جو تم میں اخلاق میں آگے ہے وہ تصوف میں آگے ہے

اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے انبیاء کرام علیھم السلام کو بھیجتا رہا ہے ۔ اس سلسلہ کی پہلی کڑی حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کی ذا ت مبارکہ ہے ۔ اور آخری کڑی حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ والہ سلم کی ذات مبارکہ ہے ۔ جو خاتم الانبیاء ہیں ۔ آپ صلی اﷲ علیہ والہ سلم نے اﷲ رب العزت کے مکمل دین کو پیش کیا ۔ جو اسلام اور ایمان ہے ۔ اسلام سلامتی سے تو ایمان امن سے بنا ہے ۔ ہر مسلمان کے لئے لازم ہیکہ وہ خود بھی امن وسلامتی سے رہے اور دوسروں کے لئے بھی امن وسلامتی چاہے ۔

جس دین کامل کو آقا علیہ الصلوۃ والسلام لے کر آئے اس دین میں انسان کے لئے ہر طرح سے تربیت کی راہیں ہموارہیں۔اسی کی ایک راہ ، ’’راہ طریقت ‘‘بھی ہے ، جو انسان کی زندگی کا اعلیٰ مقصد ہے ۔مگر آج انسان اس راہ سے بہت دور ہے ،اس راہ پر چلنا تو ہر کوئی چاہتا ہے مگر ، صحیح رہبر (یعنی کامل شیخ طریقت ) سے ناواقف ہے ۔ اسی راہ کو راہ تصوف بھی کہاجاتا ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایک صوفی ہی اس راہ کا صحیح رہبر ہے ، اور صوفی بقول حضرت داتا گنج بخش علیہ الرحمہ ،’’جو خدا کی یاد میں مستغرق ہوکر اس کے غیر سے بری ہوجائے‘‘ ۔(کشف المحجوب)

اگر اس موضوع پر بحث کی جائے تو موضوع کافی طویل ہوگا ، مگر ہم یہاں صرف صوفی کے ایک نمایاں وصف سے بحث کریں گے اور وہ وصف ’’اخلاقی وصف ہے ‘ ‘۔

تصوف کیا ہے؟:
تصوف کی تعریف تو بہت سے اﷲ والوں نے ، اور دانشورعلماء کرام نے بہت جامع اندازمیں کی ہے ۔ لیکن ہم نے اپنے مضمون کا جو عنوان بنایا ہے دراصل وہ تصوف کی ہی ایک تعریف ہے ، جس کو سلسلہ قادریہ کے عظیم بزرگ عارف باﷲ ،ابوالخیر حضرت سید عبد القادرعیسیٰ علیہ الرحمہ نے اپنے معرکۃ الآراء تصنیف ’’حقائق تصوف‘‘ میں کی ہے بلکہ آپ نے اس تصنیف کی ابتداء ہی اس قول سے فرمائی ’’اَلتَّصَوُفُ کُلُّہُ اَخْلَاقٌ فَمَنْ زَادَ عَلَیْکَ بِاْلَاخْلَاقِ زَادَ عَلَیْکَ بِالتَّصَوُّفِ ‘‘یعنی تصوف سارا کا سارا اخلاق ہے ، جو تم میں اخلاق کے اعتبار سے آگے ہے وہ تصوف میں بھی آگے ہے ۔ فی زمانہ یہ تعریف بہت موزوں بھی اور ضرورت کے اعتبار سے لازمی بھی ہے ۔

تصوف عین اخلاق ہے :
حضرت خواجہ جنید بغدادی علیہ الرحمہ نے تصوف کے بابت فرماتے ہیں :’’ایک بد اخلاق نیک وکار شخص کے مقابلے میں مجھے ایک خوش خُلق فاسق زیادہ عزیز ‘‘ ایک اور مقام پر آپ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :’’تصوف دراصل اپنے آپ کو اچھے اورعمدہ اخلاق سے سنوارنے اور تمام بری عادتوں کو چھوڑ دینے کا نام ہے ‘‘اﷲ رب العزت نے قرآن کریم میں اپنے نبی پاک علیہ الصلوۃ والسلام کے اخلاق کریمانہ کو اس طرح بیان فرمایا :’’انک لعلی خُلُق عظیم ‘‘ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی بِعثت کا مقصد بھی کچھ اس طرح بیان فرمایا ہے ’’اِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقْ ‘‘ترجمہ:میں اچھے اورعمدہ اخلاق کی تکمیل کیلئے بھیجا گیا ہوں ۔

اگر ہم صوفیاء کرام کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کریں تو ہمیں اُن کی پاکیزہ زندگیوں میں بھی اخلاق کریمہ کا عُنصر نمایاں نظر آتا ہے ۔ سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اخلاق کس چیز کے مجموعے کا نام ہے، مختصر طورپر بیان کیا جائے تو اخلاق میں دوچیزیں شامل ہیں ۔(۱)حسن گفتار (۲) حُسن کردار ۔اور یہ بھی ضروری ہے کہ اِن دونوں میں اخلاص موجود ہو ۔

حسن گفتار کی بہترین مثال :
اﷲ عزوجل نے حضرت موسیٰ وہارون علیھم السلام کو جب فرعون جیسے سرکش ومغرور کے پاس اپنی دعوت کے لئے بھیجا تو فرمایا ’’قولا لہ قولالینا‘‘ یعنی آپ دونوں ا س سے بات کریں تو حسن گفتار سے کام لیں۔اس ارشاد باری تعالیٰ سے حسن گفتار کی اہمیت کااندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی حسن گفتار کو پسند فرمایا ، روایت میں آتا ہے کہ سرکار علیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہ میں مختلف اوقات میں دومختلف عورتوں کے متعلق دریافت کیا گیا ایک کے متعلق عرض کیا گیا کہ وہ فرض نمازوں کے علاوہ نوافل کا بھی اہتمام کرتی ہے صدقہ واجبہ کے ساتھ نوافل کی بھی پابند ہے ۔ لیکن گفتگو کے اعتبار سے اچھی نہیں ، آپ صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ اس میں کچھ خوبی نہیں وہ اہل دوزخ میں سے ہے ،دوسری کے متعلق عرض کیاگیا کہ وہ صرف فرض نماز ادا کرتی ہے صدقہ واجبہ ہی ادا کرتی ہے مگر زبان کی بڑی اچھی ہے اپنی گفتگو سے کسی کوتکلیف نہیں پہنچاتی ، اس کے لئے آپ صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ یہ نیک ہے اور یہ جنت میں بھی جائے گی ۔ (مفہوم حدیث)

حُسن کردار کی بہترین مثال خود حضور پاک صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی حیات طیبہ میں موجود ہے چنانچہ حضرت انس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی خدمت بابرکت میں 10؍سال رہامگر کبھی بھی آپ صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے میری کسی بھی غلطی پراُف تک نہ فرمایا حتیٰ کہ کوئی قیمتی چیز بھی مجھ سے ضائع ہوجاتی تب بھی حضور پاک صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے کبھی ناراضگی کا اظہارنہ فرمایا۔اتنا عظیم کردار قیامت تک کوئی پیش نہیں کرسکتا ۔ یہی چیز ہمیں صوفیاء کرام کی پاکیزہ زندگیوں اور ان کے اقوال حسنہ میں نظر آتی ہے ۔حضرت خواجہ نظام الدین محبوب الہی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :’’انسان کادل خوش کرنا اوراسکی دل جوئی اورراحت رسانی افضل ترین عمل اور تقرب الی اﷲ کا بہترین ذریعہ ہے ۔اور فرماتے ہیں مجھے خواب میں ایک کتاب دی گئی اس میں لکھا تھا ،جہاں تک ہوسکے دلوں کو راحت پہنچایا کرو،مومن کا دل اسرارربوبیت کا مقام ہے ، اورفرمایا قیامت کے بازار میں کسی سودے کی اتنی قیمت نہ ہوگی جتنی دل کاخیال رکھنے والے اوردل خوش کرنے والے کی ہوگی ‘‘۔ یہ ساری باتیں بلند اخلاق سے تعلق رکھتیں ہیں ۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ کے آخری زمانے میں حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ کو یمن کا گورنربناکر روانہ کیا تو رُخصتی کے وقت آپ صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے ان کوبہت سی نصیحتیں فرمائیں ، جب حضرت معاذ رضی اﷲ عنہ حضور صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے حکم سے اپنی سواری پر سوار ہوئے تو آخری نصیحت جوفرمائی وہ یہ تھی ،’’یامعاذ احسن خلقک الناس ‘‘ یعنی اے معاذ مخلوق کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آؤ۔

مذکورہ احادیث مبارکہ واقوال صوفیاء کرام کو ہم مدنظر رکھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اعمال کا کوئی وزن اس وقت تک قائم ہی نہیں ہوسکتا جب تک کہ انسان کے اخلاق ،کردار وزبان ، اسلامی سانچے میں ڈھل نہ جائیں ، اسی سے اخلاق کی اہمیت کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ اس لحاظ سے حضرت شیخ عبد القادر عیسیٰ علیہ الرحمہ کا نقل کردہ قول بڑا جامع اورعمد ہ ہے ۔ ’’تصوف سارا کا سارا اخلاق ہے جو تم میں اخلاق کے اعتبار سے آگے ہے وہ تصوف میں بھی آگے ہے ‘‘ حضرت علیہ الرحمہ تصوف کی وضاحت کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں ’’تصوف شریعت کا مغز ہے،اور ہر وہ تصوف جس میں شریعت کی مخالفت ہو وہ تصوف نہیں باطل شئی ہے‘‘ (حقائق تصوف )

تصوف کی تعریف جو بزرگان دین نے کی ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ تصوف عین شریعت کا نام ہے لیکن آج کتنے ایسے نام کے صوفی حضرات موجود ہیں جو کہ شریعت سے ہی بے بہرہ ہیں اور تصوف کی اعلیٰ گفتگو کرتے نظر آتے ہیں ،جبکہ ہم سے کئی دل ناراض ہیں کوئی ہماری گفتار سے ناراض ہے تو کئی ہمارے کردار سے بیزار ہے مگر پھر بھی ہم بڑے صوفی بنے بیٹھے ہیں ۔ کسی بھی صوفی کی زندگی میں یہ نہیں ملتا کہ ان کے گفتارو کردار سے کوئی ناراض ہوتا تھا بلکہ ان کو دیکھ کر لوگ اپنی اصلاح کرلیا کرتے تھے ۔ گفتار کا صوفی بننا توآسان ہے مگر کردار کا صوفی بننے کے لئے بڑی محنت ومشقت کرنی پڑتی ہے ۔ بقول حضرت شیخ عبد القاد ر عیسیٰ علیہ الرحمہ ’’ومن لم یذق لم یعرف ‘‘ یعنی جس نے چکھا ہی نہ ہو وہ کیا جانے ۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں صحیح رہبر کی پہچان عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین ۔
 

Syed Hussaini Peeran
About the Author: Syed Hussaini Peeran Read More Articles by Syed Hussaini Peeran: 2 Articles with 2563 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.