آخری کال 1600 فٹ کی بلندی سے آئی کہ کچھ نظر نہیں آ رہا...بلوچستان میں تین روز سے لاپتہ پائلٹ کی لاش اور جائیرو کاپٹر طیارہ برآمد

image
 
تین دن قبل پشاور سے تعلق رکھنے والے پائلٹ انسٹرکٹر قاضی اجمل بلوچستان کے ہنگول نیشنل پارک میں موجود تھے جہاں دوستوں کے ہمراہ رات کھانے کا پروگرام طے تھا۔ رات کے تقریباً آٹھ نو بجے کے قریب قاضی اجمل کو اچانک کہا گیا کہ وہ اس علاقے سے نکل جائیں۔
 
قاضی اجمل بلوچستان کے علاقے آواران کے پہاڑی سلسلے میں ایک پُراسرار فضائی حادثے میں ہلاک ہوئے ہیں۔ ان کے ماموں ارباب فاروق خان نے بی بی سی کو بتایا کہ چند روز قبل قاضی اجمل اپنے ہلکے طیارے ’جائیرو کاپٹر‘ پر صوبے کے ساحلی علاقے کنڈ ملیر جانے کے لیے اُڑے اور حادثے کا شکار ہو گئے۔
 
واضح رہے کہ دس دن قبل قاضی اجمل کنڈ ملیر فلائنگ کلب سے تعلق رکھنے والے اپنے دوست طاہر کی دعوت پر اپنے ہلکے طیارے جائیرو کاپٹر پر کراچی سے بلوچستان روانہ ہوئے تھے اور تین دن قبل ان کے خاندان کی جانب سے ان کے لاپتہ ہونے کی اطلاع دی گئی تھی۔
 
گذشتہ رات طیارے کے ملبے سمیت ان کی لاش ملی جس کی تصدیق بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے حکام نے کر دی ہے۔ بی بی سی نے اس طاہر نامی شخص سے رابطہ کرنے کی کوشش کی جو تاحال کامیاب نہیں ہوئی۔
 
'سولہ سو فٹ سے آخری کال آئی'
ارباب فاروق خان نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ دس دن قبل قاضی اجمل اور ان کے بھائی اپنا طیارہ ٹرک کے ذریعے کنڈ ملیر لے کر گئے تھے جہاں انھوں نے تفریحی مقاصد کے لیے فلائنگ کی۔
 
'حادثے کی رات ان کا ہنگول نیشنل پارک میں کھانے کا پروگرام تھا۔ یہ تقریباً دس سے پندرہ لوگ تھے جن میں سے ایک نے اچانک کہا کہ اس جگہ پر ڈاکوؤں کے آنے کی اطلاع ہے جس پر انھوں نے خیمے پیک کیے اور وہاں سے نکلے۔'
 
ارباب فاروق نے بی بی سی کو بتایا کہ قاضی اجمل اپنے طیارے میں کنڈ ملیر جانے کے لیے اُڑے جبکہ ان کے بھائی زمین پر تھے۔ ’اس کی اپنے بھائی کو آخری کال سولہ سو فٹ بلندی سے آئی جس میں اس نے بتایا کہ بہت اندھیرا ہے، کچھ نظر نہیں آرہا۔'
 
بی بی سی نے سول ایوسی ایشن اتھارٹی سے حادثے کی وجوہات جاننے کے لیے رابطہ قائم کیا لیکن تاحال ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا۔
 
image
 
قاضی اجمل کون تھے؟
قاضی اجمل کا تعلق پشاور کے مشہور زمانہ قاضی خاندان سے ہے جو عرصہ دراز سے پاکستان میں فلائنگ کی دنیا سے منسلک رہا ہے۔ قاضی اجمل کے والد قاضی سجاد خود بھی کہنہ مشق انجینیئر اور پائلٹ ہیں۔
 
بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہلکے طیارے متعارف کروانے کا سہرا اسی خاندان کو جاتا ہے۔ قاضی اجمل بین الاقوامی انسٹرکٹر تھے اور سعودی عرب کے شاہی خاندان کے ساتھ خدمات انجام دینے کے علاوہ مختلف بین الاقوامی اداروں میں کام کرچکے تھے۔
 
ارباب فاروق خان نے بی بی سی کو بتایا کہ قاضی اجمل جدہ فلائنگ کلب کے ساتھ بھی وابستہ رہ چکے تھے اور مجموعی طور پر چار ہزار گھنٹے کی پرواز کا تجربہ رکھتے تھے۔
 
قاضی اجمل کے ایک بچپن کے دوست، جو خود بھی پائلٹ ہیں اور بیرون ممالک خدمات انجام دے چکے ہیں، کہتے ہیں کہ فلائنگ قاضی اجمل کا شوق تھا لیکن وہ بڑے حساب کتاب سے چلنے والے اور ماہر پائلٹ تھے جو خطرے مول نہیں لیتے تھے۔
 
قاضی اجمل کے ساتھ کب کیا ہوا؟
ارباب فاروق جان کہتے ہیں کہ کنڈ ملیر اور ہنگول نیشنل پارک جانا ایک معمول کی بات تھی کیوں کہ وہ اکثر مختلف فلائنگ کلبز کے ساتھ کام کرتے تھے۔
 
ارباب فاروق جان کا کہنا تھا کہ تین دن پہلے رات کے وقت اچانک ان کا ہم سے رابطہ منقطع ہوگیا تھا۔ ہمیں صرف یہ ہی پتا چلا ہے کہ انھوں نے رات کے وقت طیارہ اُڑایا تھا۔ جو طیارہ انھوں نے اڑایا تھا وہ ان کا اپنا طیارہ تھا جو کہ جرمنی میں تیار کردہ تھا۔
 
ان کا کہنا تھا کہ ان کے لاپتہ ہونے کے بعد انھوں نے تلاش کی اپیل کی تھی۔
 
لسبیلہ سے مقامی صحافی عبدالغفار لنگا کے مطابق قاضی اجمل کی گمشدگی کے بعد وائلڈ لائف، پولیس، مقامی انتظامیہ کے ارکان تین دن تک انھیں ہنگول نیشنل پارک اور کنڈ ملیر کے درمیانی علاقوں سمیت آواران کے دشوار گزار پہاڑی سلسلوں میں تلاش کرتے رہے۔
 
عبدالغفار لنگا کا کہنا تھا کہ اس دوران قاضی اجمل کے خاندان کے لوگ بھی لسبیلہ پہنچ چکے تھے اور دو دن کی مسلسل تلاش کے بعد گذشتہ رات آواران کے پہاڑی سلسلے میں ایک مقام پولڈاٹ سے وائلڈ لائف کے اہلکاروں کو ان کی لاش اور طیارے کا ملبہ ملا۔
 
image
 
جائیرو کاپٹر کیا ہے؟
حادثے کا شکار ہونے والے قاضی اجمل اپنا ذاتی جائیرو کاپٹر استعمال کر رہے تھے۔
 
فدا حسین اس وقت بین الاقوامی ادارے انفینیٹی ایوی ایشن کنسلٹنسی کے سربراہ ہیں اور عراق کی قومی ایئر لائن کے لیے بطور کنسلٹنٹ بھی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
 
بی بی سی سے گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھا کہ جائیرو کاپٹر ایک چھوٹا، ہلکا اور نازک طیارہ ہوتا ہے جس کو مائیکرو ایئر کرافٹ بھی کہا جاتا ہے اور اس میں پائلٹ کے علاوہ صرف ایک شخص کے بیٹھنے کی جگہ ہوتی ہے۔ 'اس کو عموماً مختلف تفریحی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ساحل سمندر یا کسی اچھے نظارے والے مقام پر اس سے ایڈونچر اور تفریح کے لیے فضائی دورہ کیا جاسکتا ہے۔‘
 
فدا حسین کے مطابق جائیرو کاپٹر کو عموماً پہاڑی اور دشوار گزار علاقوں میں استعمال نہیں کیا جاتا کیونکہ یہ زیادہ بلندی پر پرواز نہیں کرسکتا ہے۔ ’اس کی زیادہ سے زیادہ پرواز دو ہزار فٹ تک ہی ہوسکتی ہے جس کے لیے موسمی حالات پر نظر رکھنا بہت زیادہ ضروری ہوتا ہے۔ معمول سے تھوڑی تیز ہوا اس کو شدید نقصان پہنچنے اور حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔'
 
جائیرو کاپٹر کی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کی پرواز زیادہ طویل نہیں ہوسکتی ہے اور ’اسے کسی بھی صورت میں رات کو استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس میں نائٹ ویژن یعنی رات کو نظر آنے والی سہولتیں موجود نہیں ہوتی ہیں۔'
 
حادثے کی ممکنہ وجوہات
فدا حسین کے مطابق ابتدائی معلومات سے یہی لگتا ہے کہ طیارہ حادثے کا شکار ہوا کیونکہ کنڈ ملیر اور ہنگول نینشل پارک کے علاقے میں ہوا ہمیشہ کافی تیز رہتی ہے۔ 'اس مقام پر مٹی کے پہاڑ ہیں جنھوں نے ہوا کے دباؤ کی وجہ سے مختلف اشکال اختیار کی ہوئی ہیں اور ونڈ کرنٹ بھی تیز ہوتا ہے۔'
 
وہ کہتے ہیں کہ یہاں 'کبھی ہوا تیز اور کبھی آہستہ ہوجاتی ہے یعنی ونڈ پاکٹس تشکیل پا جاتی ہیں جس کی وجہ سے جہاز کی پرواز ناہموار ہوتی ہے اور جائیرو کاپٹر جیسے ہلکے طیارے کے لیے تو انتہائی نامناسب صورتحال ہے۔‘
 
فدا حسین کا کہنا تھا کہ اب تک دستیاب تصاویر کے مطابق لگتا ہے کہ طیارہ سر کے بل ٹکرایا ہے۔ 'اس کا اگلا حصہ مسمار ہوچکا ہے لیکن پچھلا حصہ ٹھیک ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاز کی رفتار زیادہ نہیں تھی اور اس کی ٹکر سامنے سے ہوئی ہے۔'
 
فدا حسین کے مطابق ایک اور اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ جائیرو کاپٹر میں رات کے وقت اندھیرے میں دیکھنے کی سہولیات موجود نہیں ہوتی اور اس وجہ سے بھی جہاز کسی چیز سے ٹکرا سکتا ہے۔ 'تاہم جامع تحقیق اور تفتیش ہی حادثے کی اصل وجہ بتا سکتی ہے۔'
 
ان کا کہنا تھا کہ جائیرو کاپیٹر ہو یا کوئی بھی ملکی یا غیر ملکی جہاز، سول ایوسی ایشن کے پاس اس کا مکمل فلائٹ پلین ہوتا ہے یعنی جہاز کس وقت اڑے گا اور کتنی دیر کے لیے اڑے گا۔ 'یہ سب معلومات فائل کی جاتی ہیں جس کے بعد ان کو سول ایوی ایشن اجازت دیتی ہے تو پھر جہاز اڑتا ہے۔'
 
فدا حسین کہتے ہیں کہ 'میرا نہیں خیال کہ کوئی بھی ایوی ایشن رات کے وقت جائیرو کاپٹر کو اُڑنے کی اجازت دے گا۔'
 
image
 
قاضی اجمل نے رات کو طیارہ کیوں اُڑایا؟
ارباب فاروق جان نے مطالبہ کیا ہے کہ حادثے کی جامع تحقیقات کی جائیں۔
 
'ہمیں بتایا جائے کہ قاضی اجمل نے رات کو طیارہ کیوں اڑایا تھا، ایسا کرنے کے لیے ان کو کس نے کہا تھا۔‘
 
ان کا کہنا ہے کہ ہمارا خیال ہے کہ یہ واقعہ حادثہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے کوئی اور کہانی ہے۔
 
'قاضی اجمل کبھی بھی رات کو طیارہ اڑانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے۔ انھیں یقیناً مجبور کیا گیا ہوگا۔ پتا نہیں وہ کن حالات کا شکار ہوئے تھے؟‘
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: