میں عمر کے اس دور سے گزر رہا
ہوں کہ جب انسان دوراہے پر کھڑا ہوتا ہے۔ یا تو وہ سیدھے رستے پر چل پڑتا
ہے یا پھر وہ ایسے رستے پر روشنی کی تلاش میں روانہ ہوجاتا ہے جہاں حوس،
درندگی، ظلم، جبر، استبداد اس کے رستے کے ہم نواں بن جاتے ہیں۔ وائے ہو
ہمارے بڑوں پر، جنہیں ہم طاقت کے نشے میں چور بہتر مستقبل کی آس لئے ہوئے
دیکھتے ہیں۔ اک طرف اک باپ رشوت خوری کرکے اپنے بیٹے کو دین و دنیا کی
اخلاقیات سے مالامال دیکھنا چاہتا ہے تو دوسری طرف کوئی باپ معاشرے پر اپنی
اگلی نسل کو اپنی طرح مسلط ہونے کے خواب دیکھتا ہے۔ بڑی کڑوی حقیقت ہے، ہم
آج ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں تکبر، بڑائی جہاں دہشت، عزت اور جہاں
ظلم، حکومت، کی اصطلاحات کے ہم معنی الفاظ میں شمار کئے جاتے ہیں۔ پتا نہیں
کیوں میں بھی اکثر اوقات ان کے اثر و رسوخ، ان کی آسائشوں کو دیکھ کر ورطہِ
حیرت میں آجاتا ہوں اور کہیں نہ کہیں دل میں ان جیسا بننے کے جذبات لے
بیٹھتا ہوں۔ مگر آفرین ہو میرے ماں، باپ پر۔ کہ جن کی تربیت سے میں آج
برائی اور اچھائی میں تفریق کرنے کے قابل ہوں۔ آفرین ہو ایسے ماں، باپ پر،
جو آج بھی اپنے بچوں کو دنیاوی و دینی اخلاقیات و معاشرت سے آگاہ کررہے ہیں
اور بہت خوب کررہے ہیں۔ مگر کیا آپ ایسے ہزاروں نوجوانوں کو روک سکتے ہیں
جنہیں برائی، اچھائی کے غلافوں میں لپٹی نظر آتی ہے۔ جن کی آنکھوں میں بہتر
مستقبل کے سپنے ٹنکے ہوئے ہیں۔ جب وہ اس آرام و آسائش اور ظاہری جاہ و ہشم
کی زندگی کو دیکھتے ہوگے تو متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتے ہوں گے۔ اور جب وہ
اس زندگی کو اور قریب سے دیکھتے ہوں گے تو اس بات کا ادراک کرتے ہوں گے کہ
اگر ایسی جاہ و ہشم کی خواہش ہے تو دوسرے کے حق تلفی سے ہی حاصل ہوسکتی ہے
نہ کہ زورِ بازوں سے۔ یہ ساری باتیں کرنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ میں ناامید
ہوں یا میں آنے والی نسل (جس کا میں خود بھی حصہ ہوں) سے کوئی امید نہیں
رکھتا۔ مگر دوسری جگہ مجھے یہ حقیقت بھی پریشان کئے دیتی ہے، کہ جس قوم کی
خوشی اور غم میں بارود، گولی اور کلاشنکوف بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ کہ جب وہ
قوم خوش ہوتی ہے تو گولیوں کی برسات کرتی ہے اور جب غم سے گزرتی ہے تو خون
کی ہولی کھیلتی ہے۔ آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ اس قوم سے آپ ایسے شدت
پسندی کے عناصر کیسے ختم کریں گے؟ پھر بھی کچھ امید، ان معمارانِ وطن سے
وابستہ کی جاسکتی ہیں، جو علم و فنون کو حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہیں، دین و
دنیا کے معاملے میں جدوجہد کررہے ہیں۔ اور دل میں بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے
چھوٹی چیزوں کیلئے احساس رکھتے ہیں۔ یہ معمارانِ وطن ہمارے لئے نویدِ سحر
ہیں۔ خدارا انہیں صحیح رستے پر گامزن کیجئے ایسی مثالیں بنائیے کہ جس سے
بہتری کی توقع کی جاسکے۔ اک نظم کو پچھلی سے اگلی نسل میں ایک ان دیکھے
رشتے کو اجاگر کرتی ہے۔ جس کے الفاظ سادہ مگر مقصد انتہائی اہم ہے۔
اک تنہا، بوڑھی مائی نے،
دیکھا جو چند جوانوں کو،
اس کے مردہ چہرے پہ،
خوشیوں کی بہار چھاتی گئی،
وہ خوش تھی کہ اب بھی ہے کہیں،
کچھ آس، امید بچ جانے کی،
ذلت سے جان چھڑانے کی،
یہ طالب ہیں اس دنیا کے،
یہ دور کریں گے ظلم و ستم،
یہ عالم ہیں اس دھرتی کے،
یہ توڑیں گے غفلت کے صنم،
یہ علم کے دیپ جلائے گے،
اشجارِ شعور لگائے گے،
اس پاک وطن کی مٹی سے،
ایوان نئے بنائے گے،
پھر میری ارضی بھی ہوگی،
میں اپنا بھی غم کہہ دوں گی،
یہ پوچھے گے کیسی ہو ماں؟
میں ماضی بے کس کھولوں گی،
میں کہہ دوں گی میرا بھی اک،
جوان سہارا ہوتا تھا،
ہر شب کا سہارا لے کر وہ،
نویدِ سحر کو روتا تھا،
وہ مارا گیا، نہلایا گیا،
اس خون میں جو امانت تھا،
اس ملت کے مستقبل کی،
روشن اک ضمانت تھا،
پر تم جو ہو تو سب کچھ ہے،
تم سب کا سہارا بن جاؤ،
بے باکی سے، حق گوئی کو،
ظالم کے آگے تن جاؤ۔
غلطیوں کیلئے معذرت اور اصلاح کا طالب |