زندہ نوجوان کو مردہ قرار دے دیا، کمر کے بجائے دل کا آپریشن ۔۔ 21 سالہ نوجوان کے ماں باپ کو ڈاکٹر نے ایسا دکھ دے دیا جس کی مثال کہیں نہیں ملتی

image
 
اولاد کی بیماری انسان کو پریشان کر دیتی ہے اور اگر معاملہ 21 سالہ جوان کا ہو تو والدین کو ہاتھ پاؤں پڑ جاتے ہیں اور وہ جوان اولاد کے علاج کے لیے بہترین ترین سے کم پر راضی نہیں ہوتے- مگر بدقسمتی سے علاج کے شعبے نے بھی اب کاروبار کی حیثیت اختیار کر لی ہے-
 
اس شعبے میں کمائی کے ذرائع کو دیکھتے ہوئے بہت سارے عطائی بھی مارکیٹ میں آگئے ہیں جنہوں نے دیگر کاروباروں کی طرح ہسپتال کو بھی ایک کامیاب کاروبار سمجھ کر اس شعبے میں انویسٹمنٹ کر رکھی ہے اور بڑے بڑے ہسپتال تو بنا لیے ہیں- مگر علاج کرنے کے لیے سرٹیفائڈ ڈاکٹرز کے بجائے غیر مستند افراد کو بھرتی کر لیا ہے-
 
ایسے ڈاکٹر جو کہ اپنے شعبے میں مہارت کے حامل نہیں ہوتے ہیں صرف اور صرف پیسہ کمانے کی دھن میں معصوم انسانوں کی جانوں سے کھیل لیتے ہیں- ڈاکٹروں کی لاپرواہی اور ان کی غفلت سے جڑا ایک واقعہ حال ہی میں کراچی حالات اپ ڈيٹ کے سوشل میڈيا پیج پر مسعود عظمت نامی ایک صارف نے شئير کیا ہے- جس میں انہوں نے واقعات کی تفصیلات اور محمد اویس کی تصاویر کو شئير کرتے ہوئے اس کے ساتھ ہونے والی زيادتی کے خلاف آوازبلند کرنے کی درخواست کی ہے-
 
image
 
تفصیلات کے مطاب‍ق پنجاب کے علاقے گوجر خان میں جہاں اکیس سالہ محمد اویس کمر درد کی تکلیف کے سبب ایسے ہی کچھ عطائی اور لالچی افراد کی لالچ اور نا تجربہ کاری کی بھینٹ چڑھ گئے-
 
کمر میں درد اور تکلیف کے سبب والدین نے اس نوجوان کو راولپنڈی کے قائد اعظم انٹرنشنل ہسپتال میں لے کر گئے جنہوں نے اس کی تکلیف کے خاتمے کے لیے آپریشن کا مشورہ دیا اور محمد اویس کو ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا-
 
جہاں پر قصائی نما ان ڈاکٹروں نے محمد اویس کی کمر کے آپریشن کے بجائے اس کے دل کا آپریشن کر دیا اور اس کی ناکامی کا اعلان کر کے اس کو مردہ قرار دے کر لاش کو لواحقین کے حوالے کر دیا- جہاں انہوں نے اپنے گاؤں میں محمد اویس کی قبر کی تیاری بھی شروع کر دی-
 
مگر جب والدین نے محمد اویس کی لاش وصول کی تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ محمد اویس نہ صرف زںدہ ہے بلکہ اس کی سانسیں بھی چل رہی ہیں جس پر وہ اس کو ایموجنسی میں دوسرے ہسپتال لے کر دوڑے-
 
image
 
جہاں پر ہسپتال انتظامیہ کے مطابق محمد اویس کا پورا جسم کٹا ہوا تھا اس کی تین پسلیاں بری طرح ٹوٹی ہوئی تھیں اور اس کے خون کی سپلائی کی لائن کاٹ دی گئی تھی- مگر وہ اس کے باوجود زندہ تھا اور اس ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد بھی 55 گھنٹوں تک وہ زندہ رہا مگر اس کے بعد زیادہ خون بہہ جانے کے سبب اس کی موت ہو گئی-
 
اس حوالے سے محمد اویس کے والدین کے لیے یہ ایک سخت ترین وقت ہے جن کے جوان بچے کی موت غفلت اور غلط علاج کے سبب ہوئی- اس معاملے کا سب سے افسوسناک پہلو جو کہ سوشل میڈیا کی پوسٹ کے ذریعے سامنے آیا کہ قائد اعظم انٹرنیشل ہسپتال کی انتظامیہ نے ان غریب والدین سے علاج اور آپریشن کی مد میں 21 لاکھ روپے بھی وصول کیے-
 
غریب والدین کے مستقبل کا سہارہ ان سے چھین لیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی تمام جمع پونچی بھی ان سے لے لی گئی اور وہ بالکل خالی ہاتھ رہ گئے- سوال یہ ہے کہ کیا ان معصوم اور غریب لوگوں کو انصاف مل سکے گا-
 
کیا اس طرح کے صحت کے مراکز کے خلاف کسی قسم کی کاروائي ہو سکے گی جو کہ علاج کے نام پر عوام کی جیبوں پر شب خون مارتے ہیں اور اس کے بعد علاج کے نام پر درست سہولیات فراہم کرنے کے بجاۓ ان کی جانوں سے کھیلتے ہیں-
 
YOU MAY ALSO LIKE: