کراچی کا رومیو جیولیٹ مانے جانے والا جوڑا، جس کی محبت نے پورے شہر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا آج کس حال میں ہے جانیں

image
 
نوے کی دہائی کراچی کی تاریخ کا وہ وقت تھا جب کہ ہڑتالوں ، لسانی بلوں نے اس شہر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ اس شہر کے رہنے والے اس وقت کی بے یقینی صورتحال سے یقینی واقف ہوں گے۔ ایسے وقت میں جب ہر شخص اپنی عزت، جان اور روزگار بچانے کی جدوجہد میں مصروف تھا ایک لڑکا اور لڑکی ایسے بھی تھے جو ایک دوسرے کی محبت میں گم شہر میں ایک دوسرے کے ساتھ چین کی بنسی بجا رہے تھے-
 
کراچی کے رومیو جیولیٹ
یہ 30 سالہ کنور احسن اور 18 سالہ رفعت آفریدی تھے جن کو ایک دوسرے سے 1998 میں شدید محبت ہو گئی تھی- کنور احسن ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی کنور خالد یونس کے سگے ماموں زاد بھائی تھے جب کہ رفعت کا تعلق پختون آفریدی قبیلے سے تھا-
 
اس کہانی کا آغاز نارتھ ناظم آباد کے حسین ڈی سلوا کالونی سے ہوا جہاں کنور احسن کے گھرانے کی رہائش تھی اور اسی کے قریب کٹی پہاڑی کے علاقے میں رفعت آفریدی کا گھرانہ آباد تھا ان دونوں گھرانوں میں کافی عرصے سے میل جول تھا-
 
یہ میل جول کنور احسن اور رفعت کے درمیان کب محبت میں تبدیل ہوا اس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا لیکن یہ حقیقت ہے کہ کچھ عرصہ جو کنور احسن نے امریکہ میں گزارا اس دوران بھی وہ کل وقتی طور پر رفعت سے رابطے میں رہے اور ان کی وطن واپسی کا سبب بھی رفعت کی محبت ہی ٹہری-
 
محبت میں ظالم سماج
کنور احسن نے اپنے اس محبت کے تعلق کو شادی میں تبدیل کرنے کے لیے جب رشتہ بھیجا تو وہاں سے نہ صرف انکار ملا بلکہ اس کے بعد سخت ترین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں- یہاں تک کہ کنور احسن خود رفعت کے گھر والوں کے پیروں میں گر گئے اور ان سے رشتے کی درخواست کی-
 
image
 
جس نے رفعت کے گھر والوں کے غصے کو اور بھی بڑھا دیا اور انہوں نے کنور احسن کو سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دیں مگر وہ محبت ہی کیا جو دھمکیوں سے ڈر جائے ان پابندیوں نے رفعت اور کنور احسن کی محبت کی آگ کو اور بھی بھڑکا دیا-
 
گھر سے فرار
دو فروری 1998 کو ان دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ فرار کا فیصلہ کیا اور یہ دونوں ٹرین کا سفر کر کے ملتان پہنچے جہاں کنور کے کچھ خاندان والے آباد تھے ان کی مدد سے ان دونوں کو 500 روپے مہر کے عوض ایک دوسرے کا بنا دیا گیا۔ دونوں کو لگا کہ اب ان کی زندگی سکون مین آجائے گی ۔ ملتان میں نکاح کے بعد یہ دونوں راولپنڈی میں ایک گھر کرائے پر لے کر رہنے لگے اور وہاں کے اوتھ کمشنر کے پاس رفعت نے ایک بیان حلفی بھی جمع کروا دیا کہ اس کے گھر والے اس کی شادی کسی بوڑھے سے کروانا چاہ رہے تھے اور اس نے اپنی مرضی سے کنور احسن سے نکاح کر لیا ہے-
 
اغوا کی ایف آئی آر
دوسری طرف رفعت کے گھر والوں نے کنور احسن کے خلاف اغوا کا پرچہ کٹوا دیا اور ان کی تلاش شروع کر دی اس کے ساتھ ساتھ پورے شہر میں اس واقعے کو لسانی رنگ دے کر پر تشدد واقعات کی آگ بھڑکا دی گئی جس کی وجہ سے کئی لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے-
 
ان واقعات کے سبب یہ ایف آئی آر بہت اہمیت اختیار گئی اور یہ ایک ہائی پروفائل کیس میں تبدیل ہو گیا اور بلاآخر پولیس نے راولپنڈی سے اس رومیو جیولیٹ کو گرفتار کر لیا- ان دونوں کو عدالت میں پیش کیا گیا جہاں رفعت نے خاندان کے تمام تر دباؤ کے باوجود کنور احسن کے حق میں بیان دیا ابھی عدالت نے ان کی رہائی کے پروانے پر دستخط نہیں کیے تھے کہ رفعت کے گھر والوں نے ایک اور پتہ کھیل دیا-
 
رفعت کا فرضی شوہر
رفعت کے گھر والوں نے ایک جعلی نکاح نامہ بنا کر نیاز بٹ نامی ایک شخص کو پیش کر دیا جس کا کہنا تھا کہ رفعت اس کی منکوحہ ہے اور نکاح کے اوپر نکاح ایک جرم ہے اس وجہ سے اس کو انصاف دلوایا جائے-
 
image
 
اس کے بعد ایک اور قانونی جنگ کا آغاز ہو گیا مگر جھوٹ تو جھوٹ ہی ہوتا ہے اس وجہ سے رفعت کے گھر والوں کو بھی عدالتی پیشیوں کے دوران یہ محسوس ہونے لگا کہ ان کا یہ جھوٹ زیادہ دن تک نہیں چل سکے گا-
 
رفعت کے گھر والوں کا انتہائی قدم
جب سب کچھ رفعت کے گھر والوں کے ہاتھ سے نکلنے لگا تو انہوں نے آخری فیصلہ کیا عدالت میں پیشی کے دوران انہوں نے نہتے ہتھکڑی لگے کنور احسن کو گولیاں مار دیں۔ اور ایسا انتظام کیا کہ کنور احسن کو فوری طبی امداد نہ مل سکے-
 
35 منٹ تک طبی امداد نہ دینے کے باوجود اور کئی گولیاں لگنے کے باوجود جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے ۔ شدید زخمی حالت کے باوجود کنور احسن کی زندگی بچ گئی ۔
 
کراچی کے رومیو جیولیٹ اب کس حال میں ہیں
کنور احسن کے خانداںی ذرائع کے مطابق ان پر ایک قاتلانہ حملے کے بعد بھی ان کی زندگی محفوظ نہ تھی اس وجہ سے کنور احسن اور رفعت بیرون ملک شفٹ ہو گۓ جہاں انہوں نے اپنی محبت بھرے گھر کی بنیاد رکھی-
 
ان دونوں کو اللہ نے چار بیٹوں اور چھ بیٹیوں سے نوازہ جس میں سے سب سے بڑی بیٹی 2000 میں پیدا ہوئی اور آج یونی ورسٹی میں زیر تعلیم ہے ۔ اس قاتلانہ حملے کی یادگار کے طور پر کنور احسن آج بھی لنگڑا کر چلتے ہیں اور چلتے ہوئے خصوصی جوتوں کا استعمال کرتے ہیں-
 
اس طرح محبت کی یہ داستان اپنے انجام کو پہنچی جس نے پورے شہر کو دو دھڑوں میں تقسیم کر دیا تھا اور کئی افراد کی موت کا سبب بن گئی تھی-
YOU MAY ALSO LIKE: