدا ہوئے اور اپنے والد کیسیئس مارسیلس کلے سینئر کے نام پر کیسیئس مارسیلس کلے جونیئر کہلانے لگے۔جب وہ 12 سالہ کے تھے تو اپنے ایک دوست کےہمراہ لوئسویل شہر کے سالانہ کنونشن میں گئے ۔ وقفے کے دورا ن وہ وہاں آئس کریم اور پاپ کارن کھانے کے بعد دکان سے باہر آئے تو دیکھا کہ ان کی سائیکل موجود نہ تھی ۔ وہ شدید غصے کے عالم میں قریب کھڑے باکسنگ جم کے انسٹرکٹر کے فرائض سرانجام دینے والے پولیس اہل کار جومارٹن کے پاس شکایت کے لیےگئے۔انہوں نے اس سے کہا کہ ان کی سائیکل جس چور نے چوری کی ہے، وہ اس کے ملنے پر اس کی ایسی مرمت کریں گے کہ آئندہ اس کی چوری کی ہمت نہ پڑے گی۔ جو مارٹن ،کسئس کے جارحانہ انداز سے بہت متاثر ہوا اور اسے چور کو سزا دینے کے لیےپہلے باکسنگ سیکھنے کا مشورہ دیا۔یہ کلے کے باکسنگ کیریئر کی جانب پہلا قدم تھا اور’’ جو مارٹن‘‘ ان کے پہلے استاد تھے۔ وہ اس وقت اپنےآبائی نام Cassius Marcellusسے جانے جاتے تھے۔انہوں نے انتہائی کم سنی میںبہت کم وقت میں اس قدر ماہرانہ انداز میں باکسنگ کھیلنا شروع کی کہ امریکا کےمعروف باکسر بھی حیران رہ گئے۔انہوں نے اپنے کھیل کا آغاز29 اکتوبر 1960ء کو آبائی قصبے لوئسویل میں پہلا مقابلہ جیت کر کیا۔ اس کے بعد1960ء سے 1963ء تک نوجوان کیسیئس نے باکسنگ کے 19 مقابلوں میں حصہ لیا جن میںسے ایک میں بھی شکست نہیں کھائی۔ ان مقابلوں میں سے 15 میں انہوں نے اپنے مدمقابل کو ناک آؤٹ کیا۔ ان کے مقابلے کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ مقابلے سے پہلے ہی اپنے حریف کو معینہ راؤنڈز میں ناک آئوٹ کرنے کی پیش گوئی کردیتے تھے اور ان کے لڑنے کا انداز اس قدر پرسکون ہوتا تھا کہ ان کا حریف نفسیاتی ہیجان میں مبتلا ہوجاتا تھا۔ان کی باکسنگ کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے 1960ء میں ہی انہیںروم اولمپِک میںباکسنگ کے مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے بھیجا گیا، جس میں انہوں نے سونے کا تمغہ جیتا۔لیکن تمغہ جیتنے کے بعد جب محمد علی اپنے شہر واپس آئے تو وہ نسلی امتیاز کا شکار ہوگئے۔ وہ ایک ریستوران میں نوکری کے لیے گئے لیکن سیاہ فام ہونے کی وجہ سے انہیں ملازمت پر نہ رکھا گیاجس پر غصے میں آکر انہوں نے اپنا طلائی تمغہ دریائے اوہائیو میں پھینک دیا۔لیکن ان واقعات کے باوجود ان کی کامیابیوں کا سلسلہ چلتا رہا۔ اکھاڑے میں کیسئس کلے کا کردار غیر معمولی نوعیت کا حامل رہا۔ وہ اپنے مخالفین کواپنے روایتی انداز میںچیلنج دیتے اور باکسنگ کے مقابلے جیتتے رہے،جس کی وجہ سے انہیں امریکی عوام عقیدت و احترام کی نگاہوں سے دیکھنے لگی۔فروری 1964ء میں کیسیئس کلے نے باکسنگ کے اس وقت کے عالمی چیمپئن سونی لسٹن کولڑنے کاچیلنج کیا اور انہیں ایک مقابلے کے چھٹے راؤنڈ میں شکست دی۔ اس کے بعد انہوں نے مسلسل سات مقابلوں میں اس وقت کے مایہ ناز باکسروں کو شکست دی۔ویت نام کی جنگ کے دوران جب امریکی فوج کے لیے عام بھرتی شروع ہوئی تو محمد علی کلے نے امریکی فوج میں شامل ہونے کے عہد نامے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا جس کے نتیجے میں انہیں ان کے اعزازات سے محروم کردیا گیا اور 5 سال کی سزا سنائی گئی۔ بعد میں سپریم کورٹ نے عوامی احتجاج کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں سزا سے مستثنٰی قرار دیا۔ پابندی کے باعث ان کا کھیل متاثر ہوا اور جب وہ دوبارہ رنگ میں اترے تو ان کی کے گھونسوں میں وہ دم نہیں تھااور جو فریزیئر نے انہیں شکست دے دی لیکن دوسال کے بعد انہوں نےاسے ناک آؤٹ کرکے بدلہ چکادیا۔

جو فریزیئر اور محمد علی کا یہ مقابلہ باکسنگ کی تاریخ کے عظیم ترین مقابلوں میں شمار ہوتا ہے اور "Fight of the Century" یعنی صدی کی بہترین لڑائی کے نام سے مشہور ہے۔ پھر اکتوبر 1974ء میں انہوں نے اس وقت کے عالمی چیمپئن جارج فورمین کو شکست دے کر اپنا کھویا ہواٹائٹل حاصل کیا۔ اس وقت محمد علی کی عمر صرف 32 سال تھی اور وہ اس اعزاز کو دوبارہ جیتنے والے دوسرے باکسرتھے۔1964ء میں انہوں نے نیشن آف اسلام میں شمولیت اختیار کی اور 1974ء میں باقاعدہ طور سے اسلام قبول کرلیا۔اسی سال منیلا، فلپائن میں ان کا مقابلہ جو فریزیئر سے دوبارہ ہوا ۔ 14 راؤنڈ کےسخت مقابلے کے بعد محمد علی کلے نے فتح حاصل کی۔

فروری 1978ء میں لیون اسپِنکس نامی باکسر سے ہونے والا مقابلہ ان کی زندگی کے لیے بہت بڑا دھچکا ثابت ہوا جب ان سے 12 سال چھوٹے اس باکسر نے انہیں شکست دے کر ان سے عالمی ٹائٹل چھین لیالیکن انہوں نے8 ماہ بعد لیون اسپِنکس سے دوبارہ مقابلہ کیا اور اسے شکست دے کر اپنا کھویا ہوا اعزاز دبوارہ حاصل کیا۔باکسنگ کی تاریخ میں پہلی بار کسی کھلاڑی نے تیسری بار عالمی باکسنگ چیمپئن شپ کا اعزازجیتا۔ اس وقت ان کی عمر 36 سال تھی۔ 40سال کی عمر میں وہ باکسنگ سے ریٹائر ہوگئے۔جب انہوں نے 1996ء کے اٹلانٹا اولمپکس کی مشعل اٹھائی تو اس وقت انہیں ایک سونے کا تمغہ بھی دیا گیا جو اس اولمپک تمغے کے بدلے میں تھا جو انہوں نے دریائے اوہائیو میں پھینک دیا تھا۔ انہوں نے اپنے باکسنگ کیرئیر کے دوران61 بڑے مقابلوں میں حصہ لیا جن میں سے 56 میں کامیابی حاصل کی۔ جون 2016ء میں ان کا انتقال ہوگیا۔

محمد وسیم
پاکستان کےپہلے پروفیشنل باکسر، محمد وسیم 1987ء میں کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔ وہ اس وقت ورلڈ باکسنگ ایسوسی ایشن(ڈبلیو بی اے) کے فلائی ویٹ چیمپئن ہیں۔ اپنےبرق رفتار حملوں اور پرسکون انداز کی وجہ سے انہیں ’’فالکن خان‘‘ کا خطاب دیا گیا ہے۔ انہوں نے اپنا باکسنگ کیرئیر2009ء میں شروع کیا اور اے آئی بی اے کے پلیٹ فارم سے انہوں نے پروفیشنل باکسر کی حیثیت سے باکسنگ مقابلوں میں حصہ لینا شروع کیا، اسی سال انہوں نے تھائی لینڈ کے شہر بنکاک میں ’’کنگز کپ باکسنگ‘‘ مقابلوں میں شرکت کی اور کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ 2010ء میں انہوں نے نیو دہلی میں میں ہونے والے ’’کامن ویلتھ گیمز‘‘ میں پاکستان کی نمائندگی کی اور کانسی کا تمغہ جیتا۔ 2010ء میں ہی انہوں نے ایشین گیمز میں ایرانی باکسر مسعود ریگی کو شکست دی۔ اسی سال چین میں ہونے والے ’’ورلڈ کمبیٹ گیمز‘‘ میں ڈومینیکن ری پبلک سے تعلق رکھنے والے باکسر ’’ڈیگو بیرٹو کوہرایا۔ 2010ء میں ہی ترکی کے شہر استنبول میںمنعقد ہونے والے ’’24ویںاحمٹ کامرٹ باکسنگ انٹرنیشنل ٹونامنٹ‘‘ کے مقابلوں میں انہوں نے کانسی کا تمغہ جیتا۔ 2010ء میں ہی11ویں جنوبی ایشیائی گیمز جن کا انعقاد ڈھاکا میں ہوا تھا، انہوں نے چاندی کا تمغہ حاصل کیا۔ 2011ء میں جکارتہ میں ہونے والے’’21ویں صدارتی کپ‘‘ کے بین الاقومی مقابلے میں ایرانی باکسر رضاکورزریوری اور سنگاپور کے باکسر محمد ہنوری حامد کو شکست دے کر کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ 2011ء میںدوسرے’’ شہید بے نظیر بھٹو انٹرنیشنل باکسنگ ٹورنامنٹ‘‘ کا اسلام آباد میں انعقاد ہوا جن میں دنیا کے 16ممالک نے حصہ لیا۔ ان مقابلوں میں انہوں نے کینیا کے بینن گیچارو اور بھارت کے مدن لعل کو ناک آؤٹ کیا۔ 2014کے کامن ولیتھ گیمز جن کا انعقاد برطانیہ کے شہر گلاسگو میں ہوا تھا، انہوں نے آسٹریلین باکسر مولونی کو ہرا کرچاندی کا تمغہ حاصل کیا۔ 2014ء کے ایشین گیمز میں انہوں نے کانسی کا تمغہ جیتا جب کہ 2016ء میں انہوں نے ڈبلیو بی سی کی فلائی ویٹ چیمپئن شپ میں ’’چاندی کی بیلٹ ‘‘ کا اعزاز جیتا اور یہ اعزاز حاصل کرنے والے وہ پہلے پاکستانی باکسر ہیں۔

سید حسین شاہ
سید حسین شاہ، 1964ء میں کراچی کے انتہائی پس ماندہ علاقے لیاری میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے ہی باکسنگ کا شوق تھا، اس کے لیے انہوں نے مقامی باکسنگ کلبز میں تربیت حاصل کی اور بہت جلد پاکستان باکسنگ فیڈریشن کی ٹیم کا حصہ بن گئے۔ 1980سے 1989ء کے دوران انہوں نے پانچ مرتبہ طلائی تمغے جو کسی پاکستانی کھلاڑی کا ریکارڈ ہے۔ 1988ء میں انہوں نے جنوبی کوریا کے شہر سیول میں منعقد ہونے والے سمر گیمز میں پاکستان کی باکسنگ ٹیم کی نمائندگی کی اور مڈل ویٹ باکسنگ چیمپئن شپ میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران وہ پہلے پاکستانی باکسر تھے جنہوں نے یہ اعزاز حاصل کیا۔ کلکتہ میں ہونے والے سیف گیمز میں انہوں نے بھارتی باکسر کو شکست دے کر طلائی تمغہ حاصل کیا۔ حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیااور انہیں ’’فخر پاکستان‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ان کے کارناموں پر مبنی ان پر ایک فلم ’’شاہ‘‘ کے نام سے بنائی گئی جس میں ان کے حالات زندگی کا مکمل احاطہ کیا گیا ہے۔

حیدر علی
پاکستان کے مایہ ناز باکسر حیدر علی 1979ء میں کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔9 سال کی عمر میں باکسنگ سیکھنا شروع کی اور بہت جلد باکسنگ کے حلقوں میں اپنی جگہ بنا لی۔ 1998ء میں انہوں نے کراچی میں’’ گرین ہل انٹرنیشنل باکسنگ ٹورنامنٹ ‘‘ اور تہران میں منعقد ہونے والی ’’امام خمینی باکسنگ چیمپئن شپ‘‘ کے ٹورنامنٹ میں طلائی تمغے جیتے ۔ 1999ء میں جب وہ 20سال کے تھے تو انہوں نے پاکستان باکسنگ فیڈریشن کے زیر اہتمام قومی چیمپئن شپ میں حصہ لیا اور قومی چیمپئن کا اعزاز حاصل کیا۔ اسی سال وہ نیپال میں منعقد ہونے والے سیف گیمز میں باکسنگ کے مقابلوں کے لیے منتخب کیے گئے اور انہوں نے اپنی زندگی کا تیسرا طلائی تمغہ جیتا۔جون2002ء میں 21ویںایشین باکسنگ چیمپئن شپ کا مقابلہ جیت کر چوتھا طلائی تمغہ حاصل کیا۔ اگست2002ء میں انہوں نے مانچسٹر میں منعقد ہونے والے کامن ویلتھ گیمز میں بھارتی باکسر سام بہادر کو ناک آؤٹ کرکےطلائی تمغہ حاصل کیا۔ 2003ء میں پارک ہل کے مقام پر انہوں نے ایک سخت مقابلے میں ’’تکالوزورلڈ باکسنگ یونین لائٹ مڈل ویٹ‘‘ ٹائٹل حاصل کیا۔ حیدر علی نے اپنےکیرئیر کے دوران باکسنگ کے 9مقابلوں میں حصہ لیا جن میں سے 5میں وہ فاتح رہے ،تین مقابلوںمیں انہیں شکست جب کہ ایک مقابلہ برابر رہا۔

عامر خان
باکسنگ کے عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی، جن کا آبائی وطن پاکستان ہے، ان کے والدین کا تعلق کہوٹہ کے ایک نواحی گاؤں سے ہے،وہ روزگار کے سلسلے میںبرطانیہ منتقل ہوگئے تھے۔ وہ 2009سے 2012ء تک ڈبلیو بی اےچیمپئن اور 2011ء میں آئی بی ایف چیمپئن رہے ہیں۔ انہوں نے 2007ء میں کامن ویلتھ گیمز کا لائٹ ویٹ ٹائٹل جیتا۔ 2014سے 2016تک وہ ڈبلیو بی سی کے سلور ویلٹر ویٹ چیمپئن رہے۔ اپنے باکسنگ کیریئر کا آغاز گیارہ سال کی عمر سے کرنے والے عامر خان نےچند سالوں کے دوران، انہوں نے باکسنگ کے کھیل میں تین انگلش اسکول ٹائٹل، تین جونئیر اے بی ٹائٹل جیتے۔ 2003میں انہوں نے جونیئر اولمپکس میں باکسنگ مقابلے میں طلائی تمغہ جیتا۔ 2004میں لتھوانیا میں منعقد ہونے والے یورپین اسٹوڈینٹس باکسنگ چیمپئن شپ کے مقابلہ جیت کر ایک مرتبہ بھی طلائی تمغہ حاصل کیا اور اس کے چند ماہ بعد کوریا میں ہونے والی ’’لائٹ ویٹ چیمپئن شپ‘‘ کا مقابلہ جیتا۔

جوئے فریزر
جوزف ولیم فریزر جنہیں باکسنگ رنگ میں جوئے فریزر کے نام سے پکارا جاتا تھا، 1944ء میں امریکی ریاست کیرولینا میں پیدا ہوئے۔ وہ امریکا کے پروفیشنل باکسر تھے جنہوں نے 1965سے 1981تک باکسنگ مقابلوں میں حصہ لیا۔ 1970سے1973ء تک باکسنگ کے عالمی چیمپئن رہے ۔ 1969ء میں اولمپکس گیمز کے موقع پر انہوں نے ایمیچر باکسنگ میں طلائی تمغہ حاصل کیا۔ 1970ء میں وہ ہیوی ویٹ چیمپئن بنے اور 1971ء میں صدی کے سب سے سنسنی خیزمقابلے میں محمد علی کلے کو شکست دے کر اپنے اعزاز کا کامیاب دفاع کیا۔ جارج فورمین سے 37 ٹورنامنٹس میں حصہ لیا جن میں سے 32 مقابلوںمیں ان کے حریف ناک آؤٹ ہوئے۔ جوئے فریزر کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ان کی بائیں آنکھ خراب تھی اور انہوں نے اپنے باکسنگ کیریئر کے دوران صرف بائیں آنکھ کے ساتھ عالمی چیمپئن شپ سمیت متعدد اعزازات حاصل کیے۔

جارج فورمین
جارج ایڈورڈ فورمین جنہیں باکسنگ کے کھیل میں ’’بگ جارج‘‘ کے نام سے پہچانا جاتا ہے، 1949ء میں ٹیکساس امریکا میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1969سے 1977اور دوبارہ 1987سے 1997ء تک باکسنگ کے مقابلوں میں حصہ لیا، اس حساب سے ان کا باکسنگ کیریئر 18سالوں پر محیط ہے۔ وہ دو مرتبہ ہیوی ویٹ عالمی چیمپئن اور ایک مرتبہ اولمپک چیمپئن رہے۔ 1973میں انہوں نے جوئے فریزر کو ہرا کرپہلی مرتبہ ہیوی ویٹ چیمپئن شپ کا مقابلہ جیتا، اس کے بعد دو مرتبہ اپنے اعزاز کا کامیاب دفاع کیا۔ 1974 میں ان سے یہ ٹائٹل محمد علی کلے نے چھین لیا۔ 1977ء میں جمی یانگ کے ہاتھوں شکست کے بعد وہ اس کھیل سے ریٹائر ہوگئے۔ 1987ء میں دوبارہ انہوں نے باکسنگ مقابلوں میں حصہ لینے کا اعلان کیا اور 1994ء میں 45سال کی عمر میں انہوں نے اپنے حریف 27سالہ مائیکل مورے کو شکست دے کر ڈبلیو بی اے، آئی بی ایف اور لینل کے ٹائٹل جیتے۔ ان کا شمار باکسنگ کے معمر ترین کھلاڑیوں میں ہوتا ہے1997ء میں وہ اس کھیل سے حتمی طور پر ریٹار ہوگئے۔ انہیں ورلڈ باکسنگ ہال آف فیم اور انٹرنیشنل باکسنگ ہال آف فیم کے اعزازات سے نوازا گیا۔

مائیک ٹائی سن
امریکا کے پروفیشنل باکسر مائیکل گیراڈ ٹائی سن جوملک عبدالعزیز کے نام سے بھی معروف رہ، 1966میں نیویارک سٹی میں پیدا ہوئے۔ 1985ء سے 2005ء تک باکسنگ کے متعدد ملکی و غیرملکی مقابلوں میں حصہ لیا۔ 1986ء میں وہ ورلڈ ہیوی ویٹ باکسنگ چیمپئن بنے۔ 1987ء میں جیمس اسمتھ اور ٹونی ٹکر کو ناک آؤٹ کرکےڈبلیو بی اے اور آئی بی ایف اے چیمپئن شپ کے اعزازات حاصل کیے۔ 1988ء میں انہوں نے مائیکل اسپنکس کو پہلے راؤنڈ کے91ویں سیکنڈ میں ناک آؤٹ کرکے’’ لینل‘‘ چیمپئن شپ جیتی۔ وہ دنیا کے واحد باکسر ہیں جنہوں نے 9مرتبہ عالمی ہیوی ویٹ چیمپئن شپ ٹائٹل کا کامیاب دفاع کیا۔ 1996ء میں وہ ایونڈر ہولی فائیڈ سے شکست کھاکر اپنا ڈبلیو بے اے چیمپئن شپ کا اعزاز کھو بیٹھے۔1997ء میں انہوں نے اپنے ٹائٹل کے حصول کے لیے ہولی فائیڈ سے دوبارہ مقابلہ کیا جس میں انہیں اقنے مقابل کا دایاں کان کانٹنے کی پاداش میں نااہل قرار دے کر مقابلے سے باہر کردیا گیا۔ ٹائی سن کو یہ عالمی اعزاز حاٹل ہے کہ انہوں نے اپنے کیریئر کے دوران 19پروفیشنل فائٹس ناک آؤٹ کی بناید پر جیتیں جن میں سے 12میں وہ پہلے ہی راؤڈ میں فتح یاب ہوئے۔
 

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 213 Articles with 223965 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.