مسجدیں اللہ کا گھرہوتے ہیں اور ان گھروں میں ہر کوئی
یکساں ہے،یہاں کوئی امیرنہیںہوتانہ ہی کوئی غریب ہوتاہے۔شاعرِ مشرق علامہ
اقبال کہتے ہیں کہ
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
جب اس گھر میں ہر کوئی برابرہے تو اس میں نہ تعصب کی بات ہے نہ کوئی برتری
کی بات۔لیکن پچھلے کچھ سالوں سے مسجدوں کے حالات بدل چکے ہیں،کئی مسجدیں تو
ملکیت میں شامل ہوگئے ہیں اور مسجد کمیٹیوں کے صدوروسکریٹری یہاں کے مالکان
بن چکے ہیں۔کہاجاتاہے کہ مسجد کا صدر و کمیٹی کے ذمہ داران مسجدکے خادم
ہوتے ہیں ،لیکن اب خادم نہیں بلکہ سب کے سب مالک بن چکے ہیں۔کئی سالوں سے
مسلسل یہ آوازاٹھ رہی ہے کہ امامِ مسجد اور موذنین کی پرواہ کرنے والانہیں
ہے اور مسجدوں کے امام وموذ نین کو نہایت معمولی تنخواہوں پرزندگی گذارنا
پڑرہاہے۔حال ہی میں چند دل سوز واقعات پیش آئے ہیں جسے سننے کے بعد اُمت
میں شائد یہ سوال اٹھے گا کہ آخر کیونکر ہم ہمارے بچوں کو عالم دین بنائیں
اور کس بنیادپر ہمارے بچوں کو مسلمانوں کی امامت یا خطابت کرنے کی ذمہ داری
دیں؟۔ہمارے شہرسے ایک قریبی گائوں میں ایک مسجدمیں امام کی ضرورت تھی جس
کیلئے کسی دوسری ریاست سے امام کو بلایاگیااور انہیں منصبِ امامت سے نوازا
گیا،امام کو رہنے کیلئے مسجد سے منسلک حجرایعنی کمرہ دیاگیا، جب انہوں نے
بتایاکہ ان کی بیوی بچے بھی ہیں اور بچی کی طبیعت ناساز رہتی ہے ،اس کیلئے
وہ اپنے اہل وعیال کو اپنے پاس ہی بلالیں گے۔مسجدکمیٹی کے ذمہ داروں نے
امام صاحب کے اہل وعیال کورکھنے کیلئے ایک گھر دیاجو گھرکی طرح تھا،لیکن
گھر نہیں تھا۔چھت پانی ٹپکتی تھی،کھڑکیاں کُھلی تھیں،فرش بوسیدہ تھا۔ایسے
میں ہی امام نے اپنی شیرخوار بچی اور بیوی کو اس مکان میں رکھا،کیونکہ اکثر
علماء کے تعلق سےملت اسلامیہ کی سوچ ہے کہ علماء تقوے میں رہیں تو انہیں
آرائش کی کیاضرورت ہے۔امام صاحب کی بیٹی دل کی بیماری کی مریض تھی اور
ڈاکٹر نے اس بچی کو احتیاط سے رکھنے کی ہدایت دی تھی۔جب کمیٹی والوں کو اس
تعلق سے بتایاگیاتو مولاناکوصبر سے رہنے کی ہدایت دی گئی نہ کہ گھرکی مرمت
کرواکران کیلئے وسائل بنائے گئے۔ٹپکتی چھت اور ٹھٹرتی سردی کی وجہ سے دل کی
مریضہ بچی کی صحت مزید خراب ہوئی تو اسے اسپتال میں داخل کروایاگیاجہاں پر
وہ کچھ ہی گھنٹوں میں دارِفانی سے رخصت ہوگئی۔ایک عالم،ایک امام اور ایک
انسان ہونے کے ناطے وہ اپنی بچی کو بچانہ سکے کیونکہ اس کیلئے مالکانِ مسجد
ذمہ دارتھے۔دوسراواقعہ یہ ہے کہ ایک مسجدکے موذن جو اپنی معمولی تنخواہ سے
پریشان ہوکر آمدنی کا ذریعہ بڑھانے کیلئے مقامی بچوں کے گھروں میں ٹیوشن
دیاکرتے تھے تو مسجدکے ذمہ داران کی نظرمیں ان کی آمدنی کھٹکنے لگی اور وہ
موذن کے سامنے یہ شرط رکھے کہ اگر وہ ٹیوشن میں پڑھانا چاہتے ہیں تو مسجدکے
موذن کا کام چھوڑدیں یاپھر مسجدمیں کام کرنا چاہتے ہیں تو ٹیوشن پڑھانا
چھوڑ دیں۔موذن نے جب یہ شرط قبول نہیں کی تو انہیں کام سے نکال دیاگیا۔اسی
طرح سے ایک اور مفتی کو غلط فیصلے کرنے کیلئے مسجدکے مالکوں نے دبائوڈالا
تو مفتی نے انکارکیا،اس پر مسجدکے مالکان نے ناراض ہوکر انہیں امامت وخطابت
کے ذمہ دارایوں سےسبکدوش کردیا۔ایسے ہمارے نزدیک سینکڑوں معاملات ہیں،جس
میں کھلے عام اہل علم طبقے کو دھتکارا جارہاہے،ہاں یہ اور بات ہے کہ کچھ
عالم نما شخصیات چاپلوسی،چاٹوگری،جادوگری،تعویز پلیتے،ذبح وفاتحہ
،نظراتارنا اور چڑھانا کے نام پر اپنا پیٹ پال لیتے ہیں اور مسجدکے مالکان
کی جی حضوری میں رہتے ہیں،انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا،لیکن فرق اُن لوگوں کو
پڑتاہے جو حق اورنہ حق کوبتانے کیلئے منصبِ عالمیت و امامت سے جڑجاتے
ہیں۔آپ اپنے مسجدوں کی کمیٹیوں کا سرسری جائزہ لیں،ان میں سے بیشتر لوگ
وہی ہیں جو پوری زندگی کسی نہ کسی حرام خوری یا سیاستدانوں کی چاکری کرتے
ہوئے گذارے ہوئے ہیں۔جب پوری زندگی میں سیاست کے شعبے میں کوئی جھنڈانہیں
گاڑھ پاتے ہیں تو تب جاکر وہ مسجدوں کے مالک بننے چلے آتے ہیں۔کئی سرکاری
افسران جن کاکام رشوت خوری،شراب کے ٹھیکوں پر اپنی عیاشی،سیاسی شعبوں میں
بُری حرکتیں،زنا،شراب نوشی وغیرہ کرنے کے بعد جب دل اچاٹ ہوجاتاہے تو تب
آکر مسجدکے صدربننے یا سکریٹری بننے کے امیدوارہوتے ہیں،ایسے لوگوں سے یہی
تو اُمید کی جاسکتی ہے۔ایک دفعہ ایک ایسے مسجدکے صدر سے بھی سامنا ہواجو
صبح بارہ بجے اُٹھ کرآرہاتھا،کسی نے پوچھاتو صدرنے برجستہ جواب دیاکہ رات
کو تھوڑی زیادہ پی لی تھی تو صبح آنکھ ہی نہیں کُھلی۔جب ہماری مسجدوں کے
ذمہ داران ایسے ہوں تو حق و باطل کو کہنے سے روکتے ہوں تو مسجدوں میں تاثیر
کیسے رہے گی،کیسے مصلیان سکون نماز پڑھ پائینگے؟وہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں
جو طہارت ،پاکیزگی اور غسل کی بنیادوں کو بھی نہیں جانتے وہ بھی مسلک وفقہ
کے مبلغ بنے پھرتے ہیں۔مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے محلوں کا کائونسلر یا
کارپوریٹر تعلیم یافتہ و ایماندارنہ صحیح،کم ازکم مسجد کے صدروسکریٹری کو
ایماندار،پرہیزگاراور تعلیم یافتہ افرادمیں سے منتخب کریں اور مسجدوں کو
ملکیت سے آزادکرائیں۔
|