افواجِ پاکستان اور میڈیا

فوج کسی بھی ملک و قوم کی حفاظت کی ضامن ہوتی ہے اور پاکستانی فوج نے یہ فرض ہمیشہ بحسن و خوبی ادا کیا ۔ میں جنگوں میں ان کی خدمات کا کوئی تذکرہ نہیں کرنے جا رہی کیونکہ ان کا اعتراف قومی و بین الاقوامی ہر سطح پر کیا گیا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے پاک فوج کے کردارپر جو تنقید کی جا رہی ہے اُس میں کسی قومی مفاد کو پیش نظر نہیں رکھا جا رہا ۔انفرادی واقعات کو میڈیا پر اس طرح تسلسل سے پیش کیا گیا کہ جیسے کسی دشمن فوج کے خلاف کوئی پروپیگنڈا مہم چلائی جا رہی ہو۔ ان واقعات پر ہر پاکستانی کو دکھ ہوا ہر ماں کو سرفرازشاہ کے بے گناہ قتل کا دکھ تھا لیکن اُس کو میڈیا پر جس طرح عوام کے جذبات کو فوج کے خلاف بھڑکانے کے لیے استعمال کیا گیا اُس میں تعصب کی بُو ہر ایک نے محسوس کی یہی کچھ خروٹ آباد کے واقعے میں کیا گیا ۔ وہاں بھی بے بسی کی موت مرتے انسانوں کو دیکھنا کچھ آسان نہ تھا لیکن میڈیا کے ہر گروپ نے دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش میں اُسے بے شمار بار دکھایا اور بلکہ کچھ چینلز حسب معمول اس خبر کو بریک کرنے کا اعزاز اپنے سر لیتے رہے لیکن جب عدالت میں اُن کا دہشت گرد تنظیم سے تعلق ثابت ہو گیا تو اُس کو صرف بطور خبر دیا گیا۔

اب اسی میڈیا نے اُس خبر کو بر یک کرنے میں کوئی سبقت لے جانے کی کوشش نہیں کی جو بیرونی چینلز نے دکھائی جس میں افغان دہشت گردوں نے جو خود کو طالبان ظاہر کر رہے تھے نے ایک درجن پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں کو اغواکرکے انہیں ایک نا معلوم مقام پر ایک قطار میں کھڑا کرکے گولیاں مار کر شہید کیا اور ان تڑپتی ہوئی لاشوں پر گولیاں برساتے رہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ پہلا واقعہ ہے ایسے کئی واقعات سامنے آتے رہے لیکن میڈیا میں کبھی کبھار ہی ان کی کوئی جھلک نظر آئی ۔ میں اسے با لکل بھی مناسب نہیں سمجھتی کہ فوج کے متعلق ایسے واقعات کو زیادہ دکھایا جائے لیکن دوسری طرف فوج کے خلاف تعصب پیدا کرنے کے غیر ملکی یا چلئے تجارتی ہی سہی ایجنڈے پر کام کرنا بھی قرین انصاف نہیں بلکہ حب ا لوطنی کے تقاضوں کے شدید منافی ہے۔ میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہوں اور مجھے کبھی یہ کہنے میں تامل نہیں ہوا کہ میں اسلام کے بارے میں کافی سخت ہوں لیکن سختی کا مطلب یہ نہیں کہ ہر دوسرے شخص کے ایمان پر شک کیا جائے۔ ہمارے اکثر تو نہیں مگر کچھ دانشور، اینکرز اور کچھ کالم نویس صرف اپنی تشہیر کے لیے جذباتیت سے بھرے کالم لکھنے اور پورے ملک کے اسلام پر شک کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے اور مسلسل خود کو طالبان کہلانے والے ان دہشت گردوں کے دفاع میں مصروف رہتے ہیں اور نہ صرف دفاع بلکہ ا ن کی حمایت کو عین اسلام سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ اسلام میں کلیتہ حرام فعل خود کشی کے لیے بھی جواز تلاش کر لیتے ہیں وہ خود بھی جانتے ہیں کہ اللہ نے انسانی جان کو کس قدر مقدس بنایا ہے اور ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے۔ فساد فی الارض کو کتنا بُرا سمجھا ہے لیکن وہ سڑکوں، مسجدوں، ہسپتالوں اور جنازوں میں خود کش حملوں میں مرنے والوں کا قتل جائز قرار دیتے ہیں کیونکہ وہ اُس حکومت میں رہ رہے ہیں جس کے یہ دانشور اور یہ میڈیا خلاف ہے۔ اختلاف رائے کو اختلاف رائے رہنے دیں دشمنی مت بنا دیں اور فوج جیسے ادارے تو پاکستان کی بقا کے ضامن ہیں لیکن دکھ تو اسی بات کا ہے کہ ملکی بقا کوپسِ پُشت ڈال کر صرف اپنی شہرت اور زیادہ معاوضے کے لیے ہر مہینے میڈیا گروپ بدلنے والے اس حقیقت کو نظر انداز کررہے ہیں کہ ملک ہے تو ان کی دانشوری ہے ورنہ اُن کی دانش اُس پایے کی ہر گز نہیں ہے کہ ملک کے بغیر پہچانے جائیں فی الحال تو یہ خوش ہیں کہ وہ عوام الناس میں فوج کے خلاف زہر پھیلا رہے ہیں لیکن مستقبل کی سختی ان کی نظروں سے اوجھل ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے نسٹ میں انجنیئرنگ کے انٹری ٹِسٹ کے لیے بیٹے کے ساتھ جانے کا اتفاق ہوا جہاں ایک خاتون مسلسل فوج کے خلاف ہرزہ سرائی میں مصروف تھیں وہ دوسرے تمام اداروں کو جو حقوق بخوشی دینے پر راضی تھیں اور تمام سہولیات کے لیے انہیں مجاز سمجھ رہی تھیں مثلاََ پی آئی اے اور ریلوے کے فری ٹکٹ، یونیورسٹی اہلکاروں کے بچوں کے لیے مخصوص کوٹہ لیکن ایک فوجی ادارے میں داخلے کے لیے اپنے بچے کو ٹِسٹ دلانے کے باوجود یہ فوج اُسے دنیا کا بُرا ترین ادارہ نظر آرہا تھا۔ جبکہ دوسری خواتین کسی کسی معاملے میں ان کا ساتھ دینے کے باوجود انہیں ٹوکتی رہیں۔ بات ایک خاتون کی رائے کا نہیں بلکہ اُس رویئے کا ہے جو پروان چڑھایا جارہا ہے اور بجائے اس کے کہ ہمارا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا دونوں ان رویوں کو ختم کرنے کے لیے فوج کی قربانیاں دکھائیں وہ مسلسل اُسے ظالم بناکر پیش کر رہے ہیں بجائے اس کے کہ سوات، وزیرستان بلکہ پورے ملک میں اسکی قربانیوں اور دہشت گردوں کے مظالم کی داستان بیان کرے وہ طالبان اور دہشت گردوں کے پاک فوج کے خلاف بلکہ بسا اوقات ہر پاکستانی کے خلاف ان کے اقدامات کے لیے تو جیہات تلاش کرتے رہتے ہیں۔ میڈیا سے میری یہی درخواست ہے کہ خدارا ہوش کے ناخن لیجئے اسلام کی روح کو سمجھنے کی کوشش کیجئے اور اس بات کا ادراک کیجئے کہ اسی فوج کی ہمت ہے کہ آپ ابھی تک دشمن سے محفوظ ہیں اور ایک درجن بیٹوں کی ماؤں کو بھی اپنے جوان بیٹوں کی موت کا اتنا ہی دکھ ہوگا جتنا کسی بھی دوسری ماں کو اس نے بھی اُس کو اس لیے جوان نہیں کیا تھا کہ وہ کسی ایسے نا معلوم مقام پر مارا جائے کہ نہ اُس کا جنازہ اٹھے نہ مزار بنے اور اُسے مرتے ہوئے دیکھ کر بھی ہمارے کیمرے اپنی آنکھیں بند کرلیں کہ مبادا کوئی ان کی قربانی کو خراج تحسین نہ پیش کرسکے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وقت اور تاریخ یقینا اِن مجاہدوں کی قربانیوں سے اپنے صفحات کی تا بنا کی میں اضافہ کریں گے اور ظالم، مظلوم، حرام اور حلال موت کا فرق بھی واضح کردیں گے۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 552692 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.